احساس سے عاری قوم مبارک

2017 کے آغاز سے ہی پاکستان میں بم دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا 13 فروری سے 21 فروری تک چھوٹے بڑے دس دھماکے ہوۓ .
نقصان ہر جگہ ہوا، قیمتی انسانی جانیں گئیں لیکن سیہون شریف پر دھماکے کا غم سب سے زیادہ رہا . کیونکہ دھماکہ جمعرات کو کیا گیا اور جمعرات کو کسی بھی مزار پر زائرین کی تعداد عام دنوں سے زیادہ ہوتی ہے .
شام میں جب دھماکے کی خبر آئی تو ہر طرف ایک سناٹا سا پھیل گیا .سب جانتے تھے جانی نقصان اور زخمیوں کی کوئی حد نہ ہوگی . لیکن جیسے ہی میں نے فیس بک کھولا منظر مختلف تھا ایک عجیب سا شور ، بحث اور اختلاف جاری تھا .کوئی مزار پر ہونے والے دھمال کے حق میں قصیدے پڑھ رہا تھا کوئی دھمال کو حرام حرام کے نعروں سے نواز رہا تھا . کوئی مرنے والوں میں شیعہ سنی تلاش کر رہا تھا تو کوئی حکومت کو گالیاں دے رہا تھا . ان سب میں کچھ دیر شامل رہنے کے بعد اچانک خیال آیا کہ مرنے والوں کا کیا بنا ؟ کتنے مرے ؟ کتنے زخمی ؟ علاج کہاں ہو رہا ہے ؟ حالات کیا ہیں ؟ فیس بک پر چند لوگوں کے علاوہ کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا کہ دھمال حلال ہو یا حرام مرنے والا تو میری اور آپ کی طرح انسان تھا.
پھر تصاویر کا ایک تانتا بندھ گیا .پہلے ایک سیلفی آئی ،ایک نوجوان لاشوں کے ڈھیر کے ساتھ تصویر کھینچ رہا ہے . سب نے وہ تصویر شئیر کی اور ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس نوجوان کی خوب عزت افزائی کی.پھر ایک تصویر آئی ایک چھوٹا سا فیڈر خون میں لت پت زمین پے گرا ہے . سب دوستوں نے شئیر کی میں نے بھی شئیر کی ، تکلیف کا اظہار کیا. سوچا کہ نجانے کتنی منتوں مرادوں کے بعد یہ بچہ اس دنیا میں آیا ہوگا ؟ پل بھر میں ڈھیر ہو گیا ہوگا . نجانے اس کے کسی رشتےدار نے جب یہ خون آلود تصویر دیکھی ہوگی تو فیڈر پیچان کر اسے کیسا لگا ہوگا ؟
لیکن ان تصاویر سے ، مرنے والوں کی روز بڑھتی تعداد سے اور ہسپتالوں اور عام انسان کو بنیادی سہولیات فراہم نہ ہو پانے سے زیادہ اہم مسلہ ہی زیر بحث رہا اور اب تک ہے …
وہ مسلہ ہے دھمال جائز یا نا جائز …..دھمال حلال یا حرام .
شیما کرمانی جی میدان میں اتریں اور سیہون میں دھمال کا اہتمام کیا . بس پھر رہی سہی کسر بھی نکل گئی . کچھ لوگ اس دھمال کو محبت اور امن کا پیغام سمجھ کر اس کی تعریفوں سے صفحے بھرنے لگے تو کچھ اس عمل کو ننگے سر ، مردوں کے بیچ ناچ سے تشبیہ دے کر شیما کرمانی پر برس پڑے .
وہ لاشیں ، وہ تڑپتے زخمی ، وہ زخموں کی تاب نہ لا سکنے والے اور وہ خون آلود فیڈر اپنی اہمیت کھو چکے یا شاید کبھی اہمیت حاصل کر ہی نہ پائیں . کسی نے ایک لمحے نہیں سوچا کہ اگر دھماکے میں مرنے والوں کے پیاروں نے ہمیں یہ بحث کرتے دیکھا ، سنا یا پڑھا تو انکے دل پر کیا گزرے گی ؟دھمال کا تو پتہ نہیں انسانیت ہار گئی . احساس ہار گیا . بحث جیت گئی . اختلاف جیت گیا .
یہ سب لکھنے کا مقصد آپ کی بحث میں خلل ڈالنا ہرگز نہیں تھا بس بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ جب کل میں اور آپ بھی کسی دھماکے کی نظر ہوں گے تو اسی قسم کی گفتگو ہمارے جانے پر بھی ہو گی … تیار رہئے گا. آپ اور مجھے احساس سے عاری قوم مبارک

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply