تصادم تو ہو رہا ہے۔۔طاہر یسین طاہر

زندگی کسی نظریئے کی بجائے خواہشوں کے پیڑ تلے گزارنے والوں پہ کڑا وقت ہے۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ یہ جملہ کئی بار دہرایا میں نے اور یہی اکائی معاشرے کا مجموعی مزاج تشکیل دیتی ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس کا مزاج تشکیل دینے میں بڑی محنت کی گئی۔ بت تراشے گئے اور ان کی پوجا کو واجب قرار دیا گیا۔ دانستہ تحقیق و جستجو اور نئے فکری زاویوں پر پہرے بٹھائے گئے، اسی میں مقتدر طبقہ کی بقا ہے۔ معاشرے کا غالب حصہ شخصیات کے سحر میں قید ہے۔ کوئی بھٹو کو زندہ تصور کرتا ہے تو کسی کو ساری جمہوریت اور ترقی شریف خاندان بلکہ نواز شریف کی ذات سے جڑی نظر آتی ہے۔ آصف زردای اس لئے سیاسی رہنما مان لئے گئے کہ وہ بی بی کے شوہر ہیں، حتٰی کہ بلاول بھٹو کو اس لئے تسلیم کر لیا گیا کہ وہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ عمران خان کا بت تراشنے میں بھی خاص محنت کی گئی اور اب نوجوان نسل کا غالب حصہ اس کا پجاری ہے۔ کسی کا نیلسن منڈیلا آصف زردای ہے تو کسی کے اسلامی رہنما مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق ہیں، کوئی جماعت اسلامی کو ہی “اصل اسلامی جماعت” سمجھتا ہے تو کسی کا جمہوری لطف اے این پی سے جڑا ہوا ہے۔ اپنے اپنے بت ہیں اور ان بتوں کے اپنے اپنے پجاری۔

ایم کیو ایم کے الطاف حسین مدت تک کراچی والوں کی سیاسی پوجا کا مرکزی بت رہے۔ کہا جاتا ہے کالم کار کے تیز دھار جملے جمہوریت کے لئے خطرہ ہیں، اس سے آمریت کی بنیادیں مضبوط ہوں گی۔ زمینی حقائق سے مگر نظریں چرا لینے والا سب کچھ ہوسکتا ہے، اخبار نویس نہیں۔ قصیدہ ہی لکھنا ہے تو کرپشن میں لتھڑے آمروں یا سیاست دانوں کا کیوں کہا جائے؟ کسی صاحب ِ علم کی توصیف کیوں نہ کی جائے؟ یہ مگر اخبار نویسی نہیں منشی گیری ہے۔ اخبار نویس غیر جانبدار نہیں ہوتا، قطعی غیر جانبدار نہیں، لیکن صاحب ضمیر اخبار نویس غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح ضرور کہتا ہے۔ معاشرے کی رہنمائی درست تجزیئے سے ہی کی جا سکتی ہے، نہ کہ کسی سابق و حاضر سیاسی شعبدہ باز کی ترجمانی کرکے۔ کج فہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور سیاستدانوں پہ ہر کوئی تنقید کرتا ہے، آمروں بلکہ یہ کہ جی ایچ کیو پہ تنقید کرنے سے اخبار نویس گھبراتے ہیں، جی ایچ کیو پہ تنقید کیوں؟ عدالت پہ تنقید نہیں کرتے اور سارا زور سیاستدانوں کی کارکردگی جانچنے پہ لگا دیتے ہیں۔ جواب بڑا سہل ہے۔ سیاستدان ووٹ لے کر، وعدہ کرکے پارلیمنٹ آتے ہیں، جب وعدہ وفا نہ ہوسکے پھر تنقید تو ہوگی نا۔حالات جس ڈگر پہ ڈال دیئے گئے ہیں، اس میں فرد سے اداروں تک سب باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ محسن نقوی نے کسی اور پس منظر میں کہا ہوگا، مجھے موجودہ حالات پہ منطبق نظر آتا ہے۔
شب گراتی ہے بجلیاں دل پر
صبح آتش بَجاں گزرتی ہے

اخبار نویس کا مسئلہ زود نویسی ہے۔ اسے حالات حاضرہ کے سارے زاویوں کو ایک نظر دیکھ کر کسی سنجیدہ موضوع کو چن لینا ہوتا ہے۔ اپنے حصے کا چراغ جلانے کی ہر ممکن جستجو۔ یہ ملک میرا اپنا ہے، ہم سب کا ہے۔ اس کی بقا و ترقی کے لئے ہم سب ایک ہیں، ہم سب یکجان ہیں، وہ سارے مزدور، اساتذہ، شاعر، ادیب، کاروباری جن کا مستقبل اس مٹی سے وابستہ ہے۔ ہاں جن کے مفادات سات سمندر پار ہیں، انہیں اس خطہ ارضی پہ حکمرانی کا شوق ہے اور بس۔ نہ تو شریف خاندان ناگزیر ہے، نہ بھٹو خاندان، نہ کوئی مذہبی سیاسی جماعت۔ اہمیت ریاست کی ہے اور اسی کی بقا کے لئے ہم سب کو یکجان و یکجا ہونا ہے۔ افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمٰی سے نااہل قرار دیا تو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے اسے “عین عدل” قرار دیا۔ ان کے نزدیک یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ایسا عدل تھا، جس کی پاکستانی عدالتی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اس لئے کہ یہ نواز لیگ کی خواہش تھی، جسے وہ عدل کا نام دے رہے تھے۔ مگر جونہی پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پہ نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو انہوں نے اس فیصلے کو “عدل” کے بجائے سازش قرار دیا۔ جوابی کارروائی میں نواز شریف نے اپنی دختر نیک اختر کے ساتھ مل کر عدلیہ مخالف مہم شروع کر دی۔ پارلیمان سے انتخابی اصلاحات بل پاس کرایا۔ عدالت نے پٹیشن پہ فیصلہ دے اور نواز شریف کو پارٹی صدارت کے عہدے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔

ہم سماجی حیات میں انتہا پسندانہ رویوں کے حامل لوگ ہیں۔ معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بجائے اس کے جذباتی پہلوئوں کو پہلے دیکھتے ہیں۔ ہر مسئلے میں ہمیں سازش نظر آتی ہے، یہ مجموعی قومی مزاج بن چکا ہے۔ کوئی دھماکہ ہو جائے تو بھارت و اسرائیل کی سازش۔ نواز شریف کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے تو ریاستی اداروں کی نون لیگ کے خلاف سازش۔ ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن پکڑے جائیں تو جمہوریت کے خلاف سازش۔ مدارس کی اصلاحات کی بات کی جائے تو اسلام کے خلاف سازش، اصل مسئلہ مگر یہ سازش نہیں بلکہ وہ عوامل ہیں، جو نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے کا سبب بنے۔ ان اسباب پہ کوئی سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کرتا۔ ورنہ بخدا سازش نہیں یہ اعمال ہیں، جو نواز لیگ کو یہاں تک لے آئے۔ یہ اعمال ہی ہیں، جو پیپلز پارٹی کی جگ ہنسائی کا باعث ہیں۔ یہ اعمال ہی ہیں جنھوں نے الطاف حسین کو بے گھر کر دیا، یہ اعمال ہی ہیں جو پی ٹی آئی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ثبت کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ایک کریڈٹ مگر جاتا ہے کہ اس نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد اداروں کو شعلہ بیانی کا ہدف نہیں بنایا، بلکہ یوسف رضا گیلانی چپ چاپ گھر چلے گئے۔ نون لیگ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ تصادم کا  راستہ۔ کیا عدل وہی ہے، جو شریف خاندان کو پسند آئے؟ اصل چیز سسٹم ہے، ریاست کے لئے اہم چیز اس کے ادارے ہیں، شخصیات نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

احد چیمہ کو نیب نے گرفتار کیا تو پنجاب کی بیوکریسی نے ہڑتال کر دی۔ یہ ہڑتال کی گئی؟ یا کرائی گئی؟ آشکار ہے۔ یہ رویہ بڑا خطرناک ہے، اس رویے کے پشتیبان ملک کو انارکی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ خالص طالبانی رویہ ہے۔ انتہا پسندانہ۔ کیا احد چیمہ کسی مقدس دیوتا کا نام ہے؟ گرفتاری کے طریقہ کار پہ بات ہوسکتی ہے۔ آئینی ماہرین اس پہ ضرور اداروں کی رہنمائی کریں، لیکن پنجاب کی بیورکریسی کا یوں ایک خاندان کے حق میں ریاست کے خلاف فریق بننا کسی بھی طور درست عمل نہیں، اس سے سماجی حیات پہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے یہ پیغام جائے گا کہ سیاستدانوں کی طرح بیوروکریٹس بھی خود کو آئین و قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ اداروں پر دبائو ڈالنے کے لئے ہڑتالوں کا رواج زندہ معاشروں کو ہیجان خیزی کا اڈہ بنا دیتا ہے جہاں افراد اور ادارے ایک دوسرے پہ اعتماد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ یہ رویہ معاشرتی زوال کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ احد چیمہ کو اس وقت اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی، جب وہ نیب کی حراست میں ہیں۔ میاں نواز شریف کے لئے اس وقت انتخابی اصلاحات کا بل پاس کرایا گیا، جب عدالت نے انہیں وزارت عظمٰی سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ یہ تصادم ہی نہیں بلکہ پیغام بھی ہے کہ ہم اور ہمارے فرنٹ مین آئین سے ماورا کوئی شے ہیں۔ آئین مگر مقدم ہے اور پاکستان کا ہر بیدار مغز شہری شخصیات کے بجائے اداروں کی بالادستی کی بات کرتا ہے۔ تصادم کا منطقی نتیجہ نقصان ہوتا ہے۔ محسن نقوی نے کہا تھا اور میں نقل کر رہا ہوں کہ
ہمارے سچ کی گواہی پہ انگلیاں نہ اٹھا
یہی تو عیب ہم اپنے ہنر میں رکھتے ہیں

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply