عورت کی تضحیک یا ستم۔۔منصور ندیم

کیسا عجیب معرکہ لگا ہے ، خواہ عمران خان ہوں یا شہباز شریف یا ماضی میں  قندیل بلوچ ہو یا ثانیہ مرزا، ہم کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتے۔ عمران خان کی موجودہ شادی کے حوالے سے مجھے عمران خان پر کوئی بات نہیں کرنی، آپ چاہے اسے ایک لیڈر کی اخلاقی گراوٹ سمجھتے ہوں یا شادی کرنا اس کا مذہبی اور سماجی حق سمجھتے ہوں، ہر دونوں پہلو سے جس طرح سے اس معاملے کی تضحیک یا دفاع کیا گیا وہ  واقعی یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ہماری سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی تربیت،  پتھر یا غاروں کے زمانے سے بھی بری حالت میں  ہوئی ہے۔

اس سارے معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، ہمیں کسی مرد کی بھی تذلیل کرنا مقصود ہو تو ہم اس کی ذلت کے لئے بھی عورت کو ہی ڈھونڈتے ہیں۔پھر خواہ ہم مذہب کے پیروکار ہوں یا لبرل یا  سکیولر، خواہ فیسبک کے دانشور، چونکہ ہمیں فالو کرنے والوں سے ہماری ہر پوسٹ کو ۲۰۰ یا ۴۰۰ لائک ملتے ہیں، اس لئے اب ہمارا ہر تجزیہ ہمارے وضع کردہ اخلاقیات کے ہر اصول پر پورا اترتا ہے۔کہیں مریم نواز کی حیاباختہ تصاویر بنائی جاتی ہیں تو کہیں عمران خان کے حوالے سے  کتنی ہی نیک نام عورتوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔

مفروضے کے طور پر ہی سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد عمر کے کسی بھی حصے میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے عموما ً مذہب، اس کا اہل ثروت ہونا، حتی کی بس اس کا مرد ہونا ہی اس کے لئے ہر راستہ ہموار کردیتا ہے، کیا اگر ایک شادی شدہ عورت اپنی مرضی سے دوسری شادی کرنے کی کوشش کرنا چاہے تو ہمارے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کو اس پر پریشانی کیوں شروع ہوجاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں قومی خزانہ محفوظ رہے بیویاں آنی جانی چیز ہیں!۔۔عمار کاظمی

اگر یہ سوسائٹی اس کو یہ حق باآسانی دیتی تو کیا اس کو روحانیت کا بہانہ کرنا پڑتا، عمران خان پر بیان بازی کرنے والے لوگ جو اس کو سیتا وہائٹ کی مبینہ بیٹی کا باپ بتاتے ہیں، کیا اگر کل عمران خان اس بچی کو باپ کی حیثیت دے ، تو کیا یہی فیسبک کے دانشور اس بات پر پھر جگت بازی نہیں کریں گے۔ ان تین دنوں میں کی جانی والی جگتوں کو دیکھ کر اور ہر ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم پر چلتے بھانڈوں کے پروگرامز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی عوام بنیادی طور پر اپنے ہر مقصد اور منزلیت میں صرف بھانڈ ہی بننا چاہتی ہے۔

سنہ 2011 میں پاکستان کو عورتوں کے لئے دنیا کا تیسرا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا تھا۔ مگر مجال ہے کہ بیشتر پاکستانیوں کو اس بات سے عبرت ملے۔ اس طرح کی کسی بھی رپورٹ لکھنے پر ہمارے غیرت مند پاکستانی، اس ویب سائٹ کو، ویب سائٹ کے لکھنے والے کو، لکھنے والے کے گھر والوں کو، اور گھر والوں کی اقداروں کو ایسی ایسی گالیاں دیں گے کہ آپ کو یقین ہوجائے گا کہ یہ ملک واقعی اتنا ہی غیرت مند ہے جتنا ایک پاکستانی فلم کا ہیرو – جسے بہن کے دوپٹے کی زیادہ فکر ہوتی ہے – مگر بہن کی تعلیم کی نہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ‘عورتوں میں صبر کا پیمانہ زیادہ ہوتا ہے’ اس لئے اسے مرد کے بنائے ہوئے معاشرے میں برداشت کر کے زندگی گزارنا ہوگی۔ کتنی عجیب بات ہے۔ ہمارے پاس تو بد قسمتی سے حقوق نسواں کے لئے اب بھی کوئی باقاعدہ لفظ موجود نہیں۔ جب کہ اس عنوان کے پیرائے میں کتنا کچھ سماتا ہے۔
شاید سب اس زبان سے ڈرتے ہیں جو عورت کو مل جائے۔ اگر ہر عورت کو معلوم ہوجائے کہ وہ مرد سے برابری کی توقع رکھ سکتی ہے، وائے افسوس۔ قیامت آجائے گی پھر تو! بہتر یہی ہے کہ ‘فیمنسٹ’ کے لئے اردو زبان میں اصطلاح نہ نکالی جائے۔ بہتر ہے کہ جیسے عورت ہونے کو گالی بنا دیا گیا ہے ویسے ہی عورت کے حقوق مانگنے والوں کو بھی گالی بنا دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں سوشل میڈیا صحافت اور ضابطہ اخلاق ۔۔منصور مانی

ایک طرف ہمارے ملک کی خواتین کے ٹو سر کر لیتی ہیں، نوبل کی حقدار ملالہ یوسفزئی قرار پاتی ہیں، خواتین کے حقوق کے لئے بل بنائے جاتے ہیں اور نرگس مالواوالا کشش ثقل کی لہروں کی کھوج میں جھنڈے گاڑتی ہیں مگر اس ملک میں منبر پہ بیٹھ کے لوگ شرمین عبید چنائے کو فاحشہ کہتے ہیں، خواتین پر ہونے والے مظالم کے اوپر بات کرنے پر لوگ خواتین وزراء کو جھوٹا اور جاہل کہتے ہیں، ملالہ کو ایجنٹ کہتے ہیں اور اسکی تصویروں پر الٹے سیدھے نقش و نگار بناتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر جب اداروں کو اپنے دائرہ کار سے تجاوز  کرنے پر آواز اٹھاۓ تو غدار کہلاتی ہے یہاں حقوق دینا تو درکنار – اس ملک میں تو انسان کو انسان سمجھنا ہی اب      مافوق الفطرت بات  لگتی ہے۔

ہماری زبانوں میں کشادگی انہی حلقوں کے لئے آتی ہیں جن حلقوں کے لئے ہمارے معاشرتی بیانیے میں گنجائش موجود ہوتی ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس ملک میں پھٹنے والے دہشت گرد کے لئے تاویلیں بنانے والے بہت مل جائیں گے،اپنے پسندیدہ لیڈران کی کرپشن کے دفاع کی دلیلیں بھی مل جائیں گی ، صد افسوس  مگر حقوق نسواں پر بات کرنے کے لئے نہ الفاظ ہیں، اور نہ لوگ ہیں ، نہ قانون میں فراخدلی ہے، نہ سوچ میں، نہ درسگاہوں میں اور نہ ہی گھروں میں۔ نہ تعلیم میں سکھایا جاتا ہے کہ عورت اور مرد برابر وجود ہیں اور نہ تربیت میں، نہ ٹی وی میں عورت مضبوط دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کتاب میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو بس جناب۔ جس معاشرے میں اقدار کا تعین اور اس کی روح شروع سے لے کے آخر تک مرد کے برتر ہونے کی بابت ہو ایسے میں ہمیں ہر آنے والے دن میں ایسے ہی تماشوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply