اردوزبان اورترقی کے جگاڑ

ہمارے بہت سے دوست احباب یہ خوش گمانی رکھتے ہیں کہ اردو زبان یعنی اپنی قومی زبان اپنانے پر ترقی کے نئے راستے کھل سکتے ہیں۔ شب بخیر، صبح بخیر کی بجائے گڈ نائٹ اور گڈ مارننگ کہنے کی عادت سے قومی زبان کو بہت بڑے نقصان کا سامنا ہے۔ روزہ مرہ میں بولے جانے والے انگریزی جملے اور لکھنے میں رومن انگلش شاید ہماری تنزلی کا سبب بن رہی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اسکی اپنی زبان اور ثقافت میں مضمرہے بشرطیکہ اس زبان کی فوقیت علم و فنون کے میدانوں میں دوسری زبانوں پراظہرمن الشمس ہو۔
صبح کی شروعات برش، ٹوتھ پیسٹ ، واش روم ، کموڈ ، شاور ، باتھ اور ٹاول سے ہوتی ہوئی پارکنگ میں کھڑی کار تک ہمارے الفاظ بدیسی زبان کے ہی محتاج ہوتے ہیں۔ سکول کالج یونیورسٹی اورآفس ہر جگہ ہم انگریزی الفاظ کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
اپنے دیس کی طرح زبان سے بھی پیار کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں لیکن صرف یہ مطالبہ کردینا یا تحریک چلا دینا کہ اردو زبان کو ہی رائج کردیا جائے تو ہر مسئلے کا حل نکل آئے گا۔ بات کڑوی نہ لگے تو شکریہ ادا کریں انڈین فلموں کا کہ بولنے کی حد تک انہوں نے اردو زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ انڈین فلموں کا ہماری ثقافت پر یلغار ، خرافات اور دوسرے بہت سے پہلو فی الحال موضوع بحث نہیں۔
ہمارا حال اس کوے کی مانند ہے جو ہنس کی چال چلتے چلتے بسا اوقات چڑیا کبوتر اور مینا کی چال چلنے کی بھی کوشش کرتا رہا ہو۔ گھرمیں پنجابی بلوچی سرائیکی سندھی اور پشتو وغیرہ ، مسجد مدرسہ میں عربی، سکول کالج یونیورسٹی میں انگریزی ، ادب میں فارسی ، امیگریشن کے لئے جرمن اور فرنچ وغیرہ سیکھنے کی کوشش اور مستقبل قریب میں چائینیز۔
بہت سیدھی سی بات ہے وہی زبان غالب ہوتی ہے جو علم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی کا سرچشمہ ہو اور دوسری اقوام کی ترقی کے لئے ضرورت اور مجبوری بن چکی ہو۔ علوم کی جتنی شاخیں ہیں ان کی جڑیں یورپ و امریکہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہیں اور ہم ہر نئی ٹیکنالوجی کے لئے اس گدھ کی طرح نظر جمائے بیٹھے ہیں جو موقع ملتے ہی مردار پر جھپٹ پڑتا ہے۔
یہ الفاظ کی کڑواہٹ نہیں حقیقیت ہے ۔کبھی ایسا ہوا کہ ٹو جی، تھری جی یا فور جی کی ٹیکنالوجی پاکستان میں متعارف ہوئی ہواور اس کے بعد یورپ اور امریکہ اس تجربہ سے گزر رہے ہوں۔ کسی بھی ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے برسوں بعد ہمارا چناؤ اس لئے کیا جاتا ہے کہ ہم ایک منافع بخش منڈی ثابت ہو سکیں۔
شکوہ یہ نہیں کہ حل نہیں بتایا۔ جس طرح اغیار نے ہمارے آباء کے علوم سے فیض یابی کے لئے کتب کے ترجمے کئے تجربہ گاہیں قائم کیں اور دیانت و محنت سے یہ علمی ورثہ اپنے نام کیا یہی راہیں اختیار کر کے ہم بھی اپنی زبان اور ثقافت کو فوقیت بخش سکتے ہیں۔
جب ہم اس قابل ہو جائیں کہ تھر، ستلج، راوی ، دو دریا جیسی کوئی نئی ٹیکنالوجی میدان میں لے آئیں یقین کیجئے دوسری اقوام اردو کجا سندھی پنجابی میں بھی یہ ٹیکنالوجی سیکھنے کے لئے امڈ آئیں گی۔ پھر یہاں سےلوگ ویزہ کے لئے لائن میں نہیں لگیں گے بلکہ کہیں گے پائی سانوں پاکستان جانڑ لئے کوئی جگاڑ تے دسو۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ ہیرِ علم کے موتی کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھیں انکو یورپ میں تو دل ہو تا ہے سیپارہ

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply