فوجی عدالتیں اور عوامی مغالطے/نجم ولی خان

وہ لوگ جو بیانیے بنانے کے ماہر ہیں، جن کے اپنے دور میں فوجی عدالتوں سے سویلینز کو عمر قید سے سزائے موت تک ہوتی رہیں، آج وہ خود ان کی زد میں آئے ہیں تو انہی فوجی عدالتوں کی مخالفت کررہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے یہ گروہ اس صحافی کو بھی فوجی عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حامی تھا جس نے ڈان لیکس، کیں، ان کی رائے عامہ بنانے والے، ہمارے صحافی دوستوں سے وکیل رہنماؤں تک برطانیہ، مصر، سپین، پولینڈ، امریکا، بھارت اور بلجیم سمیت نجانے کون کون سے ملک کی مثالیں ڈھونڈ کے لایا کرتے تھے اور بانی پی ٹی آئی بطور وزیراعظم ان عدالتوں کے فضائل بیان کیا کرتے تھے مگر 9 مئی کے ملک گیر حملوں اور بغاوتوں کے بعدا نہیں وہی فوجی عدالتیں غلط لگنی شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے خود کیا تو رام لِیلا اور دوسروں نے کیا تو کریکٹر ڈھیلا۔

غیر فوجی دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں، انہیں غیر معمولی بھی کہا جا رہا ہے، غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری بھی۔ لاہو رہائی کورٹ بار اس پر ہڑتال کر رہی ہے۔ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ دہشت گردی بھی غیر معمولی جرم ہے، کسی ملک کے فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملے بھی غیر معمولی جرم ہیں تو پھر ان کے ساتھ ٹریٹمنٹ بھی غیر معمولی ہی ہوگی۔ امریکا میں ایک غیر معمولی جرم ہوا کہ ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، جواب میں امریکا نے نہ اپنے آئین کا خیال کیا اور نہ ہی اپنی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا، اس نے افغانستان پر حملہ بھی کیا، دنیا بھر سے بندے بھی اٹھائے اور گوانتاناموبے میں جیل بھی بنائی۔ یہ ایک آزاد، جمہوری اور مہذب سمجھی جانے والی ریاست کا ردعمل تھا۔

مجھے کہنے دیجئے کہ جب پاک فوج پر حملے ہوئے تو اس آئین، قانون اور اداروں کے ذریعے ایک میچور رسپانس، کا راستہ اختیار کیا ورنہ سب جانتے ہیں کہ حملے کا جواب حملہ ہی ہوتا ہے۔ غیر آئینی کا جواب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بنچ اس سے پہلے یہ قرار دے چکا ہے کہ جرم کا تعلق اگر فوج سے ہو تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے۔ غیر جمہوری کا جواب یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ اگر اس پر قانون سازی کر چکے، قراردادوں کے ذریعے اس پر رائے دے چکے تو اسے غیر جمہوری بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جمہوریت کی نمائندگی ہمیشہ پارلیمنٹ کے پاس ہی ہوتی ہے، پارلیمنٹ سے باہر پریشر گروپس جمہوریت کے ترجمان نہیں سمجھے جا سکتے۔

ایک اور دلیل دی جا رہی ہے کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ اب اس پر میرا دلچسپ سوال ہے کہ کیا انسانی حقوق صرف دہشت گردوں، قاتلوں، ڈاکوؤں اور حملہ آوروں کے ہوتے ہیں۔ کیا دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ ان ماؤں، باپوں، بیویوں اوربچوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے جن کے بیٹوں، شوہروں، باپوں کو یہ سویلین دہشت گرد، دھماکوں میں اڑا دیتے ہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ اگر معمول کی عدالتوں میں کارروائی ہو تو یہ انسانی حقوق کے عین مطابق ہے۔

میں نے اسے عجیب اس لئے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ معمول کے مقدمات میں بھی انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے اس وقت دنیا میں کوئی ایک سو اڑتیسویں نمبر پر کھڑی ہے۔ قانون اور عدالتوں کی رپورٹنگ کرنے والوں سے پوچھیے، ایک ایسی ہی عدالت کے جج کے سامنے ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد کا مقدمہ پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ جج کے سامنے ایک ثبوت پیش کرنا چاہتا ہے۔ جج نے حیرانی سے پوچھا، کیسا ثبوت ہے۔ اس دہشت گرد نے جج کی بیٹی کی تصویر ایک فائل میں لگا کے اس کے سامنے رکھ دی۔ اس میں درج تھا کہ اس کی بیٹی کون سے کالج میں پڑھتی ہے، کب گھرسے نکلتی ہے، کب واپس آتی ہے اور اس کا صاف مطلب تھا کہ اگر تم نے مجھے سزا دی تو ہم تمہاری فیملی کو اڑا دیں گے۔

میں پھر کہتا ہوں کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہڑتالیں کرنے والے دہشت گردوں کی پشتی بانی کر رہے ہیں، انہیں محفوظ راستہ دے رہے ہیں۔ قانون کا مقصد پرامن اور نہتے عوام کو انصاف اور تحفظ دینا ہوتا ہے اور قانون کے یہ رکھوالے قانون شکنوں کے پشتی بان بنے ہوئے ہیں، حیرت ہے۔

کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ضمانت اور اپیل نہیں ہے مگر یہ کہنے والے آئین کے آرٹیکل ایک سو ننانوے کو بدنیتی کے ساتھ بھول جاتے ہیں۔ نیب کے مقدمات میں بھی ضمانت نہیں تھی مگر ریمانڈ کی مدت پوری ہونے کے بعد پوری مسلم لیگی قیادت ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ سے آئین کی اسی شق کے تحت ضمانتیں حاصل کرتی تھی اور ان پر بنے ہوئے مقدمات کو سپریم کورٹ جس طرح اڑایا کرتی تھی اس کے لئے شہباز شریف اور سعد رفیق کی رہائیوں کے تفصیلی فیصلے پڑھ لئے جائیں۔

کہتے ہیں کہ مخصوص عدالتیں کیوں مگر اس سے پہلے یہی وکیل انسداد دہشت گردی سے لے کر بینکنگ اور سروس ٹریبونلز تک مخصوص عدالتوں میں ہی پیش ہوتے ہیں یعنی وہاں یہ درست ہیں اور اگر فوج کی ہوں تو غلط ہیں۔ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں صرف فوجیوں کے لئے ہونی چاہئیں مگرسوال پھر یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو شہید کرنے والوں کے یہ ترجمان کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیا یہ ہمارے بچوں کا قتل عام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ چلیں، 9 مئی کی ہی بات کر لیتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے ہیڈکوارٹرز پر کوئی بھی سیاسی یا مذہبی گروہ جب چاہے چڑھائی کر لے، اسے نذر آتش کر دے، وہ کام کردے جس کا خواب بھارت 70ء برس سے دیکھتا چلا آ رہا ہے مگر 65ء کی جنگ میں اس وقت بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا جب اس نے باقاعدہ حملہ کر دیا تھا مگر وہ بی آر بی نہر کو عبور نہیں کرسکا تھا۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر آپ ان کے مقدمات عام عدالتوں میں بھیجیں گے تو وہاں تاریخوں پر تاریخیں ہوں گی مگر انصاف نہیں ہوگا۔ یہ وہ عدالتیں جو ملزم کے پھانسی چڑھنے کے بعد اس کی بے گناہی کا فیصلہ کرتی ہیں، یہ مارشل لاؤں کو جائزیت عطاء کرتی ہیں، یہ منتخب وزیراعظموں کو پھانسیاں دیتی اور انہیں جلاوطنی پر مجبور کر دیتی ہیں۔ میں ان عدالتوں پر اعتماد نہیں رکھتا مگر اب قاضی فائز عیسیٰ نے جس طرح ماضی کی غلطیوں کی درستگی کا کام شرو ع کیا ہے، اب ایک امید ضرور رکھتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آہ، یہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کی حمایت کیوں کرتے ہو تو میرا جواب ہے کیا میں دہشت گردوں کی حمایت کروں۔ یہ کہتے ہیں کہ اپنی فوج کی حمایت کیوں کرتے ہو تو کیا میں ان کی طرح انڈیا، اسرائیل اور امریکا سے فنڈنگ لیتا ہوں کہ اس کی حمایت کروں۔ یہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں زیادہ سخت ہیں اور میں کہتا ہوں کہ تم اس پر بھی جھوٹ بولتے ہو، انسداد دہشت گردی ایکٹ میں انہی جرائم کی سزائیں آرمی ایکٹ کے مقابلے میں دوگنی ہیں۔ فوجی عدالتوں میں پیش ہونے والے خود انہیں ترجیح دیتے ہیں۔ مان لو، بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے اور ملک میں امن کے لئے فوجی عدالتیں انتہائی ضروری ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply