توہین مذہب اور لاقانونیت

مذہب کے ساتھ ہر خاص و عام کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی مذہب کسی بھی نبی یا اسلامی شعائر کی بے حرمتی پر عام عوام کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ سرِ عام عدالت لگا کر جوچاہے فیصلہ صادر کرے۔ایسے قوانین بنانااور ان پر عمل درآمد کروانا ریاست کا کام ہے ۔جہاں تک بات ہے اسلام کی ،قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو کل بنی نوع انسان کے لئے ایک ابدی قانون کو بیان کرتا ہے ۔ایک خدا اورا یک رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہوئے ہمیں بعض ذمہ داریوں کی طرف بھی متوجہ کیا جاتا ہے۔ لیکن توہین مذہب اور ناموس رسالت کے حوالے سے ہمارے معاشرہ میں عدم برداشت اور لاقانونیت ہر لمحہ فکر انگیز حد تک بڑھ رہی ہے اور اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ منتشر ہجوم کے ہاتھوںمعصوموں کی جانوں کو خطرہ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ کئی گنا بڑھ چکا ہے ۔
حال ہی میں مشال خان کے بے رحمانہ قتل اور اس کی لاش کی بے حرمتی کے بعد بھی حکومتی ناقص پالیسیوں کا عملی نمونہ ضلع چترال خیبر پختونخوا کی ایک چھوٹی سی بستی میں دیکھنے کو ملا جہاں ایک ذہنی بیمار کے بارے میں مبینہ طور پر اس بات کا چرچا تھا کہ اس نے توہین کی ہے اس کو مسجد میں مارنے کی ناکام کوشش کی گئی ، جس پر اما م مسجد نے مجمع کو قابو کیا اور پھر آج بلوچستان کی ایک صنعتی بستی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے توہینِ مذہب کے ایک ملزم کے خلاف نکالے جانے والے جلوس نے تھانے پر حملہ کر کے اسے نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی اور اس دوران مسلح مظاہرین کی جانب سے فائرنگ سے ایک ننھا معصوم بچہ ہلاک ہو گیا ۔3مئی کی رات رحیم یار خان میں بشارت احمد کو اپنے کاروبار سے واپس گھر جاتے ہوئے قتل کر دیاگیا ۔یاد رہے کہ موصوف کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔پاکستان میں جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی ناموس رسالت کے قانون کی آڑ میں چن چن کر قتل کیا جارہا ہے ۔گزشتہ چند دنوں میں ہی مذہبی انتہاء پسندوں کی انتہاء پسند ی کے ایسے کئی واقعات کا بارہا وقوع پذیر ہونا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر سرکاری سطح پر ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے کوئی بھی کوشش کی گئی ہے تو اس کے نتائج کیوں نظر نہیں آرہے اور کب عام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔کیونکہ ملک میں انتہا پسند عناصر کسی خاص مذہب یا عقائد رکھنے والوں کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرہ ہیں، جن کے خاتمے کے لیے حکومت کو بہرحال اپنا مثبت رویہ دکھانا ہوگا۔بجائے اس کے کہ ہر واقعہ کے بعد اس بات کا شور اٹھایا جائے کہ ان کا تعلق کسی بھی مسلم گروہ سے نہیں ہے، دراصل یہ لوگ اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ جس کے لیے اب حکومتی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں ۔

Facebook Comments

سعودرفاقت
لکھاری ،سوشل ایکٹویسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply