جینے کی آرزو/پروفیسر رفعت مظہر

نفرتوں کے دہکتے الاؤ، افراتفری کا یہ عالم کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں، رَہبروں کا روپ دھارے رہزن، مفلس کا رزق اشرافیہ کے جبڑوں میں، مہنگائی کا عفریت ہر کہ ومہ کو نگلنے کے لیے تیار، عدل کی ایسی فراوانی کہ خود عادل بھی پشیمان اور تہذیب ومعاشرت میں کثافت ہی کثافت۔ یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان۔ ایسے میں بھلا اُمید کی کرنیں کیسے پھوٹیں اور کہاں سے پھوٹیں۔

ہم تو ہلکے پھُلکے اور مزاحیہ کالم لکھتے تھے لیکن حالات پڑے یوں کہ ہمارے قلم کی حسِ مزاح بھی دَم توڑ گئی۔ جُگت بازی اور پھکڑپَن کو ہم نے کبھی مزاح کا درجہ دیا نہ دینے کی تمنااور خالص مزاح کے حالات نہیں اِسی لیے اب کوشش کے باوجود بھی مزاح نہیں لکھ سکتی کہ

ہم راہرو سمجھ کے جسے پوجتے رہے
اُس نے ہماری راہ میں کانٹے بچھائے ہیں
کانٹوں سے دل لگائیں ناں اب ہم تو کیا کریں
پھولوں کی آرزو میں بڑے زخم کھائے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

اب ذرا ”جَگ بیتی“ بھی سُن لیں جس کی صورت ”پنبہ کجا کجا نہم“ کے مصداق۔ ہم نے ایک دن طے کیا کہ کوئی نہ کوئی دِل خوش کُن خبر ڈھونڈ کے ہی دَم لیں گے۔ ایسی بہارآفریں خبر جس سے دل ودماغ معطر ہوجائیں۔ سب سے پہلے ہم نے اپنے لائقِ صداحترام سیاستدانوں پر نظر دوڑائی کہ قوم کی باگ ڈور اُنہی کے ہاتھ میں لیکن سوائے مایوسیوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ دین کا تقاضہ یہی اور آئینِ پاکستان کا دیباچہ بھی یہی کہ حاکمیتِ اعلیٰ رَبِ ذوالجلال کے ہاتھ میں اور انسان کے پاس اُس کی عطاکردہ نیابت مگر یہاں معاملہ یہ کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار آتاہے اُسی میں فرعونیت دَر آتی ہے۔ اِسی لیے ارضِ وطن میں چھوٹے بڑے فرعونوں کی کمی نہیں۔ ہماری ہر سیاسی جماعت الیکٹیبلز کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ اِن جیتنے والے گھوڑوں کے لیے سیاسی جماعتوں کے دَر وا اور دیدہ ودِل فرشِ راہ۔ الیکٹیبلز نامی یہ مخلوق وہی ہے جسے ملک سے غرض نہ قوم سے البتہ پیٹ سے۔ چڑھتے سورج کی پجاری اِس مخلوق کے ہاں غیرت نامی کسی چڑیاکا وجود تک نہیں۔ جونہی کسی سیاسی جماعت پر زوال کے آثار نظر آتے ہیں یہ مخلوق خزاں کے پتوں کی طرح جھڑنے لگتی ہے۔ اُنگلیوں پہ گِنے چند لوگ اُمیدِبہار میں شجر سے پیوستہ رہتے ہیں باقی سب پھُر۔ آپ تھوڑی سی کوشش کرکے اِن الیکٹیبلز کی
فہرست مرتب کریں اور پھر آپ کے سامنے یہ حیران کُن نتیجہ آئے گا کہ اِن کی سیاسی جماعتیں بدلنے کا سفر ہمیشہ جاری وساری رہتاہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
ہم تحریکِ انصاف کے حوالے سے ہمیشہ عمران خاں کے ناقد رہے اور اب بھی ہیں۔ ہمارے خیال میں اگر عمران خاں اپنے اِس عہد پر قائم رہتے کہ اُن کی جماعت میں صرف ایسے لوگوں کی گنجائش ہے جن کے دامن آلودہ نہیں تو شاید اُنہیں آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ شیروانی کے شوق میں وہ بھی الیکٹیبلز کی دَوڑمیں گُم ہوگئے جس کا جواز اُنہوں نے یہ تراشا کہ اگر حکمران کرپٹ نہ ہو تو پیروکار بھی کرپشن سے توبہ کر لیتے ہیں۔ اِسی لیے پہلے اُنہوں نے کہا کہ اُن کی جماعت میں سبھی پاکدامن ہوں گے، پھر کہا سبھی تونہیں لیکن زیادہ ترکے دامن آلودہ نہیں اور آخر میں یہ فرمادیا کہ آسمان کے فرشتے کہاں سے لاؤں، اِنہی پر گزارا کرنا ہوگا۔ خاں صاحب کے تبدیلی کے نعرے میں دراصل ملک وقوم کی بہتری نہیں، شیروانی کا شوق مضمرتھا۔ یہ شوق تو پورا ہوگیا لیکن مآل سب کے سامنے۔ آج وہ یکاوتنہا اور سبھی نہ صرف ساتھ چھوڑ چکے بلکہ خاں صاحب کے خلاف آگ اُگلتے ہوئے۔ عثمان ڈار نامی خاں کا ٹائیگر جب کسی ٹی وی ٹاک شو میں نمودار ہوتاتھا تو خاں کی مدح میں یوں مگن کہ اُن کے خلاف تنقید کا ایک لفظ بھی گوارا نہیں۔ آج وہی عثمان ڈار عمران خاں کا سب سے بڑا ناقد۔ اُس نے کامران شاہد کے ساتھ انٹرویو میں وہ کون سا الزام ہے جو خاں صاحب پر نہیں دھرا۔ اُس نے کہا ”چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ہیومن شیلڈ کا استعمال کیا، ملک بھر سے زمان پارک کے باہر ورکرز اکٹھے کرکے ذہن سازی کی، جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد اور زمان پارک میں جو کچھ ہوا اُسی ذہن سازی کا نتیجہ تھا“۔ عثمان ڈارنے یہ الزام بھی لگایاکہ 9 مئی کے واقعات کی پلاننگ عمران خاں کی زیرِصدارت زمان پارک میں کی گئی۔ اپنی گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت خود چیئرمین پی ٹی آئی نے دی۔ عثمان ڈارنے یہ بھی کہاکہ اکتوبر 2022ء میں لانگ مارچ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی روکنے کے لیے کیاگیا۔ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے بعد 9 مئی کے حملوں کا مقصد فوج پر دباؤ ڈال کر جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹاناتھا اور عمران خاں نے فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی کی خود قیادت کی۔
اگر عثمان ڈار کے یہ سب الزامات درست ہیں تو پھر عمران خاں کا انجام تو بھیانک ہوگا ہی، عثمان ڈار بھی بری الذمہ قرار نہیں پاتا کیونکہ جب اُس کے سامنے ملک وقوم اور پاک فوج کے خلاف اِس بھیانک سازش کے تانے بانے بُنے جارہے تھے تب وہ خاموش کیوں رہا؟۔ یہ سیدھاسادا بغاوت کا کیس ہے جس پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتاہے جس کی سزا پھانسی یا کم ازکم عمرقید ہے۔ پوری قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اِس نازک معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیق کروائی جائے اور اِس بھیانک سازش میں ملوث کرداروں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔
دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی مل بیٹھ کر ملک وقوم کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں کیونکہ دھرتی ماں کے دَم قدم سے ہی اُمیدوں کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ کہ تحریکِ انصاف کے پارہ پارہ ہونے کے بعد اتحادی جماعتیں، خصوصاََ پیپلزپارٹی اقتدار کی دوڑ میں مگن ہوچکی ہیں۔ محترم آصف زرداری کی ہدایت کے باوجود پیپلزپارٹی کے اکابرین نوازلیگ کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ میاں نوازشریف کی 21 اکتوبر کو پاکستان آمد کنفرم ہے لیکن اِس کے باوجود دُرفطنیاں چھوڑی جارہی ہیں اور اُن کی آمد کو مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔ شاید اِسی وجہ سے میاں صاحب کا یہ بیان سامنے آیاہے کہ 7 اکتوبر اُن کا لندن کے دفتر میں آخری دن ہے جس کے بعد وہ وطن کے لیے عازمِ سفر ہوں گے۔ وہ پہلے لندن سے سعودی عرب جائیں گے پھر یواے ای اور آخر میں پاکستان۔ میاں صاحب کو ملکی حالات کا بخوبی ادراک ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ16 ماہ کی حکومت نے نوازلیگ کی مقبولیت میں بہت ڈنٹ ڈالے ہیں۔ اُنہیں مقبولیت کو اُنہی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی۔حقیقت یہی کہ نوازلیگ کی ڈانواں ڈول کشتی کے پتوار صرف میاں نوازشریف ہی سنبھال کر اُسے کنارے سے لگا سکتے ہیں۔ ہم نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتوں سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ پھر کندھے سے کندھا ملاکر ملک کی بہتری کے ایجنڈے کو ساتھ لے کر نکلیں گی، سیاست بعد میں ہوتی رہے گی۔ یاد رکھیں کہ اگر اِس دَورِابتلاء میں بھی ”اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ“ کے مصداق سیاسی جماعتیں اقتدار کی دوڑمیں مگن رہیں توپھر ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply