• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا جنرل باجوہ ذہنی طور پر بیمار تھے/ٹیپو بغلانی

کیا جنرل باجوہ ذہنی طور پر بیمار تھے/ٹیپو بغلانی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بدترین خامیوں کے باوجود آخری لمحے تک خوب بنی ٹھنی رہی ۔

“خامی” کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال یہاں ایماندارانہ طور پر نہ ہو پایا کیونکہ مذکورہ حکومت کئی “نئی معاشی اور اقتصادی اصلاحات کی منصوبہ بندی کے تعارف اور نفاذ” میں مصروف رہی تھی، ایسے پروگرامز کا نفاذ چونکہ وقت طلب ہوتا ہے لہذا نتائج جلد برآمد ہونے کی توقع رکھنا سراسر کم علمی اور ناتجربہ کاری کا مظہر تصور ہوا۔

رجیم چینج آپریشن کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟
حزب اختلاف کی وہ جماعتیں جو قبر بھی سانجھی نہ کرتیں، بانہوں میں بانہیں ڈال کر، اٹکھیلیاں کرتی ہوئی بڑھیں اور ایوان پر یوں جم کر قبضہ منایا کہ ایوان میں ایک بھی مخالف ان کے درمیان موجود نہ رہا تھا۔

یاد رہے  کہ عدم اعتماد لاتے وقت مخالفین کا نعرہ تھا “مہنگائی کے خلاف عوام کی مدد کرنا اور ملک کی سکڑتی ہوئی خارجہ پالیسی کو جِلا بخش کر نئی جہت اور وسعت بخشنا”۔
وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب نعرے بے ثمر اور بانجھ نکلے۔

کشمکش اور الجھن کے ساتھ یہ ہوا کہ “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی”

رجیم چینج آپریشن پر جنرل باجوہ کے متعدد بیانات اور صحافیوں کے ذریعے وضاحتیں سامنے آئیں جن سے ایک یہ سوال ابھرا
کہ
کیا پی ٹی آئی کی حکومت اقتصادی طور پر بیٹھنے جا رہی تھی؟
جبکہ اس وقت کی ٹیم عالمی وباء کرونا سے جس احسن انداز میں نمٹی اس کی ستائش دنیا بھر نے کی۔

پھر دوسرا سوال یہ کھلبلی مچاتا ہے کہ
وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے امریکہ کو محسوس ہوا کہ اس کا مطیع اور فرمانبردار معشوق سوئچنگ کرنے کی گستاخی کر رہا ہے؟
کیا امریکہ کو لگ رہا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں اس کا اکلوتا اڈہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے؟
امریکہ سے اس بابت بار بار استفسار ہوا پھر بھی وہاں سے تسلی بخش وضاحت آج تک جاری نہ ہوئی۔

رجیم چینج آپریشن کی وجہ دریافت کرنا اب تک کا سب سے متجسس اور تشویشناک مدعا بنا ہوا ہے۔
مین سٹریم میڈیا سمیت مختلف فورمز پر یہ معاملہ لگاتار زیرِ بحث رہا ہے مگر تاحال اس ضمن میں سب سے مقدم اور قابل قبول صحت میں محض دو شواہد، بہ زبان صحافی حامد میر سے سامنے آئے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت حلف لیتے ہی مسائل کی دلدل میں دھنستے دھنستے گردن تک پوری ہو گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب رجیم چینج آپریشن کا خواہشمند امریکہ ڈوبتی ہوئی پاکستانی معیشت کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم کی دگرگوں ساکھ کو ریسکیو کرتا اور اپنا احسان مند بنانے کے ساتھ ساتھ، سرکتے ہوئے اڈے پر پھر سے قدم بھی جما لیتا۔
عین ممکن تھا کہ امریکی تھنک ٹینکس کی مخلصانہ مشاورت اور نقد امداد سے پاکستان کی اقتصادی حیثیت میں مثبت تبدیلی آ جاتی اور عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہو جاتا۔
اسٹیبلشمنٹ کی بھی کچھ عزت رہ جاتی اور عوامی مزاحمت کا پیمانہ بھی کم ترین ہو جاتا۔
ڈالر کی بہار اچھے اچھے بیماروں کو شفا یاب کر دیتی ہے۔

مگر ہوا یہ کہ ممکنہ امریکی امداد کی امید ناامیدی میں بدل گئی اب تو بے یقینی اس حد تک گھیر چکی تھی کہ ہر عوامی جھمگٹے میں ریاست کی معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔
خود پی ڈی ایم کے اہم عہدیداران نے اس ابتلاء کی کیمرہ کے سامنے متعدد بار تصدیق کی جو کہ ریکارڈ پر درج اور محفوظ ہے۔

ایک انٹرویو میں حامد میر نے پی ڈی ایم وزیر اعظم شہباز شریف سے گلہ کیا کہ جب آپ کو لایا ہی امریکہ تھا تو پھر مشکل وقت میں اس نے آپ کی مدد کیوں نہ کی؟

یہ سوال ایسے نازک وقت میں پوچھا جا رہا تھا جب پی ڈی ایم وزیراعظم ملکوں ملکوں ادھار مانگ مانگ کر دنیا بھر میں ہنسی مذاق اور طنز و مزاح کا سامان بن چکے تھے۔
ان کے داغدار دامن میں امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے ایک دھیلہ تک نہ گرا۔

پی ڈی ایم وزیر اعظم نے اس وقت سوال کا جواب بالکل نہ دیا، آئیں بائیں شائیں کر گئے۔

لیکن یہ جواب آج ہمارے مضمون کے مفروضہ کے لیے بہت بڑا جواز فراہم کر گیا۔

جب حالیہ سہہ ماہی میں مختلف اہم شخصیات کی جانب سے اس خدشے کا اظہار ہوا کہ سائفر ڈونلڈ لو نے لکھا نہیں تھا بلکہ اس سے یہ لکھوایا گیا تھا۔

اسی بیان کی جرح کریں تو صاف واضح ہے کہ امریکہ کی اس آپریشن میں عدم دلچسپی رہی، آخر تک، اس نے یہ فتح اپنے نام کی اور نہ ہی ریاست اور عوام کی مدد کے لیے میدان میں اترا۔
امریکہ کی یہ لاپرواہی اور عدم توجہی بہت بڑی چغلی کھا رہی تھی کہ یہ آپریشن اس کی خواہش پر نہیں ہوا۔

ماہرین نے سائفر کے جواز پر متعدد بحثوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جنرل باجوہ کی طرف سے امریکہ کو بار بار یہ باور کرایا گیا کہ عمران خان آپ کے لیے مخلص نہیں ہے لہذا اسے تلف کیا جائے
گویا عمران خان یہاں جنرل باجوہ کے لیے ذاتی مسئلہ بنا ہوا تھا نہ کہ امریکہ کو خود کو خار آ رہی تھی۔
اس ذاتی مسئلے کو باہمی مفادات کے اتحادی اور محافظ نے بروقت حل کرنے کے لیے وہی کچھ لکھ کر بھیجا جو لکھنے کے لیے یہاں سے فرمائش کی گئی۔

یہ بہت اہم جانچ تھی لیکن اس نتیجہ کے لیے مزید نفسیاتی ثبوت کی فراہمی از حد ضروری ہے تا کہ مفروضہ کو منطقی شکل نصیب ہو سکے۔

اس سلسلے میں اگلا بیان بھی سینئر تجزیہ کار حامد میر کا ہی ملتا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں
“عمران خان اکثر و پیشتر جنرل باجوہ کو شٹ اپ کال دے دیا کرتے تھے اور انہیں انتظار بھی کرواتے تھے”۔

یہ انکشاف ہمیں جنرل باجوہ کی شخصیت کو باریکی سے سمجھنے میں براہ راست مدد فراہم کر رہا ہے۔

شٹ اپ کال دینے کا مطلب یہ ہوا کہ مختلف اہم میٹنگز میں جب دوسرے لوگ اپنی رائے دے رہے ہوتے تھے اور ان کے درمیان جنرل باجوہ بھی اپنی رائے رکھتے اور بطور آرمی چیف اور بطور سپیرئیر، اپنی اس رائے کو حتمی رائے کی شکل دینے کی بھی کوشش کرتے تو عمران خان انہیں نہ بولنے کا کہتے یا درمیان میں ٹوک کر کہتے کہ نہیں نہیں ایسا نہیں، یا کہتے کہ چھوڑیں یہ بات، یہ بات اس طرح سے نہیں یعنی آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔

یہاں تو تو اور میں میں ہونے کی بُو بھی سموئی ہوئی ہے۔

اس کا اندازہ عمران خان کے ایک بیان سے لگایا جا رہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ انہیں پلے بوائے کہہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس ان کی ویڈیوز اور ریکارڈنگز ہیں.

منہ ماری ہونا تو اب صاف ظاہر ہے۔

دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ وزیراعظم، اس وقت کے چیف کو انتظار بھی کرواتے تھے۔

چیف صاحب کی تو یہ توقعات ہوتی تھیں کہ جب وہ میٹنگ ہال میں پہنچیں یا پی ایم دفتر میں پہنچیں تو جو بھی لوگ وہاں موجود ہیں ان کے پروٹوکول میں وہ فوراً ہال یا کمرہ چھوڑ دیں، جو بھی کاروائی چل رہی تھی وہ معطل کر دی جائے یا برخاست کر دی جائے اور ان کے اعزاز میں وزیراعظم صرف اور صرف، پورے کا پورا ان کا ہو کر ان سے ملاقات کریں۔
لیکن جب انہیں انتظار گاہ میں انتظار کرنا پڑ جاتا تھا تو شاید وہ انتظار کر بھی لیتے لیکن ان کے اردگرد وزیر اعظم کا سٹاف انہیں جب گھورتا ہو گا تو یہ چبھتی ہوئی نگاہیں انہیں ان کی نظروں میں کمتر اور بے وقعت بناتا ہو گا۔
اس دوران شاید انہوں نے اس انتظار اور روک ٹوک کو اپنے لیے بےعزتی سمجھا۔
ان کے دل میں وزیراعظم کے خلاف نفرت کے جذبات پلنا شروع ہوئے اور وہ انتقام لینے کے متعلق منصوبہ بندی کرتے رہے۔

کوئی آدمی ایسا کیوں سوچتا ہے،؟ وہ اس طرح کی دماغی اور جذباتی کشمکش کا شکار کیوں ہوتا ہے؟ وہ سب سے بالاتر نظر کیوں آنا چاہتا ہے؟ اس کے لیے پروٹوکول کے معیار اس قدر ہائی فائی کیوں ہیں؟

ان سب سوالات کے لیے نارسزم (نرگسیت پسندی / انا پرستی / میں ہی سب کچھ ہوں) کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے.

نارساسسٹک پرسنلٹی ڈساڈر (narcissistic personality disorder):

پاکستانی سماج میں بہت سے لوگ مجبوراً یا لاعلمی کی بنیاد پر نارساسسٹس کے رحم و کرم پر ہیں۔
یہاں میں ان نرگسیت پسندوں یا “میں کے ماروں” کا تذکرہ کروں گا جو دفاتر اور کام کرنے والی جگہوں پر اختیار عہدوں پر تعینات ہیں۔
ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنا جسمانی اور ذہنی اذیت کو ناقابل برداشت حد تک جھیلنا ہے، جبکہ نارساسسٹ اپنے شکار کی اس کیفیت سے نشہ کشید کرتے ہوئے مکمل طور پر لطف انداوز ہوتا ہے۔
وہ خود کو سماج کا ٹھیکیدار اور دنیا کے چکر کا رکھوالا سمجھتا ہے۔
ایسے نفسیاتی بیمار لوگ خود کو ٹھیک جبکہ اپنے ارد گرد موجود اچھے خاصے ٹھیک ٹھاک لوگوں کو بیمار اور پاگل سمجھتے ہیں اور انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔
اپنی بیماری کو جب وہ تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر ہسپتال جانا تو نہایت دور کی بات ہے۔

اس ضمن میں آپ لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم “دی شٹر آئی لینڈ” ملاحظہ کیجیے۔

ایسے بیماروں کے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی یا ان کے جذبات کا احترام کرنے کی صلاحیت ناپید ہوتی ہے البتہ ایسے نارساسسٹ شرمندگی اور ندامت ضرور محسوس کرتے ہیں۔
لیکن یہ شرمندگی اور ندامت اس وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی کہ انہیں اپنی غلطیوں کا ادراک اور احساس ہے۔
بلکہ ناک اس لیے کٹ رہی ہوتی ہے کہ وہ موقع پر پکڑے کیسے گئے
ایسے بیمار لوگ انتہائی شاطر اور چالاک ہوتے ہیں اور اپنی غلطیاں چھپانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
ان کا مزاج اونٹ کی طرح کینہ پرور ہوتا ہے۔۔
دوسروں سے حسد میں مبتلا رہنا، مطلب نکالنے کے بعد فریب دے دینا، اچھائی کے بدلے بھی دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا، ہیرا پھیری کرنا، بات کا مفہوم بدل دینا، اپنے آپ کو پھنے خان سمجھنا، ہیرو سمجھنا، ہر معاملے میں اپنا حق جتنا اور سب سے پہلے قبضہ جما لینا، کسی کو خاطر میں نہ لانا اور سب سے اہم بات یہ کہ سب سے ہر وقت صرف اور صرف اپنی تعریف سننا ان کی خوراک اور غذا ہے.

سادہ تعریف انہیں خانہ پُری لگتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق صاحب بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی تعریف ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
ضیا الحق صاحب بھٹو صاحب سے کہتے تھے کہ آپ کمانڈر ہیں بغیر وردی والے کمانڈر۔
ضیاء الحق صاحب نے بھٹو صاحب کے لیے کمانڈر کی وردی بھی سلوا رکھی تھی جسے بھٹو صاحب اکثر اپنے آفس میں زیب تن کر کے بیٹھتے اور اتراتے۔
بھٹو صاحب کی نرگسیت پسندی پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے لیکن یہاں مدعا کچھ اور شامل حال ہے۔

سادہ تعریف نارساسسٹ کو مطمئن نہیں کر پاتی، اسے ایسی تعریف چاہیے جو اسے سب سے بہترین ثابت کرے

“توں آخری ہیں ڈھولا، تیڈے بعد قیامت اے”۔۔

اور اگر کسی نے نارساسسٹ کو توجہ نہیں دی، اسے خاص مقام نہیں دیا اور اس سے کسی قسم کی لاتعلقی برتی گئی، اسے نظر انداز کر کے کوتاہی کی گئی
جیسا کہ بقول حامد میر صاحب کے، عمران صاحب ایسا رویہ باجوہ صاحب کے لیے دہراتے رہے ہیں تو پھر جواباََ نارساسسٹ طیش میں آ کر انتقام اور بدلہ لیتا ہے۔
وہ اپنے مخالف کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہو جاتا ہے

نارساسسٹ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں سب کچھ مکمل ہوتا ہے۔

خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں پرفیکٹ بن کر رہنا کیسا ہوتا ہے اس کے لیے لیو نارڈو ڈی کیپریو کی دوسری فلم “ڈیسیشن” بطور ریفرینس ضروری دیکھی جا سکتی ہے۔

خود پسندی اور “میں کی دنیا” میں رہنا ہمیں اسوقت ہی مطمئن اور آسودہ ء خاطر رکھ سکتا ہے جب ہمارے ارد گرد ہمہ وقت تعریفوں کے پل باندھ دینے والے، زمین اور آسمان کے قلابے ملا دینے والے، مرید، عاشق اور قصیدہ گو موجود رہیں۔

نارساسسزم پر ماہر ڈاکٹر رامنی درواسلا کہتی ہیں کہ ہم بہت خود-جذب (self-absorbed) ہوتے جارہے ہیں، کسی نارساسسٹ کی مانند۔ ماڈرن دنیا میں ہم انہی لوگوں کو تمغے پہنا رہے ہیں جو عام لوگوں کی زندگی اور دنیا کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر سب ہی سوچتے ہیں کہ “ہمدردی” کا کوئی فائدہ نہیں۔

نارساسسٹ ہونا بہت تکلیف دہ عارضہ ہے، اس عارضہ میں مبتلا مریض ہمہ وقت خود ستائشی کی جستجو میں خوار ہوتے رہتے ہیں۔
ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے دوسرے لوگ اسے دیکھیں اور اسے سراہیں اور داد پیش کریں۔

عمران خان سے یہ نہ سکا، آج اس کی قیمت ملک اور قوم دونوں چُکا رہے ہیں۔
کیا ابھی بھی مزید نارساسسٹس بھی موجود ہیں اور ان کے طیش کی آگ میں ملک کا مستقبل بھسم ہوتے رہنا باقی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply