• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط2

چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط2

مدرسے کی دنیا میں یہ کہاوت بڑی مشہور اور زبان زدِعام تھی کہ وظیفہ مانگنے کے دوران کھانا کھانے سے جسم پر چنبل کی بیماری لگتی ہے  ۔مذکورہ خدائی فرشتے نے یہ کہاوت کچھ زیادہ پابندی اور اہتمام کے ساتھ   کچے ذہنوں پر حاوی کرنے کی کوشش کی تھی ۔وہ وقتا فوقتا چنبل زدہ طالبعلموں کی جانب استاذ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہیں سزا دلانے کی سعی کرتے تھے۔

بعد میں ہم پر منکشف ہوا کہ اس کے پیچھے ایک خاص وجہ کارفرما تھی  ۔ اس گدھ نے گھر میں ایک بڑی فارمی گائے پال رکھی تھی ۔جس کے لئے یہ مدرسے میں بچنے والی خشک روٹیاں بڑی محنت سے چھت پر سکھاتا اور ہفتے کے ہفتے بوریاں بھر کر اپنے بڑے بھائی کے حوالے کرکے انہیں بھجواتا  ۔اس وجہ سے اس کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ روٹیاں جمع ہوں تاکہ اس کی راتب میں کمی نہ آنے پائے ۔

چنبل کے خوف سے نفسیاتی طورپر سہمے ہوئے بیشتر طلبہ وظیفہ مانگنے کے دوران کھانا کھانے سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔۔ لیکن بہت سے ایسے ہوش مند ، زندہ دل اور اعتماد کی قوت سے مالا مال طلبہ کی بھی کمی نہ تھی جو اپنی محنت کا حصہ نقد وصول کرنے میں کسی قسم کی یاوہ گوئیوں ،ا فواہوں اورسازشی تھیوریوں کو خاطر میں لائے بغیر تقشف اور تکلف کے اس ماحول میں بھی موج مستی کی گنجائش نکالنے سے دریغ نہ کرتے ۔

ایسے چنڑوں میں ہم بھی سرفہرست تھے ۔۔۔ ہم نے بڑی حکمت کے ساتھ کچھ مخصوص ساتھیوں سے ایسی سیٹنگ کررکھی تھی تاکہ ہمیں روزانہ ایک ساتھ وظیفہ مانگنے کے لئے جانا نصیب ہو  اور یہ کوشش رہتی تھی کہ نیلو کا کوئی جاسوس یا وفادار ہماری اس گٹھ جوڑ کو نقصان پہنچا نے میں کامیاب نہ ہو ۔

بس پھر کیا تھا ۔۔ جہاں سے اچھی لسّی ملی ،نظر بچا کر پی گئے ۔۔ توے پر بنے ہوئے آلو ،مچھلی یا پھر لذیذ کھانے بنانے والی مہرباں خاتون خانہ کے ہاتھوں بنی ہوئی بھنڈیاں کھا تے ہوئے کبھی بھی ہمارے ہاتھوں میں رعشہ اور جسم میں کپکپی طاری نہ ہوئی ۔ لذیذ طعام کھاکر اس کی جگہ ہم عام سا کوئی بے لذت قسم کا سالن رکھنے میں ذرا برابر بھی دیر نہ کرتے ۔  بالٹی سے بوٹی نکالنے میں ہمارا ایک لنگوٹیا بڑا طاق تھا ۔ وہ سالن ڈلتے وقت بوٹیوں پر کڑی نظر رکھتا اور وظیفہ دینے والی خاتون کے دروازہ بند کرنے پر اعدادوشمار پر مشتمل رپورٹ دیتا  ۔

گھروں سے وظیفہ جمع کرنے کے بعد ہم نے ایک محفوظ گلی کا نکڑ مختص کررکھا تھا ۔۔ جہاں سے کسی کا گزر کم ہی ہوتا تھا ۔ یہاں آکر ہم روٹیوں سے بھری چنگیر رکھ کر زمین پر بیٹھ جاتے اور کچھ دیر سستا نے کے بعدسر پر چنگیر رکھ کر بالٹی اٹھا ئے مدرسے کا رخ کرتے  ۔

وظیفہ مانگنے والے چنڑوں کے پاس صرف ایک ہی برتن ہوتا ہے لہذا شوربے والے سالن کو بالٹی میں ڈالاجاتاہے جبکہ آلو قتلیاں, بھنڈی , مچھلی اور چاول کو چنگیر میں روٹیوں کے درمیان برگر کی طرح رکھنا ہوتاہے۔

میرے والد صاحب جب میرے نانا کے ہاں اپنے زمانہ طالب علمی کے قصے سناتے تو مجھے سب سے زیادہ جو چیز بُری لگتی تھی وہ ایک ہی بالٹی میں مختلف سالنوں کا ملغوبہ تھا ،لیکن مدرسے آکر جب اس بنا کوئی چارہ نہ رہا توعادت پڑہی گئی۔

وظیفہ مانگنا ایک سخت اور پُرمشقت عمل ہے تاہم اس تجربے سے مجھے جو نظریاتی اورشعوری فائدہ ملا ہے وہ بھی کم نہیں۔۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پختون قوم پرست سیاست عروج پرتھی، سرحد کا مُلا اور لبرل دست بگریبان تھے۔ پشتو کے قادر الکلام فلسفی شاعر غنی خان کی شاعری نے پختون ننگیالوں کو مُلا ومسجد سے بیگانہ کر رکھاتھا۔مُلا ومسجد پر تنقید ان کے ہر جلسے کا موضوع تھا۔

دوسری جانب ہم بھی سنتے تھے کہ قوم پرست مسلمان نہیں ہوتے،اتفاق سے ہم جس گاؤں میں تھے وہ قوم پرست سیاسی پارٹی کے ایک سرگرم پارلیمنٹیرین کا ہوم ٹاؤن تھا۔ ہمارے محلے میں ان کاگھر بھی شامل تھا، گاؤں کے وسط میں ایک بہت بڑے دالان پر مشتمل گھر۔۔ گھر میں ہر بھائی کے پاس صرف ایک کمرہ اور ایک کچن تھا۔کچی چھت کے کمروں کی دیواروں پر پرانا پلستربالکل کالا ہوچکاتھا، گھر کے صحن میں بھینسیں بندھی ہوتی تھیں، ہلکی سی بارش سے بھی اتنے کیچڑ پیدا ہوتے کہ چلنا دشوار ہوجاتاتھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے پہلی مرتبہ ان کا گھر دیکھا تو یقین نہ آیا کہ ایک جدی پشتی خان کاگھر اس قدر سادہ بھی ہوسکتاہے۔ خان کے گھر والوں نے طالب علموں کو پابند کیاتھا کہ وہ دیگر گھروں کی طرح باہر کھڑے ہوکر صدا نہیں لگائیں گے۔اپنے گھر کی طرح دہلیز پارکرکے کچن آئیں گے اور ماحضر لے کر جائیں گے۔ اس گھر کی خواتین کتنی مہربان تھیں یہ صرف ایک مسافر طالب علم محسوس کرسکتا تھا۔ ان میں سے اکثر خواتین رات کی باسی روٹی پر گھی لگاکر گرم کرتیں اور یہی روٹی اپنے اسکول جانے والے بچوں کو بھی کھلاتیں اور ہمیں بھی دیتیں، اس گھرانے کے مرد و خواتین کی طالب علموں کے ساتھ محبت اور ہمدردی دیکھ کر مجھے آج بھی حیرت کا جھٹکا لگ جاتاہے  کہ ہم نے انسانوں کو کس قسم کی کیٹیگریوں میں تقسیم کررکھا ہے،مگر اچھے اور بُرے ہر جگہ ہوتے ہیں۔رحمدلی ایک نعمت اور اعلیٰ انسانی وصف ہے جو صرف وسیع الظرف اور محبوب انسانوں کو نصیب ہوتی ہے۔

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply