احسان کے دو درجے السابقون اور اصحاب الیمین/ عثمان انجم زوجان

احسان کے دو درجے ہیں، پہلا درجہ السابقون کا ہے جبکہ دوسرا درجہ اصحاب الیمین کا ہے۔

أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاہ
فَإِنْ لم تَكُنْ تَرَاهُ فإنه يَرَاكَ

تم اللہ کی نوکری ایسے کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو یہ یقین رکھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

صحیح مسلم شریف، جلد اوّل، حدیث 100

یہ حدیث جبریل کا ایک حصہ ہے جس میں احسان کا تذکرہ ہو رہا ہے۔عبد کو معبود کو دیکھنے کا نہیں، عبادت صرف نماز تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ عبادت کا مطلب یہ پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزارنا اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو بہترین انداز میں ادا کرنا، لہذا یہاں سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا کہ ہمیں زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزارنی چاہیے اور یہاں اسی مفہوم میں عبادت اور احسان کا ذکر ہوا ہے۔

اور کامل اطاعت و بندگی اسی وقت ممکن ہے جب اس میں رضا کا عنصر شامل ہو۔

حدیث جبریل کے اس حصے میں غور کرئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے دو درجے بیان کیے ہیں،

1- كَأَنَّكَ تَرَاہ
جیسے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے

2- فإنه يَرَاكَ
جیسے وہ تجھے دیکھ رہا ہے

پہلا درجے والوں کو قرآن نے السابقون جبکہ دوسرے درجے والے کو اصحاب الیمین قرار دیا ہے۔

چنانچہ اب ہم احسان کے ان دو درجوں کو الگ الگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1- السابقون کون ہے؟

اس حدیث میں یہ حقیقت بیان کی گی ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے محبوب کو سامنے دیکھتا ہے اور پل بھر کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا اور اس درجے کو پانے کے لیے محبوب اپنے چاہنے والے سے کامل اطاعت کی شرط لگاتا ہے،

تو وہ شخص اپنے محبوب کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ گناہوں کی دلدل میں پھنستا جائے، اور اپنے محبوب کے رخ انور کی دید سے محروم ہو جائے اس بات کی مزید وضاحت قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ

اور جس شخص نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ احسان کی روش اختیار کرنے والا بھی ہو تو اس نے تھام لیا مضبوط حلقے کو

القرآن، سورہ لقمان، آیت 22

اس آیت سے معلوم ہوا کہ پہلے درجے والے اپنے آپ کو اللہ کی کامل اطاعت میں دے دیتے ہیں، یہ لوگ حقیقت میں “سمعنا و اطعنا” اور “اشد احب اللہ” کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں اور یہی لوگ السابقون کہلاتے ہیں۔

2- اصحاب الیمین کون ہیں؟

پہلے درجے میں تو ہر پہلو سے خود کو اللہ کے سپرد کرنا پڑتا ہے تاہم ہر کوئی اس معیار پر پورا نہیں اترتا، ہر پہلو میں عمل کرنا اگر دشوار نظر آئے تو طبیعت میں رضا کے ساتھ ساتھ جبر کی آمیزش بھی نظر آتی ہے، تو پھر فرائض کی ادائیگی اور محرمات کے ارتکاب سے اجتناب کرتے ہوئے کم از کم اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ کوئی ذات ایسی موجود ہے جو ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس سے ہماری کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں۔

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا كَبٰٓئِرَ مَا تُنۡهَوۡنَ عَنۡهُ نُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَنُدۡخِلۡـكُمۡ مُّدۡخَلًا كَرِيۡمًا

اگر تم اجتناب کرتے رہو گے ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کردیں گے اور تمہیں داخل کریں گے بہت باعزت جگہ پر

القرآن – سورۃ النساء – آیت 31

Advertisements
julia rana solicitors

اس مقام اور درجے میں ایسے لوگوں کا رویہ پہلے درجے والے سے مختلف ہے، وہ اطاعت تو اللہ کی کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر کبائر کا ارتکاب کر جاتے ہیں، مگر ان کی یہ حالت تھوڑی دیر تک ہی رہتی ہے اور جلد ہی وہ اپنے اللہ کے حضور توبہ تائب کر لیتے ہیں، اور اللہ کی رحمت اتنی محدود نہیں کہ وہ صغائر کے ارتکاب پر عذاب دے بلکہ وہ چھوٹی چھوٹی خطاؤں سے درگزر فرما کر عزت والے مقام میں داخل فرماتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply