جرنیلوں کے گلے کا طوق ! ۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

 

اڈیالہ جیل میں شہباز شریف کی نواز شریف سے ملاقات جاری ہے، کراچی میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی ہونے کو ہے۔ یہ دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور ملک کے سیاسی ماحول کا دارومدار بڑی جماعتوں کے فیصلوں پر ہوتا ہے۔ میری دعاء ہے کہ یہ جماعتیں انتشار کے بجائے استحکام کی راہ اختیار کریں۔ استحکام سے میری مراد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے حلف سے انکار کی راہ بھی اختیار نہ کریں اور عمران خان کی نظام کو جام کرنے والی روش سے بھی گریز کریں۔

آنے والی حکومت کے لئے اب جنرل باجوہ اور ثاقب نثار کے اب تک کے اقدامات ایک ایسا بوجھ بن جائیں گے جس کے نیچے صرف وہ حکومت ہی نہیں بلکہ یہ دونوں ادارے بھی نظر آئیں گے۔ پہلے ہی 100 دنوں میں عمران خان کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس ملک میں صرف “فوجی کاروبار” کو ہی ترقی دینے کی اجازت ہے، عوامی کار و بار کو نہیں۔ عمران خان یہ بھی جان لیں گے کہ وزیر اعظم کتنا بااختیار ہوتا ہے اور کتنا بے بس۔ سرحدوں سے زیادہ وزیر اعظم ہاؤس کے دورے کرنے والا آرمی چیف کوئی رپورٹ دینے نہیں بلکہ ڈکٹیشن دینے آتا ہے۔ وہی ڈکٹیشن جو عمران خان کی کرکٹ ٹیم کے منیجر حسیب احسن نے اسے دی تھی تو خان کا تھپڑ کھایا تھا۔ حسیب احسن بے وردی منیجر تھا جبکہ اب کی بار آنے والا “فورسٹار منیجر” ہوگا۔ ایسا نہیں کہ مسائل صرف عمران خان اور اس کی حکومت کے لئے ہوں گے بلکہ ڈکٹیشن اور مسلسل مداخلت کے نتیجے میں جب اس حکومت کو بھی ناکام کردیا جائے گا تو عوام کہے گی کہ یہ تو تھی ہی “فوجیوں کی منتخب کردہ حکومت” سو سوالات صرف حکومت نہیں فوج سے بھی ہوں گے۔ لیکن کام کی بات یہ کہ جب وہ مرحلہ آجائے جہاں خان دیکھے کہ اس کا بازو مروڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس کا زبردست توڑ ایک ہی ہوگا۔ وہ سیدھا پارلیمنٹ سے خطاب کرکے سب کچھ اسے بتا دے اور پارلیمنٹ سے ایک ہی سوال پوچھے

“یہ پالیمنٹ عوامی طاقت کا مرکز ہے، سو یہ مرکز مجھے واضح ہدایت دے کہ میں ان “جرنیلوں” کا کیا کروں جو اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے روز مجھے ڈکٹیشن دینے وزیراعظم ہاؤس آتے ہیں ؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین جانئے ! اگر عمران خان نے یہ کر لیا تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی لیکن اگر اس نے بھی نواز شریف کی طرح “برداشت” کی راہ اختیار کرلی تو میرے رب کی قسم یہی جرنیل اسے “یہودی ایجنٹ” قرار دے کر اسی طرح باہر کردیں گے جس طرح نواز شریف کو “مودی کا یار” کہہ کر باہر کیا۔ اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ سیاستدان نہیں جرنیل ہیں، عمران خان اگر ان جرنیلوں کے سامنے کھڑا ہوگیا تو رعایت اللہ فاروقی کے قلم کا ہر حرف اس کی حمایت کرے گا۔ رشتے میں نہ نواز شریف ہمارا کچھ لگتا ہے اور نہ ہی عمران خان سے ہماری کوئی خاندانی دشمنی چلی آرہی ہے۔ بات سمپل سی ہے کہ ان جرنیلوں کے خلاف نواز شریف نے سٹینڈ لیا تو ہم نے ساتھ دیا اور دیتے رہیں گے۔ اگر انہی جرنیلوں کے خلاف عمران خان سٹینڈ لے گا تو ہم اس کا بھی ہرحال میں ساتھ دیں گے۔ کیونکہ مسائل کی جڑ یہی جرنیل ہیں۔ جب تک ان کو لگام نہیں ڈالی جائے گی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ خلاصہ یہ کہ عمران خان جرنیلوں کا دیا ہوا مینڈیٹ جرنیلوں ہی کے گلے کا طوق بنادے تو تب ہی نیا پاکستان بن پائے گا !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply