خیر کا منبع و مرکز وہی ذاتِ ذوالجلال ہے جو بلاشرکتِ غیرے کائنات و مافہیا کی خالق بھی ہے، اور بدیع بھی! خالق ہونا حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں ہو سکتا ہے لیکن بدیع ہونا ایک ایسی صفت ہے جو مجازی طور پر بھی کسی مخلوق سے منسوب نہیں ہو سکتی۔ خالقیت و صناّعیت میں پہلے سے موجود اشیا سے مدد لی جاتی ہے لیکن بدیع ہونا وہ صفتِ خلاقیت ہے جس میں کسی پہلی نظیر سے بھی پہلے، اور پہلے سے خلق ہوئی کسی شے کی مدد لیے بغیر خلق کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العالمین بدیع السمٰوات والارض ہے۔
وہ خیر کا خالق ہے اور خیر کو پسند کرتا ہے۔ نیکی کی طرف دعوت بھی وہی دیتا ہے، نیکی کے کام بجا لانے کی ہمت اور توفیق بھی وہی دیتا ہے اور پھر اپنی پسندیدگی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی جزا بھی وہ خود ہی دیتا ہے۔ روزے کا حکم اسی کا ہے، روزہ رکھنے کی ہمت اور توفیق وہی عنایت کرتا ہے اور پھر روزہ رکھنے کی جزا بھی وہ خود دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلان کرتا ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔ سبحان اللہ! انعام اپنی جگہ مقدم، لیکن منعم کی ذات بطور انعام اگر معیت میں ملے تو کیا کہنے!
وہ خیر اور شر دونوں کا خالق ہے لیکن شر کو اس کی پسندیدگی کا کوئی درجہ حاصل نہیں۔ شر کا خالق کوئی اور نہیں۔ توحید کے باب میں ثنویت کی کوئی جا نہیں۔ یزداں اور اہرمن کی تقسیم یہاں روا نہیں۔ وہ ذات، واحد ہی نہیں بلکہ احد ہے۔ خیر اور شر کی تخلیق اور تقسیم کو سمجھانے کے لیے انبیاء کو مبعوث کیا گیا۔ وہ قومیں جو رسالت سے منحرف ہوئیں، یہ ان کی فکری مجبوری بن گئی کہ وہ خیر اور شر کے مظاہر دیکھ کر ان کے لیے الگ الگ خالق تجویز کریں۔ خیر اور شر کو دو خالقوں میں تقسیم کرنے کے بعد انسان کی قوتِ ارادہ بھی موقوف ہو جاتی ہے۔ اگر خیر اور شر کو الگ الگ خالقوں کے حوالے کر دیا جائے …… تو پھر انسان کی اس کائنات میں کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ خیر اور شر کی داستان بس دیوتاؤں کی باہمی جنگ کا ایک نہ ختم سیزن بن جاتا ہے۔ کسی ایک فکری سقم کو دور کرنے کے لیے دیومالائی داستانوں کی ایک طلسمِ ہو شربا لکھنا پڑتی ہے۔ وحدت کی یہ تقسیم پھر یزداں اور اہرمن تک محدود کیوں رہے؟ یہ تقسیم آسمانوں پر دیوتاؤں کا ایک پورا خاندان تخلیق کرے گی …… اور زمین پر انسانوں کو دیوتاؤں کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی بنا کر رکھ دے گی۔ انسان کی قوتِ ارادہ مفقود و معدوم ہو جائے گی۔ جزا و سزا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا تصور ہی موہوم ہو جائے گا۔ یہ ایک فکری عذاب ہے، انبیا کی الوہی تعلیم سے انکار کرنے کا۔ کفر کسی رسول کا انکار کرنے پر وارد ہوتا ہے …… اور شرک رسالت کی مکمل فیکلٹی کا انکار کرنے کی فکری سزا ہے۔
ربِ کائنات نے انسانوں سے مکالمہ صرف اہلِ خیر کی معرفت کیا ہے۔ تاریخ میں اب تک اہلِ خیر ہی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ رب العالمین کی طرف انسانیت کے لیے ایک پیغامِ فوز و فلاح لے کر آئے ہیں۔ خیر کے خالق نے خیر اور اہلِ خیر کو اپنے ساتھ نسبت کا شرف دیا ہے۔ اس نے شر کا خالق ہونے کے باوجود شر کو خود سے منسوب نہیں کیا۔ خیر اور اہلِ خیر کے مقابل میں آنے والے فرعون، قارون، ہامان اور اس کے فکری قبیلے نے کسی رب کا اقرار نہیں کیا، کسی اعلیٰ ذات سے خود کو منسوب نہیں کیا، بلکہ خود ہی کو رب کے طور پر پیش کیا ہے۔ فرعون کا عوام سے خطاب ”انا ربکم الاعلیٰ“ تھا۔ حضرت موسیٰؑ دیگر انبیائے کرام کی سنت میں ”سبحان ربی الاعلیٰ“ سناتے اور سکھاتے رہے۔
اس طرح خیر اور شر کے باب میں ہمیں دو الگ نوعیت کے طرزِ فکر ملتے ہیں۔ ایک طرف اصحابِ خیر ہیں، جن کی سربراہی انبیا، اولیا و اصفیا کر تے ہیں۔ دوسری طرف اصحابِ شر ہیں، جو کسی انسان کو اس قابل نہیں مانتے کہ وہ ان کی فکری اور عملی اصلاح کر سکے۔ وہ بزعمِ خویش خود ہی اپنے راہنما ہیں۔ ان خود ساختہ رہنماؤں کا رخ اپنے ہی نفس کی طرف ہوتا ہے۔ یہ اپنے نفس ہی کو خود کفیل پاتے ہیں اور ”انا ربکم الاعلیٰ“ کا اعلان کر دیتے ہیں۔ در آن حالے کہ نفس اپنی اصل تعریف میں بُرائی کی طرف دعوت دینے والا ہوتا ہے۔ اسے نفسِ امّارہ بتایا گیا ہے …… مگر یہ کہ جس پر اس کے رب کا رحم ہو جائے۔ حضرت یوسفؑ ایسے معصوم نبی نے بھی اَز روئے قرآن نفس سے برأت طلب کی، اپنے رب کی برہان سے مدد لی اور اپنے رب کے رحم کے طالب ٹھہرے۔
خیر کے طالبین کو انسان کے قریب پایا گیا، غرورِ نفس سے دور پایا گیا اور انہیں تکریمِ انسان میں مصروف و مشغول پایا گیا۔ یہاں مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک فقرہ یاد آتا ہے۔ ایک مضمون ”تقربِ الٰہی“ میں لکھتے ہیں: ”کہیں انسان کا قرب ہی تقربِ الٰہی نہ ہو“۔
قرآن مجید میں صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعا تعلیم کی گئی اور ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے دوران میں ربِ العالمین کی حمد و ثنا کے بعد یہی دعا مانگتا ہے کہ اے رب العالمین! مجھے صراطِ مستقیم (سیدھا راستہ) دکھا …… اور پھر فوراً ہی اس راستے کا تعین بھی کر دیا جاتا ہے۔ ”ان لوگوں کا راستہ جو انعام یافتگان ہیں“۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نعمت یافتہ ہونے اور انعام یافتہ ہونے میں فرق ہے۔ جن کے حق میں انعام کی یہ دعا قبول ہو جاتی ہے، ان کے لیے اس راستے پر چلنے کے لیے ایک عملی راستہ بھی تجویز کر دیا گیا۔ انہیں ہدایت کی گئی: ”کونو مع الصادقین“ (صادقین کے ساتھ ہو جاؤ)۔ انعام یافتہ بھی انسان ہیں اور صادقین بھی انسان ہیں۔ انسان سے اعراض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کے انعام سے بھی محروم کر لیا ہے اور معیارِ صداقت سے بھی دور کر لیا ہے۔ اب خیر اور شر کے باب میں اس کا نفس ہی کوئی فیصلہ کر رہا ہے۔ نفس ہمیشہ مبنی بر ظلم ہی فیصلہ کرتا ہے …… ”الاّ ما رحم ربّی“ مگر وہ جس پر میرا رب رحم کر دے۔
اپنے نفس کو ظلم کی قید سے آزاد کیے بغیر، خیر اور شر آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ انسان خیر کا بینر لگا کر شر کی پنیری لگا رہا ہوتا ہے۔ وہ خیر کے نام خیرات وصول کر تا ہے اور اسے حق داروں میں تقسیم کرنے کے بجائے خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس طرح وہ خیر کے نام پر لوگوں کو خیر اور اہلِ خیر سے بدظن کرتا رہتا ہے۔
خیر کے راستے پر چلنے والا ایک خاص پروٹوکول پر چلتا ہے …… اور وہ پروٹوکول ہے، خود کی نفی ہے۔ خدا تو نظر نہیں آتا۔ اس لیے خدا کے نام پر جھکنے سے لازم نہیں کہ انسان کی انا بھی جھک جائے۔ انسانی انا کو جھکانے کے لیے انسان ہی درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے رسالتؐ کے انکار پر کفر لازم آتا ہے …… رسول انسان ہیں۔ توحید کا اقرار صرف آدھا کلمہ ہے۔ رسالتؐ کی تصدیق کلمے کو مکمل کرتی ہے۔ انسان کے نفس کو تزکیہ کے مراحل سے گزارنے کے لیے انسان درکار ہوتا ہے۔ انسان کی محبت ہی اسے اس کے نفس کے شر سے بچاتی ہے۔ انسان کے دل سے اگر انسان کی محبت نکل جائے تو اس کا وجود اپنے قوائے ذہنی سمیت، شر کی قوتوں کی ایک آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس کے دل سے اخلاقی اقدار رخصت ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے انسانوں کو روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔
خیر کو سمجھنے کے لیے، خیر کے راستے پر چلنے کے لیے اور خیر کے راستے پر استقامت اختیار کرنے کے لیے انسان کو انسان ہی کی معیت و معاونت درکار ہے۔ اہلِ خیر وہ انسان ہیں جو خود سے خود کو نکال چکے ہیں۔ خود کو خود سے نکال دیا تو ہی منشائے خداوندی کا ادراک ہوتا ہے …… تو ہی پیغامِ خدا منشائے خداوندی کے مطابق انسانوں تک پہنچ پاتا ہے۔ خیر کے کاموں میں انسانی نفس کی آمیزش خیر اور شر کے درمیان حدِ فاصل کو دھندلا دیتی ہے۔
خیر اور شر میں فرق قائم کرنے کے لیے جس فرقان کی ضرورت ہے، وہ بصورتِ انسانِ کاملؐ موجود ہے …… اسی نے شہرِ علمؐ بسایا …… اور اس شہر میں ایک در بھی رکھا …… اور در کھلا رکھا …… تاکہ باادب انسان قافلہ در قافلہ اس شہر میں داخل ہو سکیں اور نوعِ انسانی کے لیے فوز و فلاح کے ابواب کھلتے رہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں