اخبار کی فریاد

*اخبار کی فریاد*
تحریر: بنت الہدی

یہ ڈائیننگ ٹیبل پر لاشوں کا ڈھیر کیا کر رہا ہے جاو جا کر انہیں دفنا آو۔۔
میں نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔۔
ردا نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر حیرت بھری نگاہ سے مجھے تکتے ہوئے کہا
کیا ہوا؟ یہ کیا کہ رہی ہو۔۔؟ یہاں تو صرف اخبار رکھا ہوا ہے صبح کی چائے کے ساتھ اخبار نہیں پڑھو گی۔۔۔؟
نہیں یہ اخبار نہیں۔۔ یہ سرد خانے بن چکے ہیں مردہ خانے ہیں یہ۔۔۔اب اخبار میں خبریں نہیں چھپتی مردے چھپتے ہیں۔۔۔ جنازے چھپتے ہیں۔۔!
میں نے اخبار اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنا چاہا پر ردا نے آگے بڑھ کر اخبار میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں۔۔ مجھے دو مجھے پڑھنا ہے اخبار۔
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
نہیں اسے مت پڑھو۔۔۔ تم نہیں جانتی روزانہ
کتنی ہی لاشیں ان تصویروں کے اندر سے اپنی مظلومانہ موت پر فریاد بلند کرتی ہیں اور چینخ چینخ کر پکارتی ہیں
بِاَیّذنبٍ قُتِلَت۔۔۔
ہمیں کس جرم میں مارا گیا ہے۔۔۔
کہیں خون آلود سڑک پر لاشوں کا انبار ہے تو کہیں کسی ولی اللہ کے مرقد پر سرخی میں لپٹی لاشیں۔۔ تو کہیں زندہ لیکن ضمیر کی مردہ لاشیں….جو ان تصویروں میں سے باہر نکل کر اپنے دیکھنے والوں کا گریبان پکڑ کر انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔۔۔
کیا تمہیں نہیں سنائی دیتی انکی آوازیں۔۔۔؟
۔نہیں مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تم ہی بتاو یہ اور کیا کہتی ہیں۔۔؟ ردا نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا
میں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔
یہ تصویریں مجھ سے کہتی ہے کیوں خاموش ہو۔۔۔؟ ہمارا درد کیوں نہیں لکھتی۔۔۔؟ کیا تم بھی بے حس ہو۔۔۔؟ ہماری فریاد کیوں نہیں لکھتی۔۔؟ ہماری کہانی بھی لکھو۔۔ ہمارے حق میں لکھو۔۔اٹھاوں اپنا قلم اور ہمارے لہوں کی سیاہی سے قاتلوں کے نام لکھو۔۔۔
تو لکھتی کیوں نہیں۔۔؟ ردا نے پوچھا
میں کہاں کچھ لکھ سکتی ہوں۔۔۔ میں تو خود بے بس ہوں۔۔۔اپنی ہی خواہشات کی اسیر انکا درد کہاں سمجھ سکتی ہوں پھر کیسے تحریر کروں انہیں۔۔۔ کیسے انصاف طلب کروں انکے لئے۔۔۔ ان بے گناہوں کو موت کی نیند سلانے والے بھیڑیوں تک کون پہنچائیگا میری تحریریں۔۔۔ بس اب لے جاو انہیں یہاں سے اور ردی کے ساتھ جلادو اسے بھی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ردا خاموشی سے اٹھی اور اخبار کو زمین پر رکھ کر ماچس کی ڈبیاں لے آئی چنگاری کا جلنا تھا کہ میں نے ایک گہری سوچ سے باہر آتے ہوئے یکدم کہا۔۔
نہیں رک جاو۔۔!
مت جلانا انہیں۔۔
یہ اس آگ میں جلتے ہوئے بھی تو چینخیں گے۔۔۔ چلّائینگے۔۔۔ مجھے مدد کے لئے پکاریں گے۔۔۔
کیا انہیں اس آگ میں جلنے دوں؟
میں بے حس تو نہیں۔۔۔
اور پھر مجھے بھی تو مٹی میں ہی جانا ہے وہاں کیا جواب دوں گی۔۔۔ کیا میں بھی اسی طرح جلوں گی جہنم کی دہکتی آگ میں۔۔۔۔!
ظلم کے مقابل خاموشی بھی تو کفر ہے۔۔۔
ذمین پہ پڑے اخبار کو اٹھا کر ایک نظر دیکھنے کے بعد میں نے کہا
میری خاموشی۔۔۔ میری بے حسی۔۔۔ کل مجھے بھی اسی اخبار میں چھپنے پر مجبور نہ کردے۔۔۔ اور پھر میں بھی ان لاشوں کی مانند فریاد بلند کروں۔۔۔جسے کوئی سننے والا ہی نہ ہو۔۔!
نہیں۔۔۔!
مجھے لکھنا ہوگا۔۔۔
میں لکھوں گی۔۔۔ میں انہیں نہیں بچا سکی مگر انکے قاتلوں کو بھی بچنے نہیں دوں گی۔۔۔یہ سفاک درندے قانون کے ہاتھوں سے بچ کر نکل سکتے ہیں مگر تحریر کی زد سے نہیں۔۔۔میں یہیں سزا دوں گی انہیں اپنی تحریروں میں۔۔۔!!

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply