تخلیق کاروں کے نام۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

آزادئ اظہارِ رائے یہ نہیں کہ آپ کسی چوک پر کھڑے ہوکر سیاستدانوں کے خلاف دل کی بھڑاس نکال سکیں، حقیقی آزادی کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر کی آواز، آپ کا فن، آپ کا ٹیلینٹ اور آپ کی تخلیق معاشرے کی توجہ پا سکے، اس کے اظہار میں نہ صرف یہ کہ کوئی رکاوٹ نہ ہو بلکہ اس کی بڑھوتری اور حوصلہ افزائی کیلئے کم از کم آپ کے شعبے سے متعلقہ لوگ مثبت رویوں کا مظاہرہ کریں، اور اگر ایسا نہیں تو ہم اور آپ آزادی کے حقیقی معنوں سے ناواقف ہیں۔
زبدگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، مذہب، سماجیات، سائنس فلسفہ، ادب و فنونِ لطیفہ، تمام شعبوں میں ہر آنے والی نسل اپنے خیالات ، بلکہ بعض اوقات تحفظات، رکھتی ہے، یہ خیالات ان کے اندر کی تحقیقی صلاحیتوں کی پکار ہوتے ہیں جو حقیقت میں ڈھلنا چاہتے ہیں۔
معاشروں کی دو قسمیں ہیں، زندہ اور مردہ، زندہ معاشرے نوجوان تخلیق کاروں کی آواز پہ کان دھرتے ہیں، توجہ دیتے ہیں، کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں معاشرے ہی کا فائدہ ہے ، یہیں سے ایک سلسلہ چل پڑتا ہے، اور معاشرہ آگے کو برھتا ہے، مردہ معاشروں نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ کسی بھی نئی آواز کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنائے بغیر نہیں چھوڑیں گے، نتیجے میں ہر شعبے سے اٹھتی تخلیقی صلاحیت دب جاتی ہے، تحقیق رک جاتی ہے، نئی تخلیق کی آواز نوجوان کے ذہن میں ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتی ہے۔
یہاں کسی فرد کو الزام دینا کافی نہیں، وہ بس ایک مہرہ ہے جو اپنا حصہ ڈال رہا ہے، اصل کھیل کی باگ اس ہاتھ میں ہے جسے ہم عام طور پر، سسٹم، یعنی نظام کا نام دیتے ہیں۔
سسٹم ہی خراب ہے،
نظام ناقص ہے،
اسی لئے ہم باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔
یہ وہ جملے ہیں جو ہم آئے روز سنتے اور بعض اوقات خود کہتے بھی ہیں اور سسٹم کی خرابی والی بات میں وزن بھی ہے، لیکن اس کی جڑوں کو سمجھے بغیر کوئی تخلیق کار آگے نہیں بڑھ سکتا۔
آپ نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ کچھ افراد کی صحبت سے آپ محظوظ ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کے ساتھ آپ ملنا بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ آپ کے من کو نہیں بھاتے، اس کی وجہ لوگوں کا عمومی رویہ ہے جو پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے پیمانے طے کرتا ہے
رویہ ہر انسان کا وہی ہوگا جو اس کی سوچ ہوگی،
سوچ یا تخیل، یہ انرجی ہے جو انسان کے گرد ایک انرجیٹک فیلڈ یا انرجی فیلڈ بناتی ہے، ہم اور آپ فرد کے اس انرجی فیلڈ کو محسوس کرتے ہیں، اور اسی سے اس شخص کو پسند یا ناپسند کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
یہی انرجیٹک فیلڈ آپ بھی اپنی شخصیت کے گرد رکھتے ہیں، ایگزوٹیرک سائنسز میں اس کو ،Aura, کا نام دیا گیا ہے، یہ آپ کی سوچ یا آپ کے تخیل کا مثبت یا منفی چارج ہے جو دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ انرجی فیلڈ صرف فرد کا ہی نہیں، بلکہ ایک ہی تخیل ، ایک ہی منزل ، ایک ہی مفاد، گویا کہ ایک سوچ رکھنے والے افراد کا اجتماعی بھی ہو سکتا ہے، اور یہ اجتماعی انرجیٹک فیلڈ انفرادی کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے کہ اس میں کئی افراد کی سوچ اور انرحی شامل ہوتی ہے۔
آپ کسی ادارے میں چلے جائیں تو آپ ایک خاص سوچ کا اثر محسوس کریں گے ، وڈیرے کے ڈیرے پر ایک مختلف انرجی آپ کو جکڑے گی، کچھ محفلیں آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں کہ ان کی انرجی یا تومثبت ہے یا پھر آپ اور یہ محفل ایک سا تخیل یعنی ایک سی انرجی رکھتے ہیں۔
آپ دوسرے شہر یا دوسرے ملک اگر جائیں تو یہ بات بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے کہ آپ کے انرجی فیلڈ کو اس شہر یا ملک کے اجتماعی انرجی فیلڈ کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔
آپ محرّم کے دنوں میں اہلِ تشیع کی مجلس میں تشریف لے جائیں تو آپ پر بھی ایک رقت طاری ہو جائے گی چاہے آپ جانتے اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ ذاکر کی زبان سے نکلے الفاظ میں سارا سچ نہیں، لیکن اس محفل کا انرجی فیلڈ اتنا مضبوط ہے کہ آپ تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور بہاؤ کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں۔
کسی بادشاہ بلکہ ہمارے ہاں تو کسی ایم این اے کی محفل میں مخالفت کی جرآت کس کو ہو سکتی ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا ماحول ایک خاص توانائی میں سینچا گیا ہے، وہاں روزانہ سینکڑوں افراد ظلِ الہی اور سردار صاحب جیسے الفاظ کی انرجی دیتے ہیں، ان رویوں سے اجتماعی انرجیٹک فیلڈ مضبوط ہوتا ہے اور فرد کی آواز کو ساتھ بہا لے جاتا ہے، ایسے میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس دباؤ میں اچھے خاصے خوددار افراد بھی خوشامد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آرمی اور کارپوریٹ سیکٹر میں اسے ڈسپلن کا نام دیا جاتا ہے، مقصد یہی ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ایک ہی سمت میں سوچے، سوچ انرجی ہے، بہت سے لوگوں کی یہ انرجی ایک ہی سمت میں بہے گی تو انتہائی مضبوط انرجی فیلڈ بنے گا جو دریا کے تیز بہاؤ سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں یہ طاقتور فیلڈز موجود ہیں جو ہر نئے آنے والے کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں، یوں اگر کوئی نئی تخلیقی آواز سامنے بھی آئے تو فرر جتنی بھی جسارت یا اس بہاؤ کے خلاف تیرنے کی کوشش کر لے، عموما آخر میں فرد اسی گروہ کا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتا ہے کیونکہ ایک فرد کی انرجی پورے ادارے یا سماج کی انرجی سے کہیں کمزور ہے، دوسرا یہ کہ مرض اگر دائمی ہوتو فرد کے مفاد بھی اسی اجتماعی انرجیٹک فیلڈ سےمنسلک ہوجاتے ہیں۔ لوگوں میں بلڈ پریشر، معدے کے السر اور دیگر بیماریوں کی اصلہ وجہ یہی ہے کہ آپ اس اجتماعی انرجی فیلڈ کے خلاف لڑنے کی کوشش کرتے ہیں جب کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آتا تو انسان کا غصہ اپنے اعصاب اور اعضاء پہ نکلتا ہے۔
ایسے میں کیا کیا جائے ؟
کس طرح اندرونی اطمینان حاصل ہو ؟
اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کیسے سامنے لایا جائے؟
کیا نسخہ استعمال کیا جائے کہ یہ اجتماعی انرجیٹک فیلڈ آپ کو اپنے ساتھ نہ بہا لے جائے اور آپ اپنے اندر کی انفرادیت کو کھو کر بس اسی بھیڑ کا حصہ نہ بن جائیں؟
اس کیلئے دو نکات ہر اس شخص کیلئے جاننا ضروری ہیں جو اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو برباد ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔
پہلا یہ کہ آپ اپنے انرجی فیلڈ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں تاکہ یہ اجتماعیت کو مزاحمت دے سکے، اور یہ مشق اتنی آسان ہے کہ اس کی افادیت پہ شک گزرتا ہے
معروف مصنف نپولین ہِل نے اپنی کتاب میں بینجمن فرینکلن کے بارے لکھا ہے کہ وہ روزانہ شام یا رات کو پندرہ بیس منٹس خود کو دیتے، بس ویسے ہی اکیلے بیٹھے رہتے، نہ کچھ کرتے، نہ کچھ سوچتے، بس توجہ سے سانس لیتے اور کائنات کے ساتھ گویا کہ یکتا ہوجاتے،
ہر وہ شخص جو اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ روزانہ چند منٹس خود کو دے، تنہائی ہو، موبائل بند ہو، قریب کوئی نہ ہو، آپ اطمینان سے سانسیں لیجئے اور اپنے ہونے سے محظوظ ہوئیے، شرط یہی ہے کہ ذہن میں کوئی سوچ نہ ہو، بس آپ سانسوں کی آواز سن رہے ہوں، اور مکمل ریلیکس ہوں
مراقبہ شاید اسی کو کہتے ہیں
بس مراقبے کا تہیہ کر لیجئے، روزانہ پندرہ منٹس
اس سے آپ کا انرجی فیلڈ مضبوط ہوگا، ذہن سے تنقید یا تضحیک کا خوف نکلے گا، آپ کا فن نکھر کر سامنے آئے گا، اور یہ سب کچھ انتہائی غیر محسوس طریقے سے ڈویلپ ہوتا ہے۔
دوسرا نسخہ یہ ہے کہ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملائیے، مثبت دوست رکھئے، ان ہم خیال لوگوں اور مثبت دوستوں کی بدولت آپ اپنے انرجی فیلڈ کو مزید مضبوط بنائیں گے، ناقدین و منفی صحبت آپ کی انرجی کو ماں کے دودھ کی طرح چوستے ہیں، آپ کمزور ہوتے ہیں، آپ کا فن ، آپ کی تخلیقی صلاحیت خود کشی کر لیتی ہے۔
اسی لئے تمام تخلیق کاروں کو یہ مشورہ ہے کہ روزانہ خود کو کچھ وقت دینا اور منفی لوگوں سے دور رہتے ہوئے مثبت لوگوں سے قرب رکھنا، جیسے ہتھیار ہی اس اجتماعی انرجی فیلڈ کے خلاف آپ کے کام آسکتے ہیں۔
تمت بالخیر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply