منشوری نشست اور چند تحفظات/سیّد بدر سعید

عام انتخابات جیسے جیسے قریب آتے جا رہے ہیں ویسے ویسے خوبصورت خواب اور سبز باغ دکھانے کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے دعوے بھی کیے گئے ہیں جو موجودہ حالات میں کسی صورت قابل عمل نہیں لگتے۔ بعض سیاسی امیدوار ایسے نعرے بھی لگاتے نظر آرہے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں اپنا پورا الیکشن اپنے “منشور” کو بنیاد بنا کر لڑتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کا منشور عوام کے سامنے رکھا جاتا تھا اور اس پر مکالمے ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کا نعرہ ”روٹی کپڑا اور مکان“ آج بھی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہو سکا۔ سیاسی نعرے بھی ایک مخصو ترتیب کے ساتھ بدلتے تھے۔ ملکی سطح پر ہونے والا دعویٰ حلقہ کی سطح تک آتے آتے کمزور ہو جاتا تھا۔ سیاسی جماعتیں اپنا پارٹی منشور واضح کرتی تھیں جن میں وفاقی سطح کے مسائل پر بھی بات ہوتی تھی لیکن حلقے کے امیدوار اپنے علاقے کے مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ یہ سب مل کر ایک پارٹی بیانیہ کو تشکیل دینے کا باعث بنتے تھے۔ زیادہ تر تو یہ منشور بھی باتوں کی حد تک ہی محدود رہے البتہ انفرادی سطح پر کچھ سیاست دانوں نے اپنے علاقوں کے لیے بھرپور کام کیا۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی کو جب اختیار ملا تو انہوں نے کسی قسم کی تفریق رکھے بنا بے حساب ملازمتیں بانٹیں اور اس حد تک چلے گئے کہ ان کے ساتھ والے حلقے کے بیروزگار بھی ان کے ”متاثرین“ میں شمار ہونے لگے۔ انہوں نے اس ”جرم“ پر جیل کاٹی اور پھر “بے گناہ” قرار پائے۔ چند سال مقدمات اور سزا بھگتنے کے بعد وہ ایک بار پھر الیکشن لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ شاید جیل سے باہر آنے کے بعد انہیں کسی نے بتا دیا ہو کہ اب بھی کئی نوجوان بیروزگاری کی وجہ سے مجرم بنتے نظر آ رہے ہیں لہٰذا انہیں کسی دفتر میں ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ بہرحال ایسے دانے سیاسی دیگ میں خال خال ہی نظر آتے ہیں، باقی ساری دیگ تو ”تھلے“ لگی ہوئی ہے۔

بدقسمتی سے اس سال الیکشن کے دوران ایسے نعرے اور منشور سامنے آئے جنہوں نے سب کو حیران کر دیا۔ اس حوالے سے سب سے اچھا منشور ایک نئی جماعت نے دیا جو بظاہر بہت اچھا لگتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس جماعت نے جو دعویٰ کیے وہ عملاً ممکن ہیں؟

اگلے روز لاہور کے کاسموپولیٹن کلب میں ریاض احمد احسان کی جانب سے ایک “منشوری نشست” کا اہتمام کیا گیا . ریاض احمد احسان مرکزی مسلم لیگ کے لاہور چیپٹر کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں لیکن ہم انہیں ایک دانشور اور شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ وہ روزنامہ نئی بات میں کالم لکھتے تھے تو پیر بھائی کی طرز پر ”کالم بھائی“ کے طور پر ان سے نشستیں ہوتی تھیں۔ کوچہ صحافت سے کوچہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ریاض احمد احسان فلاحی کاموں میں انتہائی متحرک نظر آنے لگے۔ وہ بہت تیزی سے اپنے سفر طے کرتے ہوئے مرکزی مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر پہنچے اور انہیں باقاعدہ ٹکٹ ہولڈر بھی بنا دیا گیا لیکن الیکشن کا موسم شروع ہونے سے قبل ہی ریاض احمد احسان نے یہ ٹکٹ واپس کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک کارکن کے طور پر عوام کی خدمت کے مشن میں مصروف ہیں اور اپنے فلاحی کاموں پر ٹکٹ کی طلب کا داغ نہیں لگنے دینا چاہتے۔ بہرحال کاسمو پولیٹن کلب کی اس نشست میں مرکزی مسلم لیگ کے مرکزی صدر خالد مسعود سندھو اور ترجمان تابش قیوم بھی موجود تھے۔ لاہور کے درجن بھر سے زائد کالم نگاروں کی موجودگی میں انہوں نے اپنا منشور پیش کیا اور پھر اس پر گفتگو شروع ہوئی۔ مجھے یہ منشور یونین کونسلز کے گرد گھومتا نظر آیا یعنی اس میں گلی محلے کے مسائل پر توجہ دی گئی ہے۔ اسی طرح مرکزی مسلم لیگ نے جس فلاحی تنظیم کے بطن سے جنم لیا اس کے فلاحی کاموں کا ماڈل بھی اس منشور میں چھلک رہا ہے۔ منشور میں بتایا گیا کہ پاکستان بھر کی ہر یونین کونسل میں دو دو سستی روٹی تندور لگائے جائیں گے اور پاکستان بھر کی تمام یونین کونسلوں میں اپنی مدد اپ کے تحت کم از کم ایک فری دسترخوان قائم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مستحق گھرانوں کی مالی معاونت اور ان میں راشن کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم سے محروم بچوں کو سکول تک پہنچانے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔ یونین کونسل سطح پر ہنر سکھانے والے اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کے لیے ہر یونین کونسل میں انتظامات کیے جائیں گے۔ فری ہسپتال اور ڈسپنسریاں قائم ہوں گی۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی عزت و تکریم کے علاوہ خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ منشور میں نظریہ پاکستان کا پرچار کیا گیا۔ یہاں سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ مرکزی مسلم لیگ نے ایک مذہبی جماعت سے جنم لیا ہے لیکن اس کے منشور میں واضح لکھا گیا کہ فرقہ واریت سیاسی ہو یا مذہبی اس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور شہریوں کو آئین و قانون کا احترام سکھانے کے لیے ورکشاپس منعقد کی جائیں گی۔ اسی طرح روشن پاکستان پروگرام کے تحت ہر گلی میں وقفے وقفے سے اپنی مدد اپ کے تحت انرجی سیور لگائے جائیں گے اور شجرکاری مہم کو تیز کیا جائے گا۔ صفائی مہم یومیہ بنیادوں پر ہو گی اور ہر گلی محلہ میں کچرا باکس رکھنے جیسے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یونین کونسل سطح پر منظم اور فعال بلڈ بینک کا قیام قومی زبان، مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر بانی پاکستان کے موقف اور احکامات کے نفاذ کی جدوجہد بھی کی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

منشور کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں بہت خوبصورت منشور پیش کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ایک ایسی نشست بھی ہونے چاہیے جس میں ایسے دعووں کو حقیقت میں بدلنے کا ورکنگ پیپر پیش کیا جائے اور اس پر بات ہو۔ ماضی میں کئی بار کی ڈسی یہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اگر کوئی جماعت الیکشن جیت کر پورے ملک میں فری علاج کی سہولت مہیا کرے گی تو اس کا قابل عمل طریقہ کار کیا ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی مہنگائی کا خاتمہ یا بجلی کے بلوں میں کمی لانے کا دعوی کرتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے لیے اس کے پاس کیا لائحہ عمل ہے۔ قرضوں میں جکڑے ملک کے ہر شہری کو آپ کیسے دو سو یا تین سو یونٹ بجلی مفت مہیا کر سکتے ہیں اور یہ اخراجات کہاں سے مینج کیے جائیں گے ؟ ہم تمام سیاسی جماعتوں کے منشور سے لے کر دعوے اور نعرے تک سن رہے ہیں۔ اب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان پر عمل کرنے کا قابل عمل لائحہ عمل کیا ہو گا ؟ گزشتہ حکومت میں معاشی ماہرین کی حقیقت سامنے آ گئی تھی۔ تب بھی بتایا گیا تھا کہ سیکڑوں قابل افراد کی ٹیم موجود ہے اور سارا لائحہ عمل بنا لیا گیا ہے لیکن جب حکومت ملی تو معلوم ہوا سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور کنڈلی ملانے کے بعد پہلی بار اسمبلی کا الیکشن جیتنے والے بزدار کو سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply