عہد نبوی میں علوم و فنون کی ترقی اور آج کا مسلمان

عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس کمپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ۔ کھانے کوترستے تھے، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھا،رہنے کوگھرنہیں تھے ، لیکن ان کے اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نمونہ زندگی بن گئے اورزندگی کے ہرشعبے میں کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم پیغمبر ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے اندرمختلف صلاحیت کے افراد موجودنہ ہوں۔
ضروری ہے کہ یہاں طبیب بھی ہوں اور سرجن بھی ،یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھئی بھی ہوں اور لوہاربھی ، کاشت کار بھی ہوں اور صنعت گربھی ۔جس وقت حضورصلى الله عليه وآلہ وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ، صحابہ کرام مختلف کاموں پر مامور تھے ۔ کسی کو اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ،تو کسی کو دوسرے کام پر مامور کیا۔ ایک صحابی نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ،آپ نے منع کیا اور فرمایا :نہیں تم گارا گھولو،تم اس کام سے خوب واقف ہو۔ گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام کیے ، کچھ لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں، بعض صحابہ نے دوسری قوموں کی زبان اور ان کی تہذیب و تمدن کامطالعہ کیا۔ اس وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی ایسا علم اورفن نہ تھاجس میں صحابہ کرام پیچھے رہے ہوں۔ عملی علم ہویافنی ، سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتاءِ روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors

”ایک طرف عقلاءِ روزگار ،اسرار فطرت کے محرم ،دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرماں روااس درس گاہ سے تعلیم پاکر نکلے ہیں، جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ،افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرماں روائی کی اور ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں کو منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى الله عنه، سعدبن ابی وقاص رضى الله عليه، ابو عبیدہ بن جراح رضى الله عنه، عمروبن العاص رضى الله عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں، جن کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیسری طرف وہ صحابہ ہیں جنہوں نے صوبوں اور شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی صف ہے۔ انہوں نے اسلام کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے،جو احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب صفہ) کی ہے جن کے پاس سررکھنے کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے سوا کوئی جگہ نہ تھی ۔ ساتواں رخ دیکھو! ابو ذررضى الله عنه ہیں، ان کے نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خلاف تھا۔
سلمان فارسی رضى الله عنه ہیں جو زہدوتقویٰ کی تصویر ہیں ۔ عبداللہ بن عمر رضى الله عنه ہیں جن کے سامنے خلافت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگر اس میں مسلمانوں کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى الله عنه ہیں جو اسلام سے پہلے قاقم وحریر کے کپڑے پہنتے اور جب اسلام لائے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور جب شہادت پائی تو کفن کے لیے پورا کپڑا تک نہ ملا۔۔ ابودردا رضى الله عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہادر کار پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپاری ہیں اور مدینہ کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختلاف استعداد کے باوجود ایک چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی،کوئی بھی ہوں توحید کا نور، اخلاق کی رو،قربانی کا ولولہ ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور بالآخر ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضا طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“(خطبات مدارس ص:۹۷-۱۰۲)
فی زمانہ مسلمان اگر اقوام عالم سے کسی بھی میدان میں بیک فٹ پر ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے آپ علیہ السلام کی سنت اقدس کو عبادات میں تو اپنایا ہوا ہے(کسی درجے) لیکن معاشرت،اخلاق،معیشت اور دیگر شعبہ ہائےزندگی میں ہم کسی نہ کسی دائرے میں محدود ہوگئے ہیں خواہ وہ دائره مسلک کا ہو یا معاشرتی مزاج کا۔جب تک ہم اکائیوں،گروہوں اور مسالک کی تقسیم سے نکل کر” واحد”کے سانچے میں ڈھل کر تمام شعبہ ہائے زندگی میں مہارت اور علم کے حصول اور ترقی کو وہی اہمیت نہیں دیتے جو اہمیت ہم عبادات میں ترقی کو دیتے ہیں تب تک ہم اسی طرح زمانےمیں مطعون رہیں گے ۔

Facebook Comments

محمد اسامہ خان
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply