فیس ایپ کیسے کام کرتا ہے؟ ۔۔۔ پرویز بزدار


آج کل ایک مرتبہ پھر ہر طرف فیس ایپ کے چرچے ہیں۔آئیے   دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟

اگرچہ فیس ایپ کی طرف سے یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ وہ کیا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ایک شاخ ڈیپ لرننگ  کا استعمال کر رہے ہیں۔ ڈیپ لرننگ میں یہ ہوتا ہے کہ آپ پہلے سے موجود مثالوں کی بنیاد پر کمپیوٹر کو چیزیں سکھاتے ہیں۔کمپیوٹر کو سکھانے کا علم بالکل ایسا ہی  ہےجیسے ہم کسی بچے کو سکھاتے ہیں۔فرض کریں آپ بچے کو سکھانا چاہ رہے ہیں کہ بھیڑ اور بکری میں کیا فرق ہے؟آپ اسے ایک سفید رنگ  بھیڑ کی  تصویر دکھاتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ یہ ایک بھیڑ ہے اور پھر ایک کالی بکری کی تصویر دکھاتے ہیں  اور بچے کو بتاتے ہیں کہ یہ بکری ہے۔ اگلے دن وہ ایک سفید بکری دیکھتا ہے تو غالب گمان یہ ہے کہ وہ اسے بھیڑ ہی کہے گا کیونکہ اس نے پہلی مثال سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ بکریاں کالی ہوتی ہیں اور بھیڑ سفید۔ اس بار آپ اسے بتاتے ہیں کہ یہ ایک بکری ہے بھیڑ نہیں  اور شاید وہ اپنے ذہن میں یہ فیصلہ کرلے کہ بکریاں سفید اور سیاہ دونوں ہو سکتی ہیں مگر بھیڑ لازمی سفید ہوتی ہیں۔ اگلی بار وہ سفید بھیڑ دیکھتا ہے اور اپنے پچھلے فیصلے کی بنیاد کی اسے بکری قرار دیتا ہے مگر آپ بتاتے ہیں کہ یہ بھیڑ ہے کیونکہ  اس کے اون ہیں۔ اسی طرح آپ بچے کو علامات بتاتے جاتے ہیں وہ اپنے ذہن کے اندر بھیڑ بکری کے درمیان فرق کےلیے ایک تصور بناتا جاتاہے۔

ڈیپ لرننگ میں بھی کمپیوٹرز ایسے ہی سیکھتے ہیں۔ ہمارے پاس پرانا ڈیٹا موجود ہوتا ہے جس پر انسانوں نے صحیح نام لکھے ہوتے ہیں۔  تصویروں  کے اوپر پہلے سے لکھا ہوا ہے کہ کس تصویر میں انسان خوش ہے اور کس میں اداس وغیرہ۔ سکھانے کے عمل کے دوران کمپوٹر کو ایک ایک کرکے تصاویر دکھائی جاتی ہیں کہ بتائیں اس تصویر میں دکھائی دینے والا انسان خوش ہے یا اداس۔ کمپیوٹر کے جواب کے بعد اسے صحیح جواب بھی بتایا جاتا ہے تاکہ وہ اس عمل سے سیکھ سکے۔ اس طرح ہر تصویر سے کمپیوٹر بھی بچے کی طرح اپنے ذہن میں ایک تصور قائم کرتا جاتا ہے کہ جیسے خوش بندے کے دانت دکھائی دے رہے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب ایسی ہزاروں تصاویر کمپیوٹر کو دکھائی جاتی ہیں تو وہ بخوبی ان میں سے کام کی علامات اخذ کر لیتا ہے۔ اس کے بعد آپ اسے کوئی تصویر دکھائیں تو وہ پہچان جاتا ہے کہ تصویر میں موجود شخص خوش ہے یا خفا ۔ اسی طرح چونکہ اب کمپیوٹر کو اس بات کی سمجھ آ چکی ہوتی ہے کہ کس ایکسپریشن کے کیا علامات ہیں تو کسی بھی تصویر میں وہ ایکسپریشن پیدا کرنے کےلیے وہی علامات اس میں شامل کر لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اگر اس مثال کو ایکسپریشن سے ہٹ کر فیس ایپ میں موجود کچھ باقی فیچرز کے ساتھ لنک کیا جائے تب بھی بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مثال کے طورپر  عمر کی تبدیلی میں ایکسپریشنز کی بجائے مختلف عمر کی تصویروں سے اس کو سکھایا گیا ہے۔ ان تصویروں سے وہ سیکھتا ہے کہ بوڑھے ہو کر جسم پر جھریاں بن جاتی ہیں؛ بال سفید ہو جاتے ہیں، اسی طرح کم عمری میں چہرے کا سائز چھوٹا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔  بالکل اسی طرح وہ مرد اور خواتین کی تصاویر سے بھی سیکھ لیتا ہے کہ ان دونوں کے چہروں میں بنیادی فرق کیا ہیں  ۔ بچپن میں یہ فرق مشکل ہوتے ہیں اس لیے اگر آپ کسی بچے کی تصویر چینج کرنا چاہیں تو بعض اوقات فیس ایپ سے یہ غلطی ہوتی ہے کہ وہ لڑکے کو لڑکی سمجھنے لگتا ہے۔  المختصر یہ کہ انٹرنیٹ پر موجود لاکھوں کی تعداد میں امیجز یوز کرکے کمپیوٹر کو یہ سکھایا گیا ہے کہ کس ایکسپریشن، جنس اور عمر کی علامات کیا ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر پرویز بزدار
مضمون نگار نے کائسٹ جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کر رکھی ہے اور اب جنوبی کوریا میں مقیم ہیں۔ وہ موبائل اور کمپیوٹر کے پروسیسرز بنانے میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply