مجھے داد نہیں ،داد رسی چاہیے(زینب بے ردا)۔۔۔صدف مرزا

وحشت ناک خبریں مجھے ہمیشہ ذہنی طور پر منجمد کر دیتی ہیں۔۔۔۔میں نے حفاظتی تدابیر کر رکھی ہیں۔ میں نے گھر میں ٹی وی نہیں رکھا۔ مجھے چسکے لے لے کر چٹخارے دار خبریں سناتے چہروں کی داخلی مسرتیں محسوس کر کے سلگنے کی خواہش نہیں۔
پھر بھی خبریں کسی نہ کسی طور کسی ماہر کھوجی کی طرح کھرا اٹھاتے میری بے خبری میں آ گھیرتی ہیں۔صبح عین اس وقت جب میں نے موبائل کا بٹن بند کر کے سونا چاہا۔۔۔۔کسی ستم ظریف نے معصوم زینب کی تصویر لگا دی۔رات بھر کی جاگی آنکھوں میں ریت جھونکی گئی۔سوشل میڈیا پر دریدہ بدن۔کتے مار مہم کے بعد کا منظر پیش کرتی ایک پھول سے بدن کی ننھی نعش۔پتا نہیں اس کی روح کیسے بدن کے گلاب سے رخصت ہوئی ہو گی۔
تعفن میں کیسے حشرات اس پر رینگتے ہوں گے۔ ایک کھللکھلاتی بچی سے نعش بننے تک ۔۔۔۔ کیا گزری ہو گی۔۔۔
آج بہت لوگوں نے پیغامات بھیجے۔
زینب بے ردا۔۔۔۔
داد دی۔۔۔۔
میرے اندر کسی بے بس طیش بھرے بچے نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔۔۔۔۔
مجھے داد نہیں۔۔۔۔ داد رسی چاہیے۔۔
بچپن میں کبھی بابا جان کہانی لکھنے کو کہتے تو ایک بے سری تصویر دیتے۔۔ کبھی طوطا، کبھی بندر ، کبھی ڈوبنا سورج، کبھی لکڑ ہارا۔۔اب سوچو ۔۔۔۔۔ اس کے آگے پیچھے،دائیں بائیں کیا تصویر بنے گی۔۔
کبھی الفاظ کی فہرست ملتی۔۔۔۔ حکم ہوتا
سوچو،تخیل استعمال کرو۔۔ فرض کرو ، یہ کردار کیا باتیں کرتے ہوں گے۔۔سوچو، سنو، لکھو۔۔۔۔
آج کئی مرتبہ نفرین بھیجی۔۔۔ اپنی اس سوچنے، سننے، اور محسوس کرنے کی تربیت پر۔۔۔۔۔
کہانی شروع ہوتی۔۔۔۔۔۔
زینب بابا۔۔ ماما کو ائرپورٹ چھوڑنے جاتی ہے۔۔۔
اللہ کے گھر گئے ہیں دونوں
دعائیں مانگیں گے نا۔۔۔۔۔ نعمتیں۔۔ رحمتیں سمیٹ لائیں گے۔۔۔۔
زینب بھی تو رحمت تھی۔رات کو دن گنتے گنتے سو جاتی۔ اب اماں آ جائیں گی ان کے سینے میں گھس کر سوں گی
بابا آ جائیں گے۔ ان کی انگلی تھام کر سکول جاؤں گی۔
تصویر میرے سامنے ہے۔۔۔
باتیں کرتی ہے۔
کسی مانوس چہرے نے پچکار کر بلایا ہو گا۔زینب نے مسکرا کر انگلی تھام لی۔۔۔۔
چلیں؟
آپ کو چاکلیٹ ملے گا۔
کہانیوں کی کتابیں بھی۔
جھولے بھی ۔

میرے موبائل پر گیم کھیلنا
کارٹون دیکھنا”
ننھے قدم پر شوق ہوئے۔۔۔۔۔ بڑے بڑے پیروں والے بھیڑئیے نے نقاب کے پیچھے رال ٹپکاتی زبان ہونٹوں پر پھیری۔
لاال ٹوپے والی کی بے فکر ہنسی سڑک پر بکھر گئی۔
دور ۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔ اللہ میاں کے گھر کے پاس ۔۔ دانہ چگتے کبوتر بھرا مار کر اڑ گئے
زینب کواپنی انگلی پر بڑھتے دباؤ سے عجب بے تابی ہوئی۔۔
انکل ہم کہاں جا رہے ہیں۔؟
انکل۔۔۔۔۔ننھا ذہن۔۔ نا معلوم خوف سے بے چین ہوا۔
انکل مجھے گھر چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔
گلی بھی سنسان ہو گئی تھی
نکڑ پر کالی کار کے دروازے کھلے۔۔۔۔۔۔
انکل۔۔۔۔۔۔ انکل۔۔۔۔۔

ایک زوردار تھپڑ نے زینب کا ذہن تاریک کر دیا۔۔۔۔۔
بلھے شاہ کی گلیاں بین کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔
بلھا پئی مصیبت بھا ری
کو ئی کر و ہما ری کا ری
ایہہ اجہے د کھ کیسے جر یے
اب لگن لی کی کر یے
نہ جی سکیے نہ مر یے
( بابا بلھے شاہ )​

پھول کی پتی سا بدن۔۔۔۔۔ درندوں کی آرے پر ریزہ ریزہ ہوا۔۔۔۔
شکر ہے میری سماعت چھن گئی۔۔۔۔
صد شکر ۔۔۔۔ آنکھیں بے نور ہوئیں۔۔۔۔۔

میں نے یک چشم قلم کی نمکین سی سیاہی سے لکھا
زینب – بے ردا۔۔۔۔۔۔
اے مدینہ لعلم کے دروازے سے نطق و تکلم سیکھنے والی۔۔۔۔
تجھے تو وقت کے یزید نے دربار پہنچنے سے پہلے آ لیا
نجومیوں نے پیشگوئی کی ہو گی
ایک زینب اٹھے گی۔۔۔۔ تیرا تاج و تحت اچھال دے گی۔۔۔۔

جا۔۔۔۔
اس کی روح کو ایسا گھاؤ لگا۔۔۔۔ کہ وہ لفظ کن کے حکم کی پیروی بھی نہ کر سکے۔اس کا بدن کوڑے میں ڈھیر کر دے۔۔۔ کہ مرنے کے بعد جب اٹھنے کا حکم ہو تو لرزیدہ روح اس ننھے غار میں واپس نہ جائے۔۔۔۔۔

میں تعریفی پیغام دیکھتی۔ ہوں ۔
لہو روتے لفظوں کی داد سنتی ہوں۔۔۔۔۔۔
مجھ پر بے داد مت کیجیے
مجھے داد رسی چاہیے

خدا کے عدل کا قائل ہوں او بت کافر
ضرور داد رسی داد خواہ کی ہوگی
کاش کسی بڑی کرسی پر بیٹھے کسی باپ کی گود میں۔ کوئی زینب بیٹھی ہو۔۔۔۔۔ اس کا دل دہل جائے
کاش اس اسلامی مملکت کے بد عنوان نظام میں کسی صاحب اقتدار کی کوئی دھڑکن باغی ہو کر اس زینب بے ردا کے دریدا بدن کا حساب مانگے
قاتلوں۔ کے گریبان تک پہنچے۔۔۔۔۔۔
ریزہ ریزہ کر کے ان کے چھیتڑے اڑا دے
تاکہ باقی درندوں کو عبرت ہو۔۔۔۔وہ جنگلوں۔ کا رخ کر جائیں۔۔۔۔
کاش والدین اپنی اولاد کو مرغی کی طرح پروں میں لیے رہیں۔۔۔۔ یا شاہین بنا دیں۔۔۔۔۔۔
زندہ گاڑی لڑکیوں سے سوال ہو گا نا۔۔

’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیئے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی ، اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے‘‘ (سورۃ التکویر:1-14)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سرکار دو جہاں۔۔۔۔ علیہ الصلوۃ واسلام ۔۔۔۔۔۔
میں آپ کا دامن تھام کر پوچھنا چاہتی ہوں۔
کوڑے کے ڈھیر پر ماری گئی زینب سے کیا سوال ہو گا؟

Facebook Comments

صدف مرزا
صدف مرزا. شاعرہ، مصنفہ ، محقق. ڈنمارک میں مقیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مجھے داد نہیں ،داد رسی چاہیے(زینب بے ردا)۔۔۔صدف مرزا

Leave a Reply