• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بنکاری نظام خصوصی افراد کو معاشی سرگرمیوں سے دور کر رہا ہے/ثاقب لقمان قریشی

بنکاری نظام خصوصی افراد کو معاشی سرگرمیوں سے دور کر رہا ہے/ثاقب لقمان قریشی

پہلی جنگ عظیم میں یورپ کے لاکھوں افراد معذوری کا شکار ہوئے۔ انہی لوگوں نے معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے احتجاج شروع کیے۔ الیکٹرک، مینیول ویل چیئرز، قابل رسائی ٹرانسپورٹ سب انہی کے ہاتھوں سے ڈیزائن ہوئیں۔ نوکریوں میں معذور افراد کے پہلے کوٹے بھی انہی کے احتجاجوں کی وجہ سے منظور ہوئے۔ نوکریوں کے پانچ فیصد کوٹے تمام معذور افراد کو نوکریاں دینے کیلئے ناکافی تھے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کیلئے مختلف ممالک میں معذور افراد کی پرفارمنس کے حوالے سے سروے کیے گئے۔ ان میں سب سے مشہور سروے امریکہ کی مشہور زمانہ کمپنی “ڈو پونٹ” کا تھا۔ سروے کا مقصد پرائیویٹ کمپنیوں کے معذور افراد کے حوالے سے خدشات دور کرنا تھے۔

میری بھی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کی این-جی-اوز، یونیورسٹیز یا تحقیقاتی ادارہ اس قسم کا سروے کرکے بزنس کمیونٹی کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرے۔
میری 2019ء کی یہ تحریر چند روز قبل میمریز میں سامنے آئی تو میں نے مختلف گروپس میں شیئر کر دی۔ حیران کن طور پر اس بار اس تحریر کو ماضی سے زیادہ پڑھا اور شیئر کیا گیا۔

چند روز قبل میں بجلی کے بل، ٹیکسی کے کرائے اور دیگر اخراجات کا حساب کتاب کر رہا تھا۔ اخراجات کو آمدن سے زائد پاتے ہوئے سوچا کہ کیوں نہ کچھ پیسے بنک کی کسی سکیم میں رکھوا دیئے جائیں۔ اس مقصد کیلئے دفتر سے چھٹی کی۔ میرے گھر سے حبیب بنک صدر کی مین برانچ چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مجھے ویل چیئر ساتھ لے کر جانی تھی۔ پھر ایک شخص کی ضرورت تھی جو مجھے برانچ کے اندر لے کر جاتا۔ کام ختم ہونے کے بعد واپس لاتا۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کو کال کی جس نے پورے کام کے پچیس سو مانگے۔ میں نے ضد کر کے دو ہزار میں منا لیا۔ ویل چیئر کو مہران کی ڈگی میں بڑی مشکل سے پھنسایا۔ حبیب بنک کی ایس ڈی وی برانچ میں ہمارے جیسے کسی کے کہنے پر ریمپ تو بنا دی گئی۔ لیکن یہ ریمپ اتنی اونچی اور تنگ ہے کہ دو بندوں کیلئے بھی ویل چیئر کو اوپر لے جانا مشکل کام ہے۔ بڑی مشکل سے بنک میں داخل ہونے کے بعد میں نے عملے سے سوال کیا کہ حبیب بنک میں معذور افراد کے انٹرسٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی ہے جواب ملا نہیں۔ پھر میں نے بنک منیجر سے دریافت کیا تو اس  نے جواب دیا کہ سینئر سٹیزن کے حوالے سے تو پالیسی ہے لیکن معذور افراد کے حوالے سے کسی بنک میں کوئی سکیم نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ انٹرسٹ پر ٹیکس کی کیا شرح ہے تو جواب ملا کہ پندرہ فیصد فائلر کیلئے اور نان فائلر کیلئے تیس فیصد ہے۔

میں نیا اکاؤنٹ کھولنے کے حوالے سے تمام ضروری کاغذات لے کر گیا تھا لیکن پھر پتہ چلا کہ زکوٰۃ  کی کٹوتی نہ کرنے کیلئے ایک اشٹامپ کی ضرورت پڑے گی۔ مطلب اس شٹامپ کیلئے مجھے ایک اور دن خوار ہونا پڑے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرے گزشتہ پچیس سالوں سے مختلف بنکوں کی اہم برانچوں میں اکاؤنٹ رہے ہیں۔ لیکن رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں شائد پانچ یا چھ مرتبہ بنک کا چکر لگا سکا ہوں۔ اے-ٹی-ایم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں نے آج تک اے-ٹی-ایم کارڈ نہیں بنوایا۔ کیا یہ زیادتی نہیں ہے۔؟

مجھے لوگوں نے خصوصی افراد کے بڑے بڑے سوشل میڈیا گروپس کا ایڈمن بنایا ہوا ہے۔ میں جہاں آٹھ دس ہزار لوگ دیکھتا ہوں وہاں پوری کوشش کرتا ہوں کہ کوئی اچھا سا مشورہ شیئر کر دوں۔ معذور افراد میں ایک دوسرے کو کام سکھانے، فری لانسنگ اور آن لائن کاموں کی تحریک میں نے ہی شروع کی ہے۔ اسکے  علاوہ مجھے جو ناخواندہ اور غیر ہنر مند شخص ملتا ہے تو میں اسے ایک مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے گھر کی دہلیز پر چاٹ، دہلی بھلے، پکوڑے یا لوگوں کے جوتے ہی سینا شروع کردے۔ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرے۔ شام کو پانچ سو یا ہزار روپے گھر والوں کو خرچہ دو پھر دیکھو آپ کو کتنی عزت ملتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں کو کام دھندے کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت اور بنکوں کی طرف سے کوئی ایسا اقدام یا رعایت نظر نہیں آتی جس سے معذور افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ ہم چاہتے ہیں معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے سٹیٹ بنک ہماری درج ذیل گزارشات کو فوری طور لاگو کروائے۔

1۔ معذور افراد کیلئے بنک میں اکاؤنٹ کھولنے کیلئے نادرا کا شناختی کارڈ ہی کافی ہونا چاہیے۔ گواہ، تنخواہ کی رسید، لمبی چوڑی کاغذی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔
2۔ سٹیٹ بنک تمام بنکوں کو معذور افراد کیلئے قابل رسائی بنانے کی ہدایت جاری کرے۔ تاکہ معذور شخص عزت و وقار کے ساتھ بنک جاسکے۔
3۔ اسی طرح ایم-ٹی-ایم مشینوں کو قابل رسائی بنایا جائے۔
4۔ بنکس معذور افراد کیلئے  زیادہ منافع والی سکیموں کا اعلان کریں۔
5۔ معذور افراد کے انٹرسٹ پر ٹیکس کی کٹوتی نہ کی جائے۔
6۔ معذور افراد کو ریٹرنز فائلنگ کے جھمیلوں کے چکر میں نہ پھنسایا جائے۔
7۔ معذور افراد کیلئے بلا سود اور آسان اقساط پر قرضوں کی سکیم متعارف کروائی جائے۔
8۔ ملک کے ہر بنک کی تمام برانچز میں کم از کم ایک معذور شخص کو ملازمت دی جائے۔
9۔ تمام بنکس معذور افراد کیلئے انٹرن شپس پروگرام کا انعقاد کریں۔ تاکہ معذور افراد کو عملی زندگی کا تجربہ مل سکے۔
10۔ معذور افراد کی بائیو میٹرک، دستخط میں فرق وغیرہ جیسے چھوٹے موٹے کاموں کیلئے انہیں بنک بلانے کے بجائے۔ ایمیل، وٹس ایپ میسج یا بنک کا عملہ خود جا کر معلومات حاصل کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جن گھرانوں میں معذور بچہ پیدا ہو جاتا ہے ان گھرانوں کے اخراجات عام گھرانوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ بنکوں کی موجودہ پالیسیز کی وجہ سے خصوصی افراد معاشی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بن پا رہے۔ جسکی وجہ سے معذور افراد خاندان اور معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہونکہ خصوصی افراد کو پروڈکٹو شہری بنانے اور معیشت پر انکی وجہ سے پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کیلئے ہمارے بیان کردہ نقاط پر عمل کرنا ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply