شیشے کے اس پار۔۔ غلام قادر

یہ کسی ماں  کے لیے  قیامت خیز منظر ہوتا ہے جب اس کا لخت جگر شیشے کے اس پار ہو، وہ اس سے کئی سالوں بعد ملے چہرہ تو دیکھ سکے آواز نہ سن سکے، اپنے جگر گوشے   کو چھو نہ سکے اس کا بوسہ  نہ لے سکے، اس کے چہرے پر اپنا شفیق ہاتھ نہ پھیر سکے، اس کا حال نہ پوچھ سکے اپنے دل کی آگ کو بجھا نہ سکے، یہ صرف ایک ماں ہی بتا سکتی ہے جس پر یہ قیامت ٹوٹی ہو، جو اس قرب ناک صورت حال سے گزری ہو، یہ کتنے درد ناک لمحات ہوتے ہیں یہ ایک ماں ہی محسوس کر سکتی ہے- اور اس بیٹے پر کیا گزری ہو گی جو اپنی جنت کے پاس ہوتے ہوئے بھی اسے چھو تک نہ سکا اس کی شفقت بھری آواز نہ  سن سکا، جی ہاں میں ایک بیٹا ہونے کے ناطے محسوس کر سکتا ہوں اس قیامت کو جو کچھ دن پہلے ہم سب کے دلوں پر تو گزری  لیکن  نفرت کے تالے نہ کھول سکی-
 قارئین، ذرا کچھ لمحوں کے لئے رک جائیے، اپنے دل اور دماغ کو  آرام دیجیے   اور ذرا چند لمحوں کیلئے  بے بسی کی لاش بن کر سوچیے،  نفرت کی  چادر کو اپنے اوپر سے ہٹا کر ، کچھ دیر کے لئے تنگ نظری کے لاکر سے باہر نکل کر، صرف اور صرف انسان بن کر سوچیے، ایک عام انسان بن کر سوچیے  جو انڈیا میں ہو یا،پاکستان میں، امریکا میں ہو یا افریقہ میں، اس کی پہچان انسان اور انسانیت ہی ہے-
اس کی ماں کا دل عام ماؤں کی نسبت زیادہ نازک ہے، وہ مجھ سے بات کر رہی تھیں تو میں ان کے دل سے بہتے آنسوؤں اور درد کی آبشار کو محسوس کر سکتا تھا- وہ غمزدہ آواز میں کہ ہرہی تھیں ۔۔بیٹا اگر اس کی جگہ میں ہوتی   تو اب تک صدمے سے مر چکی ہوتی، یہ شیشہ مرے سینے کو چھلنی کر چکا ہوتا، وہ درد بھرے جذبات سے بولی !کاش کوئی اڑن طشتری مجھے اس جہاں کے اس پار لے جاۓ جہاں ماں اور بیٹے کے درمیان شیشے کی دیواریں بنتی ہیں، جہاں نفرت کی کتابیں لکھی جاتی ہیں، جہاں دلوں کو توڑنے کی پلاننگ کی جاتی ہے، جہاں لوگوں کو نفرتوں کے زہر پلاۓ جاتے ہیں، جہاں لوگ اپنے سکھ کے لئے دوسروں کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں ، جہاں لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دوسروں کا خوں نچوڑ رہے ہیں- میں شاید وہاں پرکچھ اور تو نہ کہہ سکوں گی لیکن اتنا ضرور کروں گی  کہ   ایک ماں ہونے کے ناطے اپنا دوپٹہ ان کے پاؤں پر پھنک دوں گی اور کہوں گی، اے انسانیت کے سوداگرو تم انسانیت کی تذلیل کیوں کر رہے ہو، کیوں انسانیت کا سکون برباد کر رہے، تم کیا سمجھتے ہو انسانوں کا خون  پی کر تم ہزاروں سال زندہ رہو گے، کیا تمھیں مرنا نہیں  ہے، کیا تمھیں  موت   یاد نہیں  ہے، وہ کون سا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل تم نفرت، زہر اور خون  سے کر رہے ہو، یہ نفرتوں کی آگ ایک نا   ایک دن آپ تک بھی پہنچ جاۓ گی اور پھر تمھاری چیخ و پکار کوئی نہیں سن سکے گا، تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی کیونکہ میں نے کئی طاقتور قافلوں کو اپنوں کے ہاتھوں لٹتے دیکھا ہے، میں نے کئی جابروں کو اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا ہے، میں نے کئی ظالموں کو ان کے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی  نفرت  کی   دیواروں کے نیچے دفن ہوتے   دیکھا ہے-
جی ہاں میں نے نفرت کے بیوپاریوں کو ظلمت کی آگ میں جلتے دیکھا ہے- ہاں ہاں میں نے غرور اور تکبر کے بڑے پہاڑوں کو ریت کی دیوار بنتے دیکھا ہے اور میں نے وقت   کے فرعونوں کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے- لیکن سن لو !انسانیت کے سوداگرو سن لو انسان کی زندگی میں ایک ایسی اسٹیج بھی آتی ہے جب انسان کی عقل پر پردہ    پڑ جاتا ہے اور اسے ظلم’ ظلم نہیں  لگتا، اسے بدکرداری’ بدکرداری نہیں  لگتی، وہ نہتے لوگوں کا خون  بہا کر اور انہیں بے دردی سے رُلا کر  اطمینان محسوس کرتے ہیں- تو  بس پھر سمجھ لو کہ آپ کی کشتی بہرے ظلمات کے کنارے پر پہنچ چکی، لیکن تب تک پلوں کے اوپر سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا اور واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو گا اور آپ کی چیخیں سسکتی انسانیت کو باد ِ نوبہار کی طرح  معطر اور ترو تازہ کر جائیں گی-
یہ کانپتی اور سسکتی ہوئی  ماں کچھ اپنوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر کہنا چاہتی ہے- اس کے اپنے بہن بھائیوں سے بھی کچھ گلے شکوے ہیں، تم لوگ چند سکوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیتے ہو اپنی پھولوں جیسی اولاد بیچ دیتے ہو، اپنی عزت کا سودا کر لیتے ہو صرف چند روپوں کے عوض، یہ  معلوم  ہوتے ہوئے بھی کہ یہ پیسہ کدھر سے آرہا ہے، ان لوگوں کا کیا کالا دھن ہے- یہ سب پتا ہوتے ہوئے بھی آپ آنکھیں بند رکھتے ہیں  تو پھر یاد رکھو ایک دن آنے والا ہے اور بہت ہی قریب ہے ،وہ دن جب آپ کا کلبھوشن یادیو شیشے کے اُس پار ہو گا اور آپ شیشے کے اِس پار، ہاں ہاں تب آپ کے ضمیر کی مٹی’ ریت بن کر آپ کے پاؤں تلے سے سرک رہی ہو گی، آپ کا شرم و حیا اور عزت کا تاج محل زمیں بوس ہو رہا ہو گا اور کوئی پیچھے سے آپ کی بے  ضمیری کی لاش کو سہارا دے گا اور کہے گا اوکے مسز “پتہاونتی سدہیر یادیو” جیForty minutes are over….

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply