دورِجدید میں کوئی ذریعہ معاش حلال بھی بچا ہے؟-ارشد خان آستک

میں سوچتا ہوں کہ کمائی کی  جدید فیلڈز میں تقریباً زیادہ تر کو  حرام  ہی کہا جاتا ہے اب مسلم نوجوان کرے بھی تو کیا! یوٹیوب/فبس بک مونیٹائزیشن سے کمائی حرام ؛ کرپٹو کا کام حرام ؛ ڈراپ شپنگ کا کام حرام ؛ پھر آخر میں حد یہ کہ علمائے دیوبند کے ویب سائٹ پر آج تک یہ بھی فتویٰ  ٹھیک ٹھاک پڑا ہے کہ ویڈیو اور تصویر ہی سِرے سے حرام ہے۔ صرف درختوں اور دریاؤں بادلوں وغیرہ یعنی بے جان اشیاء کو آپ دکھاسکتے ہیں۔ اب ان چیزوں کو دکھاکر بندے نے اس کا اچار ڈالنا ہے؟ ان کو دکھانے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ اس سے تو بہتر ہے ویڈیو ہی نہ بنائی جائے۔ یعنی اس حساب سے آٹومیٹکلی گرافک ڈیزائننگ ؛ ویڈیو ایڈیٹنگ ؛ کارٹون اینیمیشن ؛ این ایف ٹی میکنگ اور سیلنگ وغیرہ سار ے کام  حرام ہوئے ۔ بچوں کے لیے جانداروں کے بنائے گئے پُتلے اور کھلونے بیچنا بھی حرام ہوا۔ اسی طرح اللہ بخشے میڈیا کی پوری کی پوری صنعت ہی حرام ہوئی۔ اسی طرح اشتہارات کی بھی پوری کی پوری صنعت حرام ہوئی۔ آن لائن ویڈیو کال پر ٹیوشنز پڑھانا بھی حرام ٹھہرا۔ اسی طرح ویب سائٹس بناکر اس پر اشتہارات لگا کر کمانا بھی حرام ہوا۔ کفار کے ساتھ یہ مذکورہ سارے فیلڈز ہیں جن کا میں نے ذکر کیا اور وہ بڑے بڑے اماؤنٹس ان سے کما رہے ہیں۔

میں نے ایک عالم کو کہا تھا کہ میں فوٹو لیب کھولنے کا کام کرنا چاہتا ہوں فوٹوشاپ وغیرہ کے ذریعے جو تصاویر بناتے ہیں ڈاکومینٹس کے لیے شادی بیاہ غمی خوشی کے موقع پر تو انہوں نے کہا یہ بھی حرام ہے۔ ایک دوست کو ایک عالم نے کہا بطور میڈیکل ریپ کام کرنا بھی اس لیے حرام ہے کہ کمپنی کی  اویات معیاری ہونگی یا نہیں، لیکن آپ نے تعریف کرنی ہے اور ڈاکٹر کو لالچ دینا  ہے کہ وہ سجیسٹ کرے۔ اسی طرح فریب  میں بندے کو بلاوجہ بہت ساری  مہنگی اور غیر معیاری ادویات خریدنی پڑتی  ہیں۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ جس میں وہ ٹری سسٹم ہوتا ہے کہ آپ ایک گاہک لے آتے ہیں پھر وہ گاہک جب گاہک ڈھونڈ لیتا ہے کمپنی کے لیے تو اس پر آپ کو ریوارڈ کے طور پر کمائی ملے گی مجھے کہا گیا یہ بھی حرام ہے۔ باوجود تھوڑی بہت انویسٹمنٹ کے پھر میں نے چھوڑدیا۔ ایک عالم سے کہا اگر کسی بڑے شہر میں نائی/باربر/ہئیر ڈریسر کو شاپ کھلواکے دوں کہ اس میں انویسٹمنٹ اتنی نہیں ہے بس وہ ماہانہ فکس ریشو  پہ مخصوص اماؤنٹ دے گا تو عالم صاحب نے کہا یہ بھی حرام ہے کیونکہ  ہیئر  ڈریسر ضروری تو نہیں صرف   سنت کے مطابق بال کاٹتا ہو ؛ یہ بات درست بھی ہے کہ واقعی ہئیر ڈریسر صرف سنت کے مطابق تو بال نہیں کاٹتا اور اگر صرف سنت کے مطابق کاٹنا شروع کرے تو وہ خود مشکل سے کما پائے گا پھر خاک انویسٹر کو منافع دیکھا؟ اچھا جی انشورنس بھی حرام ہے۔ بینک سے کسی بھی طرح کا منافع والا  لین دین بھی حرام ہے۔ پرائز بانڈز بھی حرام ہیں اور نکلنے والے انعامات بھی حرام ہیں۔ بینک سے قرض لینا بھی حرام ہے حالانکہ مغرب میں یہی قرض لوگ لے کر بڑے بڑے کاروبار کھڑے کردیتے ہیں۔

بعض علما  کہتے ہیں قسطوں پر چیز بیچنا اور خریدنا بھی حرام ہے۔ بعض کے نزدیک کمیشن خوری بھی حرام ہے۔ اس حساب سے کار اور پراپرٹی ڈیلنگ کی بھی پوری صنعت حرام ٹھہری۔ اچھا پرفیومز میں چونکہ الکوحل استعمال ہوتا ہے اور الکوحل حرام ہے تو پرفیوم سیلنگ بھی حرام ہوئی ،ہاں البتہ بِنا الکوحل کے عطر بیچ سکتے ہیں یعنی بات پھر وہی ہوئی کہ چند گنے چنے لوگ ہی آپ کے گاہک بنیں گے۔ اچھا گیمز ایک تو ویسے بھی عبث  شے ہے وقت کا ضیاع ہے اوپر سے کرکٹ فٹ بال چونکہ یہودیوں کے گیمز ہیں تو اس کا سامان بیچنا بھی حرام ہوا۔ ٹائی پینٹ شرٹ بیچنا بھی حرام ہوا۔ عورتوں کے حدید فیشن کے مطابق ریڈی میڈ تنگ اور باریک سوٹس یا کھلا باریک کپڑا بیچنا بھی چونکہ بے حیائی کو فروغ دینا ہوا یہ بھی حرام ہوا۔ ہینڈ فری اور میوری کارڈ و بلیوٹوتھ ڈیوائس سپیکر وغیرہ چونکہ میوزک کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں اس لیے ان کی سیلنگ بھی حرام ہوئی۔ اسلحہ سے کوئی بے گناہ بھی قتل ہوسکتا ہے اس لیے اسلحہ بیچنا بھی حرام ہوا۔ یہ سودی قرضہ کے حرام ہونے اور سودی نظام کے عمل دخل کا جہاں تک تعلق ہے تو اس حساب سے تو پھر ہمارا پورا ملک ہی حرام پر پل چل رہا ہے کیونکہ ہم ورلڈ بینک /آئی ایف ایف/ امریکہ وغیرہ سے سود پر قرضہ لیے ہوئے ہیں اور اسی طرح ملک چلارہے ہیں۔ ملک میں جتنے بھی سیلریز ملتے ہیں ؛ پراجیکٹس شروع ہوتے ہیں ؛ فنڈز ملتے ہیں یہ اسی پیسہ میں سے ملتے ہیں۔ انہی عالمی اداروں کا یہ سودی پیسہ پوری دنیا میں سرکولیٹ ہورہا ہے آپ کسی بھی ملک میں جاکر وہاں کماتے ہوئے یہ کلیم نہیں کرسکتےڑکہوآپ کی کمائی میں ان مذکورہ اداروں اور عالمی طاقتوں کا سودی پیسہ شامل نہیں ہے۔ اچھا بذات خود ملک کے اندر لوکل بینکس بھی سودی نظام پر چل رہے ہیں اور سب کو سیلریز بینک کے ذریعے ہی ملتے ہیں۔

سرکاری ملازموں کا جی پی فنڈ حکومت نے اپنے پاس رکھا ہوتا ہے اس پر اسے منافع دیا جاتا ہے یہ بھی سود کی شکل ہوئی لیکن ہر حاجی اور دیانتدار بندہ پھر بھی جی پی فنڈ استعمال کر رہا ہے۔ کاسمیٹیکس انڈسٹری اور بیوٹی پارلرنگ بھی حرام ہوئی کیونکہ شوہر بیوی اور بیوی شوہر کے لیے آج کل کم ہی میک اپ کیا کرتے ہیں۔ زیادہ تر نامحرموں کے لیے ہی میک اپ کیا جاتا ہے۔ ٹیلرنگ بھی حرام ہوئی کیونکہ جدید فیشن بے حیائی پر مبنی ہے اب جس طرح ہئیر ڈریسر صرف سنت کے مطابق ہی بال کاٹے گا تو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی شاید بمشکل ہی جمع پونجی کرسکے گا بالکل ویسے ہی اگر ایک ٹیلر بھی صرف شرعی لباس ہی بنائے گا تو گنے چنے لوگ ہی سلوانے آئیں گے۔ اب بندہ کرے بھی تو کیا کرے۔ اسی لیے تو معاشی طاقت میں غیراقوام ہم سے بہت آگے ہیں۔ پیسہ کی آپ طاقت سے انکار نہیں کرسکتے۔ اللہ اس دنیا میں رحمان ہے یعنی سب کو عطاء کرنے والا جبکہ آخرت میں رحیم ہوگا یعنی صرف مسلمانوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنے والا اس کا مطلب ہوا کہ دنیا میں ساری کی ساری کامیابی دینداری میں نہیں ہے۔ دین کے عوض سو فی صد انعامات کا وعدہ آخرت کے لیے ہے۔

کُل ملاکر بات یہ ہوئی کہ دنیا میں آپ کو پیسہ سے جو چیز حاصل ہوتی ہے ضروری نہیں وہ دیندار بننے سے حاصل ہو۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں دیندار بنوں تو پیسہ بھی مل جائے گا یا گناہ نہ کرو ورنہ پیسہ بند ہوجائے گا ایسا ہوتا تو کفار کو اللہ نہ عطاء کرتا۔ اس دنیا کے قوانین کفار اور مسلمان کے لیے یکساں ہیں۔ اللہ نے یہاں کی ترقی بس محنت سے مشروط کی ہے۔ محنت کوئی کرے گا تو دنیاوی ترقی ملے گی چاہے وہ دیندار ہو نہ ہو۔ پیسہ اگر آپ کے پاس ہو تو دین کی ترویج تبلیغ اور ترقی کے لیے بھی آپ لگاسکتے ہیں۔ آپ مدرسے کھول سکتے ہیں ؛ مساجد بناسکتے ہیں ؛ غریبوں اور ناداروں اور نومسلموں کی مالی مدد کرسکتے ہیں ؛ ان کو پناہ دے سکتے ہیں ؛ م۔ج۔ا۔ہ۔د۔ی۔ن کی مدد کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پیسہ کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں۔۔۔

یہ غیر مسلم جو دنیا پر چھائے ہوئے ہیں یہ صرف معاشی طاقت کے بل بوتے چھائے ہوئے ہیں یاد رکھیں۔ ہم تو خواب خرگوش میں رہ کر بس صرف اپنی دین سے دوری کو ہی سارے زوال کا باعث قرار دے رہے ہیں حالانکہ کافی دیندار لوگ اب بھی پائے جاتے ہیں ہم مسلمانوں میں ۔۔۔ اچھا موضوع کی طرف آتے ہیں۔ تو ایک طرف جہاں مذکورہ بالا فیلڈز کو حرام قرار دینے والے علماء موجود ہیں وہیں ایٹ دَ سیم ٹائم میں آپ کو مذکورہ کاموں کو حلال کہنے والے علماء بھی دکھاسکتا ہوں۔ اب یہی سے علماء پر اعتبار اٹھ سا جاتا ہے۔ پہلے تو خود اتفاق کیا کریں ایک مسلے میں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ آپ چند پیسوں اور اعلٰی کھانا شانہ کھلاکر کسی عالم سے اپنا مند پسند فتوٰی لے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک فنی بات یاد آگئی۔ ایک دوست جو کہ بجلی چوری میں ملوث تھا کو میں نے کہا بھائی یہ برا کام ہے نہ کر اس نے کہا کیوں یہ حکومت جو ہمارے ساتھ یہ زیادتی کرتی ہے وہ زیادتی کرتی ہے وغیرہ وغیرہ تو میں نے کہا یار یہ ساری چیزیں ایک طرف مگر اسلامی نکتہ نظر سے یہ کام حرام ہے تو اس نے کہا میرے پاس فتوٰی موجود ہے فلاں عالم کا کہ ایسے حالات میں یہ سب جائز ہے۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے خیال سے اگر ایک مسلے میں آپ کے سامنے دو علماء آجاتے ہیں ایک شرعی دلائل دے کر اس کے خلاف فتوٰی دے اور ایک شرعی دلائل دے کر اس کے حق میں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس ساری بحث کا حاصل ہوا کہ سو فی صد جسے حلال کہا جائے ایسا معاش تو کوئی نہ رہا پس اس میں کوشش بس یہ ہونی چاہیے کہ بندہ اپنی دانست کے مطابق کم برا معاش اپنائے۔

Facebook Comments

ارشد خان آستِک
ارشد خان آستِک تجزیہ کار ؛ شاعر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply