مسئلہ غلامی کے مختلف پہلو

ایک صاحب سے ٹی وی اینکر سوال کرتا ہے کہ جس طرح آپ نے کھیم کرن فتح کیا تھا تو اسلامی حکومت اگر ہوتی تو کیا اس علاقے کے سارے مرد غلام اور عورتیں آپ کی لونڈیاں ہوتیں ،،،؟؟
وہ صاحب جوش جذبات میں تقریباً کرسی سے تھوڑا تھوڑا اٹھ کر پھر بیٹھ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اگر اس وقت ایوب خان کی جگہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی حکومت ہوتی تو ضرور کھیم کرن والوں کو لونڈیاں اور غلام بناتی ،،، گویا غلام اور لونڈیاں بنانا ہی ایسا فریضہ تھا کہ جس کے لئے جہاد بھی فرض کیا گیا اور کچھ لوگوں کو اس مقدس فریضے کے لئے پیدا کیا گیا کہ وہ کچھ لوگوں کو غلام بنا لیں ، اور کچھ عورتوں نے ایک خاص نسل اس لئے پیدا کی کہ وہ کچھ عورتوں کو لونڈیاں بنائیں پھر ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح منڈی میں پیش کریں جہاں گاہک ان کے گوشت کا حساب لگا کر قیمت پر بحث مباحثہ کریں اور وہ پاس کھڑی ھو کر اللہ کی شان دیکھا کرے ،
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانوں کو آزاد کرانے آیا ھے ،پورا قرآن مثالوں سے بھرا پڑا ھے کہ ھر گناہ کے بدلے یا اپنی گردن حشر کے دن عذاب سے بچانے کے لئے غلام یا لونڈی آزاد کرنے کو کہا گیا ہے ، جھوٹی قسم جیسا روز مرہ کا گناہ جو ہر مسلمان دن رات کرتا ہے اور جس کی سزا دس مسکینوں کا کھانا یا صرف 3 روزے ہے اس میں بھی غلام آزاد کرنے کا آپشن دیا گیا ھے ،، سورہ البلد میں انسان پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کے عوض کوئی غلام بھی آزاد نہیں کرایا ،،، اور کوئی مذہب انسانوں کی آزادی کی اسلام سے بڑھ کر ترغیب دینے والا نہیں ھے ، جبکہ غلام بنانے کی شرائط صرف اسلام نے طے کی تھیں کہ کن صورتوں میں کن لوگوں کو غلام بنایا جا سکتا ھے ،،

جب واسطہ ایسی سوپر پاورز سے ھو جنکی باقاعدہ Standing Armies تھیں جن کو تنخواہ دی جاتی تھی ، جبکہ اسلامی حکومت کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں تھا اور نہ باقاعدہ فوجیں تھیں جو چھاونیوں میں مقیم ھوں اور ماہانہ مشاھرہ اور سہولیات لیتی ھوں ، اس صورت میں ان کو مالِ غنمیت کا لالچ ھی میدان جنگ میں اتار سکتا تھا ،، جہاد کا اعلان کیا جاتا اور پھر انتطار شروع ھو جاتا کہ کون کون آ کر نام لکھواتا ھے ، مجبور کسی کو بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ،، پھر میدان جنگ میں حاصل ھونے والی متاع کو چاھے وہ زندہ ھو یا Dead Stuff اس کو ایک امیر کے تحت جمع کرنا اور پھر ریاست کا فیصلہ کرنا کہ مبادلہ کن قیدیوں کا کرنا ھے ،، فدیہ لے کر کن کو چھوڑنا ھے ،، دلوں میں نرمی پیدا کرنے کے لئے کن کو چھوڑنا ھے ، اور باقی بچنے والوں کو مجبوراً کچھ گھروں میں معلوم شرائط کے ساتھ منتقل کرنا کہ وہ بھیڑوں کے باڑوں میں حیوانوں کی طرح رھنے کی بجائے بہترین گھروں میں رہ کر دین بھی سیکھیں اور وھی کھائیں جو ان کا مالک کھاتا ھے اور وھیں سوئیں جہاں ان کا مالک سوتا ھے ،، آپس میں شادیاں کر لیں یوں جنسی ضرورت کا اھتمام کیا گیا یہی لوگ مسلمان ھوئے اور آنے والے وقتوں میں پوری اسلامی دنیا کے حکمران بھی بنے ،،

غلامی اسلام نے ایجاد نہیں کی اور نہ فرض کی ھے بلکہ غلام بنانا اس وقت کی مجبوری تھی کیونکہ مخالف یہی طریقہ استعمال کرتے تھے ،، اسلام نے دوسروں کو بھی تو نہیں روکا تھا کہ تم مسلمانوں کو غلام اور لونڈیاں مت بناؤ ، جو میدان جنگ میں غالب آتا تھا وہ یہی کام کرتا تھا ، کافر بغیر کسی نظام کے کرتے تھے ، اسلام نے رولز اینڈ ریگولیشنز بنا کر اس کو منظم کیا ،، اگر آپ آج بھی مسلمانوں کو یہ حق دیتے ھیں تو پھر آپ کو کافروں کا یہ حق بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ جہاں غالب آئے آپکی بہو بیٹیوں کو اٹھا لے جائے ،، جیسا کہ بوکو حرام عیسائی لڑکیوں کو کالجز اور یونیورسٹیوں سے اٹھا کر بیچ رھی ھے اور آپ ان کی تائید کرتے ھیں ، پھر عافیہ صدیقی کے لئے کوئی لبرل گروپ جلوس نکالے تو نکالے ، کسی دینی جماعت کو تو جلوس نہیں نکالنے چاہیں ، اور نہ ھی غلامی کے حامیوں کو عافیہ کے نام پر قوم کو بھڑکانا چاھئے ،، شکر کریں امریکہ کا قانون اس کو بیچنے کی اجازت نہیں دیتا – ورنہ وہ روز کسی فٹ پاتھ پہ نیلامی کے لئے کھڑی کر دی جاتی ،،

اب جب کہ ساری دنیا غلامی کے ترک پر متفق ھو گئ ھے تو اسلام بھی اس کی پابندی کرے گا ، اور اگر 1965 میں عمر فاروقؓ کی حکومت بھی ھوتی تب بھی انسانوں کو غلام نہ بناتی ، ھم دنیا کو عمر فاروقؓ کا وہ قول یاد دلائیں گے کہ جب ماؤں نے انسانوں کو آزاد جنا ھے تو تمہیں ان کو غلام بنانے کی اجازت کس نے دی ھے ،،
یہ اسی طرح ھے جیسے اس زمانے میں ممالک کی سرحدیں نہیں ھوتی تھیں لہذا لوگ بغیر پاسپورٹ ادھر سے ادھر آیا جایا کرتے تھے ، اب جبکہ ھر ملک کی سرحد کا تعین ھو گیا ھے اور ممالک ضروری کاغذات کے ذریعے ھی ایک دوسرے کے ملک میں آ جا سکتے ھیں تو ھم یہ کہیں کہ آج اگر فاروقؓ کی حکومت ھوتی تو ھم انڈیا کا ویزہ لئے بغیر انڈیا جایا کرتے یا امریکہ جایا کرتے ،،

اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ھے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رھی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ھڈی بنی ھوئی تھی !
جس طرح تیل کی پیداوار کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ھیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ھرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ھیں ،،
اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ھیں ،،
اصل سوال یہ بنتا ھے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟

اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ھو کر ختم ھو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا ؟؟؟

اسلام اگر آتے ھی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ھر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ھزاروں قاتل فراھم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ھوتا کیونکہ قبائل ان کو بھرتی کر کے ایک دوسرے کے یہاں غارت گری کرتے ،جس طرح جہادی تنظیمیں جہاد کا سوئچ آف کر دیئے جانے کے بعد بیروزگاری کے عالم میں پلاٹوں پر قبضے کرنے اور چھڑانے کے لئے کرائے کی سروس مہیا کرتی ھیں ،، نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ھوئی نہیں تھی لہذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ھو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ھیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے،، جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ھیں،،وھاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ھی منڈلاتے رھتے ھیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ھے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ھیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !
اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا ! جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،، روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا، اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،، اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !
اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !
مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا ! نیز لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !
ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،، جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !
جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !
جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !
اسلامی حکمتِ عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،
اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !
البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کودوبارہ زندہ کرنا چاھتا ھے !
لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔ اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریــرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں ،،
گویا لونڈی آدھی بیوی اس وجہ سے ھوتی ھے کہ اس کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر ھوتا ھے ، جونہی وہ آزاد ھوتی ھے تو اسے اختیار مل جاتا ھے کہ وہ اپنی رضامندی سے اس کو جاری بھی رکھ سکتی ھے اور اس نکاح کو توڑ بھی سکتی ھے ،، مگر اس آدھے نکاح سے پیدا ھونے والا بیٹا فل اسکیل بیٹا ھوتا ھے ،اب اس کی ماں کو نہ بیچا جا سکتا ھے نہ الگ کیا جا سکتا ھے اور وہ فل بیوی کے بچوں کی طرح برابر باپ کی جائداد میں وارث ھوتا ھے ،،
رہ گئ جنسی ضرورت کے وقت مرضی پوچھنے کی بات تو کیا کبھی کسی نے اپنی بیوی کو بھی جنسی عمل کے وقت پکے اسٹام پر درخواست لکھ کر دی ھے جو لونڈی سے جنسی زیادتی ھو گئ تھی ؟ کچھ چیزیں ھم نے خواہ مخواہ ھوۜا بنا رکھی ھیں اور خود ھی ان کو مکروہ قرار دے کر ان پر حکم لگاتے رھتے ھیں،، غیر مسلم لونڈی کی بات کرنے والے اسلامی دور کی ایک غیر مسلم لونڈی کا نام بتا دیں،، لونڈیاں نہ صرف مسلمان ھو کر مسلم معاشرے کا حصہ بن جاتی تھیں بلکہ علم حاصل کر کے بڑی بڑی علمی ھستیاں قرار پائی ھیں،، حضرت بریرہؓ اموی خلفاء کی استاد تھیں وہ دو زانو ھو کر ان سے حدیث سنا کرتے تھے اور وہ ان کی بچوں کی طرح نصیحت کیا کرتی تھی ! عبدالملک کو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے لگتا ھے اللہ تمہیں حاکم بنائے گا لہذا رعایا کے بارے میں اللہ سے ڈرنا ! اس کے علاوہ کئ عباسی خلفاء لونڈی کی اولاد تھے اور خیزران بھی لونڈی تھی ھارون الرشید جس کا بیٹا تھا امام اوزاعی نے اس خاتون کو حدیث کی تعلیم دی تھی اور یہ ھارون و مامون کے زمانے میں بادشاھی کرتی رھی ھے !
اب رہ گیا چھ کلمے پڑھ کر بیوی بنانا تو یہ رواج صرف ھندوستان میں ھے شریعت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھے،،شرعی نکاح وھی ھے جو حضرت شعیب علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کے ساتھ اپنی بیٹی کا کیا تھا،،یہ میری بیٹی ھے آٹھ سال میری بکریاں چرا اور یہ آج سے تیری ھے
لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں ،،
تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ! اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول کے خونی ٹرانس سے ایک دفعہ نکل آئے ! یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ، اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ،، یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے،، یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے ،،
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ، اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا ،،

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ پاک نے ھر وہ برائی حرام کر دی جو اسلام کا اندرونی معاملہ تھا ،،،، جس میں شراب ،جؤا ، زنا ، وغیرہ سب شامل ھے ،،،،،،،،،،،،
غلامی اسلام کا داخلی مسئلہ کبھی تھا بھی نہیں اور نہ غلام بناؤ کا کوئی حکم دیا گیا ھے ،،،،،،،،،، البتہ قیدی بنانے کا حکم دیا گیا ھے ،اور لفظ اسیر قرآن حکیم میں بار بار استعمال ھوا ھے ،،
غلامی دو طرفہ معاملہ تھا ، اگر اسلام کے حرام کرنے سے فریقِ مخالف بھی اس کو حرام سمجھ لیتا تو اللہ ایک دن بھی نہ لگاتا اس کو حرام کرنے میں ،،،،،،،،،
اگر مسلمانوں پہ یکطرفہ طور پہ حرام کر دیا جاتا اور باقی ساری دنیا کے لئے حلال رھتا تو کافروں کی موج ھو جاتی اور وہ بٹیروں کی طرح مسلمانوں کا شکار کرتے پھرتے ،، انہیں پتہ ھوتا کہ مسلمانوں پر تو غلام رکھنا حرام کر دیا گیا ھے انہوں نے تو آزاد کرنا ھی کرنا ھے البتہ ھم غلاموں کی تجارت کریں گے یوں منڈیاں مسلمان غلاموں سے بھر جاتیں اللہ پاک بڑا حکیم ھے اس نے ایک طرف تو قسم توڑنے کے کفارے سے لے کر بیوی کو ماں کہنے یا روزہ توڑنے یا قتلِ خطا تک کے لئے غلام کی آزادی ایک شرط کے طور پہ رکھ دی ،، جھنم سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے غلام آزاد کرنے کی تلقین کی ،، لونڈیوں سے شادی کی ترغیب دی ،، مرد غلاموں سے معاہدہ کر کے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا کہ ان کے ساتھ ایک رقم طے کر کے ان کو آزاد کر دو تا کہ وہ کما کر تمہاری طے کردہ رقم تمہیں دے کر آزادی حاصل کر لیں ، اپنی زکوۃ بھی ان کو دینے کی تلقین کی اور صدقے کے طور پر بھی مالی مدد کر کے ان کی رقم جلد از جلد پوری کرنے کی ترغیب دی ،، لونڈی کی اولاد کو آزاد قرار دیا اور والد کا مکمل وارث ،، بنو عباس کے مشہور خلفاء لونڈی کی ھی اولاد تھے ،، جب دنیا نے بھی اس کو حرام قرار دے دیا ھے تو اب اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ اسلام میں بھی حرام قرار پا چکی ھے " اے ایمان والو اپنے معاہدے وفا کرو "( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ) کی شق کے تحت ،، اب ساری دنیا قیدی قیدی کھیلتی ھے جس میں ھم بھی شامل ھیں ،، یہ الگ بات ھے کہ آج کے قیدی کو بھی وہ حقوق حاصل نہیں جو کبھی اسلام نے غلام کو دے رکھے تھے ، چنانچہ اب" {ﺣﺗﯽ إذا أﺛﺧﻧﺗﻣوھم ﻓﺷُدﱡوا اﻟوَﺛـﺎق ﻓﺈﻣﱠﺎ ﻣَﻧّـﺎً ﺑﻌدُ وإﻣﺎ ﻓِداءً} سورہ محمد ﷺ ،، پر ھی عمل ھو گا ، یہی رائے ابن عمرؓ ، عطاء حسن بصری اور فقہاء احناف امام طحاوی کی ھے ، جس کے لئے وہ اس آیت کے ساتھ مختلف احادیث کو بھی حوالے کے طور پر بیان کرتے ھیں
حجاج بن یوسف قیدیوں کے ایک جتھے کو لایا اور ابن عمرؓ کی طرف دھکیل کر کہا کہ ان کو قتل کر دیں ، ابن عمر نے فرمایا کہ " ما اُمِرنا بِھذا ،، بل امرنا ،ﺣﺗﯽ إذا أﺛﺧﻧﺗﻣوھم ﻓﺷُدﱡوا اﻟوَﺛـﺎق ﻓﺈﻣﱠﺎ ﻣَﻧّـﺎً ﺑﻌدُ وإﻣﺎ ﻓِداءً ،
ھمیں اس کام کا حکم نہیں دیا گیا جو تو کروانا چاھتا ھے بلکہ کہا گیا ھے کہ یا تو احسان کر کے ان کو آزاد کر دو ورنہ فدیہ لے کر رھا کر دو ،،

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply