حکمرانوں کے درباری راگ/حیدر جاوید سیّد

فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں 3 روپے 7 پیسے اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ اضافہ ماہ اکتوبر میں فیول کی قیمتوں کے حوالے سے ہے جوکہ صارفین سے دسمبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔ ادھر روپے کی قدر میں کمی کے نام پر سوئی گیس کی قیمت 1715 سے بڑھ کر 2961روپے 98 پیسے فی ایم ایم بی ٹی مقرر کرنے کی استدعا پر سماعت 11 دسمبر کو ہوگی۔

بظاہر امید یہی ہے کہ سوئی نادرن کی مالیاتی ضرورتوں کے حوالے سے مسلط مسائل سے نجات کے لئے صارفین کو کُند خنجر سے ذبح کنے کی اجازت عطا کردی جائے گی۔ بجلی مہنگی اور گیس کی قیمتوں میں بے لگام اضافے کی ان تیاریوں پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتاہے کہ

“تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو”

نگران حکومت کے پاس ان عوام دشمن فیصلوں کے دفاع میں ایک ہی بات ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں سابق حکومت نے آئی ایم ا یف سے جو معاہدہ کیا اس کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے۔

اصولی طور پر اس صورتحال کی ذمہ داری سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ 16 ماہ اقتدار میں رہنے والے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم و اتحادیوں کو قبول کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو باوقار طریقہ بتایا کرتے تھے لیکن پھر وہ نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ ایسا معاہدہ کیا جس سے عوام کے لئے اجتماعی خودکشی کا باوقار راستہ ہموار ہوگیا۔

ستم بالائے ستم تحریک انصاف کی حکومت کے وزیراعظم نے اپنی ہی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی مسائل عوام بھگت رہے ہیں۔

مختصر عرصہ کے لئے بجلی اورپٹرولیم پر سبسڈی صارفین نے وصول کرتے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کو انقلابی قدم قرار دیا۔ اب اس انقلاب کے “ثمرات” شکنجہ بن کر عام آدمی کی جان عذاب میں ڈالے  ہوئے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف کی جگہ اقتدار سنبھالنے والے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ مہا تجربہ کار ہیں اقتدار ملتے ہی ناتجربہ تحریک انصاف کے پیدا کردہ مسائل چٹکیوں میں حل کردیں گے۔

پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو اقتدار تو مل گیا لیکن مسائل حل ہونے کی بجائے بدترین ہوتے گئے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پیدا ہونے والے گھمبیر مسائل کے حوالے سے دلچسپ بات یہی ہے کہ پونے چار برس تک تحریک انصاف مسائل کو “چوروں” کی لوٹ مار کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے عوام کو بہلاتی رہی اور 16 ماہ پی ڈی ایم و اتحادی یہ ثابت کرتے دیکھائی دیئے کہ عالمی سازش کے تحت پاکستان میں اقتدار میں لائی گئی پی ٹی آئی نے منصوبہ سازوں کی منشا کے عین مطابق پاکستانی معیشت، سماجی وحدت اور جمہوری روایات کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

نیز یہ کہ اب اصلاح احوال میں کئی عشرے لگیں گے۔

اقتدار ملنے سے قبل جو مسائل چٹکیوں میں حل ہوسکتے تھے اقتدار ملتے ہی وہ عشروں میں حل ہونے کی نوید دی گئی۔ دوسری طرف یہ امر اپنی جگہ تلخ ترین حقیقت کی صورت میں موجود ہے کہ پی ٹی آئی کے پونے چار برسوں میں ملک میں بدترین مہنگائی تھی خود عمران خان اعتراف کرتے دیکھائی دیئے کہ مہنگائی چالیس برسوں کی شرح کے حساب سے بہت زیادہ ہے مگر پی ڈی ایم کے دور اقتدار میں تو سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پچھلی نصف صدی میں اس طرح کی مہنگائی، غربت اور بیچارگی کا اس ملک کے لوگوں کو سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اس پر ستم یہ کہ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے نگران حکومت کے لئے روایت سے ہٹ کر اختیارات میں اضافے کے لئے قانون سازی کی۔

اس حوالے سے بتایا یہ جاتا رہا کہ مشکل حالات میں نگران حکومت کو روزمرہ کے امور کے حوالے سے مزید اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اس دعویٰ نما یقین دہانی کے برعکس نگران حکومت نہ صرف پالیسی ساز فیصلوں میں مصروف ہے بلکہ اس کے اب تک کے دور میں صرف یوٹیلٹی بلز میں جتنا اضافہ ہوا وہ پچھلے پانچ برسوں میں بھی نہیں ہوپایا تھا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ اور اسے پالیسی سازی کا حق طے شدہ منصوبے کے تحت دیا گیا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے انتخابی عمل میں کامیاب ہوکر اقتدار سنبھالتے وقت اور بعد میں عوام کو یہ کہہ کر بہلایا جاسکے کہ مسائل کی سنگین کی ذمہ داری نگران حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

اس وقت ملک میں عمومی صورتحال یہ ہے کہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن پچھلے پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں (پونے چار برسوں) میں ایک کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے اور مہنگائی کی مجموعی شرح میں 23فیصد اضافہ ہوا تھا مقابلتاً پی ڈی ایم و اتحادیوں کے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں 40لاکھ لوگ بیروزگار ہوئے اور مہنگائی کی مجموعی شرح 23فیصد سے بڑھ کر 34فیصد ہوگئی یعنی اس میں 11فیصد اضافہ ہوا۔

اسی طرح یہ بھی تلخ ترین حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف سے گزشتہ دو معاہدوں (پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ایک ایک) میں طے شدہ امور کے مطابق دفاعی اخراجات میں کمی کی گئی نہ ہی فوجی فائونڈیشن کے کاروبار اور ڈی ایچ اے نامی ہائوسنگ کے بزنس کے سالانہ ٹیکس ریکارڈ کی کوئی دستاویزات سامنے لائی گئیں

اس کے برعکس ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی گئی یا پھر پٹرولیم سوئی گیس وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اسی عرصے میں حکومتی سبسڈی سے چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 8 بار (پانچ برسوں میں) اضافہ کیا گیا۔

اس اضافے کا جواز یہ بتایا گیا کہ مارکیٹ کے نرخوں کے مساوی نرخ مقرر کرنے کا مقصد چور بازاری کو روکنا ہے۔ یعنی “آپریشن کے مستحق مریض کا بروقت آپریشن کرنے کی بجائے اسے زہر کا ٹیکہ لگاکر آذیت سے نجات دلانا”۔

عام شہری مسائل کے بوجھ تلے دبا سسک سسک کر جی رہا ہے۔ غیرترقیاتی اور دفاعی اخراجات میں کمی کی طرف متوجہ کرنا ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے۔ مسائل اور عذاب عام شہری کا مقدر ہیں۔

اس بدترین مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ عوام حیران و پریشان ہیں اپنی فریاد کس کے دروازے پر لے کر جائیں۔ نگران حکومت کے ذمہ داروں کو صرف دو باتیں آتی ہیں اولاً یہ سب ان معاہدوں کا نتیجہ ہے جو پچھلی حکومت نے کئے ہم تو ان پر عمل کے پابند ہیں۔ ثانیاً یہ کہ نجکاری ہی واحد حل ہے۔

دیکھا جائے تو نگران بھی ڈنگ ٹپائو پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں اس امر کا احساس ہے کہ وہ جو بھی کریں ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر دامن جھٹک لیں گے۔

عجیب بات یہ ہے کہ بعض نئے معاہدوں کا کریڈٹ وصول کرنے والے مسائل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اکتوبر میں بین الاقوامی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہورہے تھے لیکن فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر صارفین پر 3روپے 7 پیسے کا بوجھ ڈال دیا گیا۔

سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی استدعا کی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی بتایا گیا لیکن دوسرے ہی پیراگراف میں کہا گیا کہ محکمہ جاتی اخراجات کے عدم توازن کے خاتمے کے لئے فی ایم ایم بی ٹی 1246 روپے اضافہ ناگزیر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صارف یہ بوجھ کیسے برداشت کرے گا، بابو شاہی کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کسی کی بھی پہلی ترجیح نہیں۔ ان حالات میں عوام کو ضرور اس امر پر غور کرناہوگاکہ خود ان کی پہلی ترجیح کیاہے۔ باوقار زندگی یا رعایا کی طرح ہر حال میں اطاعت؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply