گلگت بلتستان؛ مسلئہ کیا ہے۔۔۔ محمد حسین

گلگت بلتستان کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کا بنیادی سبب عام شہریوں خصوصا سکول کے طلبہ سے لے کر یونیورسٹیوں کے محققین و اساتذہ تک کو علاقے سے متعلق درست معلومات کی فراہمی نہ ہونا ہے کیونکہ آئین پاکستان سمیت کسی بھی سرکاری دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا اس کی آئینی حیثیت کے تناظر میں ذکر کہیں نہیں کیا جاتا نیز قومی پالیسیوں اور ذرائع ابلاغ پر بھی گلگت بلتستان کے، محل وقوع، جعرافیائی اہمیت، رقبہ، آبادی، وسائل و مسائل، اور حقوق اور احوال پر بحث نہیں ہوتی۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ، بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان سے متعلق عوام و و خواص دونوں کی عمومی آگاہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔

جمہوری اقدار اور اخلاقی روایات پر سماج کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر نے کے بجائے ہماری اسٹبلشمنٹ، میڈیا، جمہوریت پسند، ترقی پسند دانشور طبقات بھی زبان کو ہلانے اور قلم کو جنبش دینے کے لیے گولی، گالی، ڈنڈے اور توڑ پھوڑ، منافرت اور تشدد کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے ’’عدم تشدد‘‘ پر مبنی مزاحمتی تحریک پر شاید یقین ہی نہیں رکھتے۔ قومی میڈیا پر ایک طرف مالکان کی کاروباری پالیسی اور دوسری طرف پییمرا کی ریاستی پالیسی اثر انداز ہوتی ہے جس کے تحت کاروباری مفاد یا قومی مفاد کے چکر میں خلق خدا کی آواز نظر انداز ہوتی ہے۔ ویسے تو اس کی مثالیں ہر طرف دیکھی جا سکتی ہیں مگر اس کی ایک تازہ ترین مثال قومی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان میں جاری احتجاج کا کوریج نہ ہونا تھی۔ گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کا کم و بیش منفی ۱۵ سینٹی گریڈ میں جاری احتجاج، کم و بیش تین سو کلومیٹر کے سفر پر مشتمل عوامی لانگ مارچ، تمام دس اضلاع کی شٹر ڈاون ہڑتال سے متعلق جمہوریت پسند دانشوروں، لکھاریوں اور صحافیوں نے بھی ہزاروں عوام اور ان کے احتجاج و مطالبات کو نظر اندازکیے رکھا۔ قومی ذرائع ابلاغ کا اپنے آپ کو متبادل میڈیا قرار دینے والے سوشل ویب سائٹس اور بلاگرز کی خاموشی بھی قابل تعجب رہی۔

جب کسی صورت حال کی ذمہ درانہ رپورٹنگ نہ ہو تو افواہیں جنم لیتی ہیں اور مختلف عناصر اپنی مرضی کی رپورٹنگ کر کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوامی احتجاج پر قومی ذرائع ابلاغ نے توجہ نہیں دی تو بھارتی میڈیا نے اسے ایک خاص رنگ دے کر اچھالنا شروع کیا۔ گلگت بلتستان بھر میں جاری احتجاجی ہڑتال پر ایک دوست کی جانب سے بھارتی سازش کے ممکنہ خدشے سے متعلق استفسار کا جواب ہم نے یوں دیا کہ اگر یہ عوامی احتجاج کسی بیرونی ایجنڈا کی بنیاد پر ہو رہا ہے تو وہ سازشی عناصر آئینی حقوق دیے بغیر ٹیکسوں کے نفاذ کا اعلان کرنے والے وفاق کے حکمران ہی ہیں۔ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والے جی بی عوام نہیں۔

نیز یہ تحریک آج سے نہیں بلکہ دو ہزارہ تیرہ سے شروع ہوئی جب حکومت نے متنازعہ سرحدی علاقے کو بھٹو دور سے حاصل گندم سبسڈی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، پھر حق ملکیت کے لیے احتجاج بھی ہوتا رہا جب ہزاروں ایکڑ اراضی پر مقامی لوگوں کو ان کا معاوضہ دیے بغیرحکومت کی جانب سے قبضہ کیا گیا ، پھر سی پیک منصوبے میں نظر انداز کیے جانے پر شدید احتجاج ہوتا رہا۔ ابھی یہ ٹیکسوں کا معاملہ بھی خود وفاق کی طرف سے شروع ہوا۔ جب لوگوں کے حقوق کا substantial مسئلہ موجود ہو تو اسے حل کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی دشمن عناصر کو وطن عزیز کی سالمیت و استحکام کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ مگر یہ بات بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ہر احتجاج اور ہر مسئلے کو کسی بیرونی سازش کے کھاتے میں ڈال کر کب تک ٹال دیا جاتا رہے گا۔ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے محرومی کے ستر سال تو گزر گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گلگت بلتستان کے بے نیاز و خود دار عوام نے سڑکوں پر سردیاں سہہ کر اور کھلے آسمان مشقتیں جھیل کر اپنے مطالبات تسلیم کروا لیے۔ جس پر گلگت بلتستان کے غیور، بیدار، متحرک، حریت پسند اور خود دار عوام کو بہت مبارک ہو۔ “عدم تشدد پر مبنی مزاحمت” یعنی گولی، گالی اور ڈنڈے کے بغیر عوامی تحریک کیسے چلانی ہے گلگت بلتستان کے پُرامن، متحرک اور متحد عوام نے اس حوالے سے بہترین مثال قائم کر دی۔ انشاء اللہ علاقے کو مکمل داخلی خود مختاری ملنے تک عوام اسی جذبے سے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply