تزکیۂ نفس اور نظام کا قیام۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

راؤ عابد رشید نے سوال اٹھایا ہے ’’ اسلام میں تزکیۂ نفس کے لیے تصوف اور صوفی ازم جزو ہے، کُل نہیں۔ حضور اکرمؐ نے اصحاب کے تزکیۂ نفس کے بعد کیا پوری ریاست مدینہ کی بنیاد نہیں رکھی تھی ؟۔اور یہ کہ اسلامی فکر و فلسفہ کی بنیاد پر ارتقائی جدید اسلام ، سیاسی نظام، معاشی نظام، تعلیمی نظام،عدالتی نظام کے لیے جدید دنیا میں کوشش نہیں کرنا چاہے، ورنہ تو ہم فقط تسبیح ، جمودی تصوف، راہبا نہ زندگی اور رسومانہ اسلام کی طرف کے ہو کر رہ جائیں گے اور اسلام فقط اک مذہبی شکل میں ورد ، درود کی نذر ہو جائے گاـ، قرآنی تصو ف میں جس کو قرآن میں تز کیہ نفس، حدیث میں احسان، صوفی ازم میں تصو ف کہا جاتا ہے، اس میں قرآنی اذکار و فضا ئل، شریعت کی پابندی ، سب کچھ انفرادیت کا حامل ہے، لیکن اس کے بعد بحیثیت کُل ہمارا اسلامی نظام کی جہد و جہد کے لئے کوشش لازم نہیں ہے؟”

یہ سوال بلکہ مجموعۂ سوالات انتہائی فکر افروز ہیں، اس موضوع پر پیچ در پیچ فکر کی گرہیں لگی ہوئی ہیں، یہ کالم اس موضوع کا متحمل ہرگز نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ طائرانہ انداز میں چند نکات بیان کر دیے جائیں جو یہاں جزو اورکُل ، اور آفاق و انفس کے درمیان ایک اَزلی فکری معمے کو حل کرنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں۔

سب سے پہلی اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اسلام دراصل ایک ہی دین ہے‘ جو جامع اور مکمل ہے، اور داعی ٔ دین‘ خاتم النبیین رسولِ کریم ﷺ انسانِ کامل ہیں جو ہمارے جسموں ، روحوں اور نفسوں کی ربوبیت کا کامل اور حتمی سامان لے کرمبعوث ہوئے ہیں ۔ اس لیے ہمیں رسولِ کریم ؐ کے لائے ہوئے دین ِ اسلام کو کسی موڈریٹ اسلام اور بنیاد پرست اسلام، صوفی اسلام اور غیر صوفی اسلام، سنّی اسلام اور شیعہ اسلام، بریلوی اسلام اور دیوبندی اسلام کے خود ساختہ خانوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ جو بات درست ہے‘ وہ درست رہے گی‘خواہ وہ خانقاہ میں کوئی صوفی کہے، یا مسجد کے فرش پر بیٹھا کوئی پیش امام، خواہ وہ بریلی شریف سے آئے یا علومِ دیوبند سے، اسی طرح ایک غیر حق بات‘ حق کا غیر ہی رہے گی خواہ اسے تصوف کی کتابوں میں بیان کیا جائے یا وہ کسی مدرسے کے نصابی مضمون کا حصہ ہو۔ اسی طرح تصوف قرآنی اور غیر قرآنی نہیں ہوتا۔ تصوف ایک اصطلا ح ہے، اس اصطلاح پر بحث بے سود ہے، اِس کی اصل پر بات کرنا چاہے … اور اس کی تمام اصل قرآن اور حدیث ہے۔ تصوف صرف اسلامی اور قرآنی ہی ہوتا ہے۔ شریعت کے بغیر کسی تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تصوف ‘درجہ احسان ہے، اور احسان کا درجہ اسلام اور ایمان کے بعد ہے۔ صوفیا ء کا مرکز و منبع اصحابِ صفہ ہیں۔ دوسری صدی ہجری تک لفظ صوفی مستعمل ہو چکا تھا۔ صوفیاء کے فکر و عمل کے اصل کی نشاندہی جن قرآنی اصطلاحات میں کی گئی ہے‘ وہ ’اولوالالباب‘، عبادالرحمٰن، شاھدین ، مخلصین اور صادقین ہیں –  “انعمت علیھم” بھی انہی کا تعارف ہے۔یہ لوگ ہر دَور میں تھے اور ہر دَور میں رہیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ لفظ ’’صوفی ازم‘‘ پر معترض ہوا کرتے، آپؒ فرماتے‘ تصوف کوئی’’ازم‘‘ نہیں ہوتا۔ کشف المحجوب میں تصوف کی ایک تعریف یہ بھی بتائی گئی ہے کہ تصوف رسومات سے اعراض کرنے کا نام ہے۔

اگر بغور دیکھا جائے تو اس سوال کے اندر ہی جواب موجود ہے’’حضور اکرمؐ نے اصحاب کے تزکیے کے بعد۔۔‘‘۔۔ یہاں لفظ ’’تزکیے کے بعد‘‘ یاد رکھنے والی بات ہے۔ تزکیہ جزو نہیں ، بلکہ کُل ہے۔ ترجیحات کی ترتیب اُلٹ جائے تو موضوع اور فلسفۂ حیات تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔ تزکیۂ نفس کو اگر پاکیزگی ٔ قلب کہہ لیں، تو بات عام فہم ہو جائے گی۔ یعنی پہلے قلب بدلے گا اور پھر قالب میں تبدیلی آئے گی۔ پاکیزہ نظام کے لیے پاکیز ہ لوگ درکار ہوتے ہیں۔ تزکیۂ نفس کے بغیر کوئی بھی نظام خواہ وہ کتنا ہی فلاحی ہو‘ اسے اسلامی نظام نہیں کہا جا سکتا۔ شمالی یورپ کے بعض ممالک کلمہ پڑھے بغیر ہی فلاحی معاشی و معاشرتی نظام قائم کر چکے ہیں۔ اگر آپ فلاحی معاشی و معاشرتی نظام کوترجیح اوّل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے ہی اسلام کا حاصل و ماحاصل تصور کرتے ہیں تو وہ لوگ آپ سے سوال کریں گے کہ جو کام ہم کلمہ پڑھے بغیر ہی کر چکے ہیں‘ اُس کے لیے ہم تزکیۂ نفس کا جھنجھٹ کیوں پالیں؟ اگر آدھا ایمان پاکیزگی قرار دیا گیا ہے۔’’الطہور شطرالایمان‘‘ ۔۔ تو سوچنا چاہیے کہ تزکیۂ نفس جزو ہے یا کُل؟ اور یہ کہ ترجیح اوّل نظام کا قیام ہے یا تزکیۂ نفس ہوگا؟ سنانے والے یہاں ایک لطیفہ سناتے ہیں۔ دو دوست سکھ دھرم سے تازہ تازہ مشرف بہ اسلام ہوئے، ایک دن مسجد میں بھاگم بھاگ داخل ہوئے، اور جماعت میں شامل ہو گئے، نماز سے فراغت کے بعد ایک اپنے ساتھی سے کہنے لگا، لے بھئی سردارا! شکر ہے جماعت مل گئی، اگر وضو کے جھنجھٹ میں پڑ جاتے تو آج جماعت نکل گئی تھی۔ بات تو سچ ہے ‘ وضو کرنے والوں میں سے جماعت اکثر نکل جاتی ہے۔ تفنن برطرف، بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنی ساری زندگی قلب کی طہارت حاصل کرنے میں صرف کردے اور وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو کر مر جائے جس میں ابھی تک نظام قائم نہیں ہو سکا، توایسا شخص اپنی قبر میں فلاح یافتہ شمار ہوگا یا نقصان میں رہنے والوں میں سے ہوگا؟ زندگی محدود ہے اور مابعد غیر محدود!  اس کے برعکس ایک شخص کسی نیم سیاسی ‘نیم دینی جماعت کا فعال رکن ہو کر اپنی جدو جہد سے اپنی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں میں لے آتا ہے اور وہ جماعت چند آرڈیننس نافذ کر کے آئین کو مکمل اسلامی بنا دیتی ہے لیکن وہ شخص اپنی ذاتی زندگی میں قلب کی پاکیزگی حاصل نہ کر سکا،زمرہ’’ لایحزنوں‘‘ میں شامل نہ ہوسکا، اور ’قد افلح من زکّٰھاٰ‘‘ کے کلیے میں داخل نہ ہوا، تو کیا ایسا شخص فلاح یافتہ کہلائے گا؟ کیا وہ ’’قد خاب من دسّٰھا‘‘ میں شمار نہ ہوگا؟

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خارجین سے لے کر تا حال جو جماعت بھی دین کے مرکز اور مرکزی خیال سے منحرف ہوئی‘ اُس نے خود کو نظام کے نفاذ کے داعی کے طور پر ہی پیش کیا۔ خارجین خلفائے راشدین کے خلاف جنگیں کرتے رہے، ان کے جھنڈے پر’’ان الحکم الا للہ‘‘ لکھا ہوتا، لیکن وہ ’’اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ‘‘ کرنے کا نعرہ لے کر عام مسلمان کے خلاف ہی صف آرا ہوگئے۔ نفوذ سے پہلے نفاذ کے حامی فکری اعتبار سے خارجین کے نقشِ قدم پر ہیں۔

معاشرہ افراد ہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ افراد کی شکل میں معاشرے کی مشین میں ہم جیسا خام مال مہیا کریں گے‘ مشین سے ویسی ہی پروڈکٹ وصول کرلیں گے، یعنی جو بیجیں گے‘وہی کاٹیں گے۔ کسی طور ممکن نہیں کہ ہم معاشرے کو افراد تو ایسے مہیا کریں جو غیر پاکیزہ فکر و نظر کے حامی و حامل ہوں‘ لیکن وہ افراد جو نظام قائم کریں وہ پاکیزگی کا مظہر ہو۔ ہمارا دین دوسرے مذاہب پر صرف اِس لیے فوقیت نہیں رکھتا کہ یہاں اجتماعی قوانین بھی بتائیں گئے ہیں جن پر کاربند ہو کر ہم ایک مثالی اقدار کا حامل معاشرہ اور ریاست قائم کر سکتے ہیں، بلکہ یہ دین اس لیے باقی ادیان پر غالب ہے کہ اس میں موجود الہامی ہدایت میں آج تک تحریف نہیں ہو سکی۔ فانی انسان کی ذہنی تعبیرات و تفسیرات کے باوجود اس کا لافانی حسن اپنی جگہ بدستور برقرار ہے… یہاں اصولِ دین اور نصوص وضوابط انتہائی محکم ہیں۔الہامی ہدایت میں کوئی ارتقاء نہیں ہوتا، ارتقاء کا کا کلیہ مخلوق اور مخلوق کے قوانین پر لاگو ہوتا ہے۔ جدید اور قدیم اسلام میں کوئی فرق نہ کریں‘ وگرنہ کسی فرقے کی گود میں جا بیٹھیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسجد تعمیر کرنے کیلئے اسلام کوئی طے شدہ نظام قائم نہیں کرتا…جہاں چار نمازی اکٹھے ہوں گے ‘وہاں مسجد بنا لیں گے۔ جغرافیائی حالات اور معروضی واقعات کے پیش ِ نظر مساجد ایک دوسرے مختلف ہو سکتی ہیں‘ لیکن سب کا رخ سوئے قبلہ ہی ہو گا۔ اسی طرح جہاں تزکیہ شدہ مسلمان جمع ہوجائیں گے ‘وہ لامحالہ اپنے معاشی اور معاشرتی ضابطوں کو روحِ اسلام کے مطابق ڈھال لیں گے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے، اس کی سیاسی تعبیر اسے محدودو محصور کرد یتی ہے۔اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے نادان دوستوں نے روحِ دین کو پامال کیا اور نادانستگی میں وحدت ملی کو پارہ پارہ کیا۔ اسلام کی سیاسی تاریخ تنازعات کا شکار رہی ہے۔ ریاست… دین کا منتہا و مقصود‘ اور کُل دین نہیں‘ بلکہ ایک جزو ہے … راستے میں درپیش ایک پڑاؤ ہے۔ ظاہر،باطن کا جزو ہوتا ہے‘ کُل نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply