• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بیگم رعنا لیاقت؛ اک گمشدہ یاد۔۔۔ خالد حسن/مترجم لیاقت علی

بیگم رعنا لیاقت؛ اک گمشدہ یاد۔۔۔ خالد حسن/مترجم لیاقت علی

پاکستان کے سرکاری مورخین نے قیام پاکستان اور اس کے ابتدائی سالوں کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے جس شخصیت کو بہت زیادہ نظر انداز کیا ہے وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان جنھیں اکتوبر 1951میں راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں قتل کردیا گیا تھا،کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ہیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کی نجی اور پاکستان کی پہلی خاتون اول کے طور پر ان کی سیاسی اور سماجی زندگی کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو نظر انداز کرنے کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ بیگم رعنا مس فاطمہ جناح کی ناپسندیدہ شخصیت تھیں اور دونوں خواتین کے مابین باہمی تضاد، تناو اور مناقشت کے واقعات ان کی اپنی زندگیوں ہی میں سیاسی اور سماجی حلقوں میں گفتگو اور گپ شپ کا موضوع ہوا کرتے تھے۔فاطمہ جناح چونکہ بانی پاکستان کی بہن ہونے کے ناتے پاکستان کے حکمران حلقوں اور ملکی سیاست میں اہم مقام کی حامل تھیں اس لئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے والے سرکاری مورخین بیگم رعناکے بارے میں لکھتے اور بات کرنے سے گریز اں رہتے تھے۔
ابھی حال ہی میں ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جس نے بیگم رعناکی سیاست اور شخصیت کے بارے میں موجود اس کمی کوبہت حد تک پورا کردیاہے۔بیگم رعنا لیاقت علی خان کی شخصیت کے بارے میں اس کتاب میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں اور جوواقعات ڈاکومنٹ کیے گئے وہ بہت سے پاکستانیوں کے لیے یقیناًدلچسپی اور بعض صورتوں میں حیرانی کا باعث ہوں گے۔
A Portrait of Raan aLiaquat Ali Khan Begum: کے عنوان سے اس کتاب کو نمیتا گھوکھلے اور تہمینہ عزیز ایوب نے مشترکہ طور پر لکھا اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔
13۔فروری 1905کو ایک برہمن خاندان کے ہاں اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو میں پیدا ہونے والی بیگم رعنا لیاقت علی خان کا پیدائش کے وقت نام آیرین روتھ مارگریٹ رکھا گیا تھا۔ ان کی پیدائش سے بہت پہلے ان کے خاندان کے سربراہ اور ان کے دادا تارا دت پنت ہندو ازم ترک کرکے مسیحیت قبول کرچکے تھے۔ مذہب تبدیلی کا یہ فیصلہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے لیے زندگی بھر ایک چیلنج بنا رہا تھا۔ ہندو مت میں برہمن جیسی اعلیٰ جاتی سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا مذہب تبدیل کرنا ان دنوں انتہائی ناپسندیدہ فعل خیال کیا جاتا اور اسے گوناگوں سماجی مشکلا ت و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آیرین روتھ مارگریٹ کو بچپن ہی سے ان مسائل و مشکلات کا احساس تھا اور وہ ان سے نبٹنے کا حوصلہ رکھتی تھیں۔ انھوں نے اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو نہ صرف عبورکیا بلکہ تعلیمی،سیاسی اور سماجی میدانوں میں اپنی شاندار خدمات کی بدولت اپنی انفرادیت کا لوہا بھی منوایا۔
برہمن پس منظر سے لا تعلق آیرین روتھ مارگریٹ فکری اور عملی طور پر ایک آزاد و خود مختار شخصیت کی حامل تھیں۔ وہ زندگی کی جدو جہد میں پیش آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے جذبوں سے سرشار تھیں۔ ان کی ذہنی نشو ونما اور تعلیم و تربیت روشن خیال اور روادار اور برداشت کے ماحول میں ہوئی تھی۔مذہبی اور سماجی تفریق کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت و حیثیت نہیں تھی۔
حسین و جمیل رعنا نے ابتدائی تعلیم لکھنو کے لا ل باغ سکو ل میں حاصل کی تھی۔سکول میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے بعد رعنا لکھنو کے جس کالج میں داخل ہوئیں وہ فکری اور علمی آزادی کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ کالج میں رعنا کو عصمت چغتائی، قراۃ العین حیدر، ڈاکٹر رشید جہاں اور عطیہ حسین جیسی خواتین کی صحبت میسر آئی جنھوں نے ہندوستان میں فکری آزادی اور روشن خیالی کے حوالے سے بہت نام کمایا۔ فرسٹ ڈویژن میں بی۔اے پاس کرنے کے بعد رعنا نے ا یم۔اے اکنامکس کے لیے میں لکھنو یونیورسٹی میں یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ایم۔اے اکنامکس میں انھوں نے اتر پردیش میں ’کھیت مزدور عورتوں کے حالات کار‘ پر اپنا مقالہ لکھا جسے پوری یونیورسٹی میں بہترین مقالہ قراردیا گیا تھا۔ انھوں نے ایم۔اے’آنرز‘ گریڈ میں پاس کیا اور گریجوایٹ ٹیچرز ٹریننگ کورس کے لیے کلکتہ ڈایسس کالج میں داخل ہو گئیں۔ یہاں بھی وہ کلکتہ یونیورسٹی کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1930 میں وہ دہلی کے اندرپرشتا کالج میں 200 روپے ماہانہ پر جو ان دنوں بہت بڑی تنخواہ تھی پر اکنامکس کی لیکچرر مقرر ہو گئی تھیں۔ انہی دنوں وہ کرنال سے تعلق رکھنے والے سیاست دان لیاقت علی خان کے قریب ہوئیں۔ لیاقت علی خان ان دنوں یو۔پی قانون ساز اسمبلی کے نائب صدرتھے۔ لیاقت علی خان بھی رعنا کی خوبصورتی، تعلیم اور حس مزاح سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 1930 میں لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے قبل انھوں نے اسلام قبول کیا اور وہ آیرین سے رعنا ہوگئیں۔
1947 میں قیام پاکستان کے وقت لیاقت علی خان اور رعنا نے ہارڈنگ روڈ دہلی پر واقع اپنا عالی شان گھر گلفشاں فروخت کرنے کی بجائے (یاد رہے کہ جناح دہلی میں اپنا گھر فروخت کرکے پاکستان تشریف لائے تھے)حکومت پاکستان کو عطیہ کردیا تھا۔ بھارت میں پاکستانی سفارت خانہ آج تک اسی گھر میں واقع ہے اور آج کل یہ پاکستان ہاوس کہلاتا ہے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد جناح نے جو موقف اختیا رکیا وہ لیاقت علی خان کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ جناح نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں جس ریاستی ویژن کا عندیہ تھا وہ لیاقت علی خان کے تصور پاکستان سے متصادم تھا۔ یو۔پی کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لیا قت علی خان کا تصور پاکستان اور اسلام اشرافیائی تھا اور جناح کے سیکولر تصور ریاست سے وہ خود کوہم آہنگ کرنے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔ انھیں جنا ح کی شخصیت کا تجربہ بطور سیاست دان اورصدر آل انڈیا مسلم لیگ کے طورپر تھا لیکن بطور گورنر جنرل وہ جناح سے خوش نہیں تھے۔ خود جناح بھی انھیں ان کے مقام اور مرتبے کے مطابق اہمیت دینے سے انکاری تھے۔ گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے باہمی تعلقات میں موجود آویزش کے اثرات بیگم رعنا لیاقت علی خان کے کیریئر پر بھی مرتب ہوئے اور فاطمہ جناح نے انھیں کارنر کرنے اور ان کی بطور خاتون اول حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اکتوبر1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد رعنا لیاقت خان نے خود کو سماجی کاموں کے وقف کردیا تھا۔انھوں نے آل پاکستان ویمن ایسوی ایشن (اپواٰ کے عنوان سے عورتوں کی تنظیم قائم کی جو آج بھی ایک متحرک سماجی تنظیم ہے جس کے زیر اہتمام عورتوں کے لیے تعلیمی ادارے چل رہے ہیں اور عورتوں کی ایمپاورٹمنٹ کے حوالے سے اپوا کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان کو 1954 میں ہا لینڈ میں پاکستان کا پہلا سفیر مقرر کیا گیا جہاں انھوں نے یہ سفارتی ذمہ داری چھ سال تک نبھائی۔ بعد ازاں انھیں اٹلی میں سفیر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ سفارتی ذمہ داریوں کو کامیابی سے نبھانے کے بعد جب وہ1973 میں پاکستان واپس لوٹیں تو بھٹو نے انھیں سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ انھیں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا بین الاقوامی ایوارڈ بھی دیا تھا۔
1980 میں بیرون سفر کے دوران وہ گر پڑیں اور ان کے کولہے کی ہڈی فریکچر ہوگئی جس کے بعد ان کی صحت پھر کبھی بحال نہ ہوسکی۔ ان کی بیماری کے دوران جنرل ضیا نے ان کا2000 روپے ماہانہ سرکاری وظیفہ بند کردیا تھا۔
1990 میں اپنی وفات سے قبل انھوں نے پاکستان بارے جو کہا تھا وہ آج بھی بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا ’پہلے پہل نظریہ پاکستان کو جس  طرح بیان کیا گیا تھا وہ اُس سے بہت مختلف تھا جوآج ہم دیکھ، سن اور پڑھ رہے ہیں۔ مذہب اور سیاست کے باہمی اختلاط کا کوئی سوال نہیں تھا۔ ہر شخص کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کی آزادی تھی اور کسی کو اس میں مداخلت اور دخل اندازی کی اجازت نہیں تھی۔یہ آپ کا اور آپ کے خدا کا معاملہ تھا۔ہم کبھی مذہب (سیاست کی حد تک) کی بات نہیں کرتے تھے۔ہم میں شیعہ بھی شامل تھے اور سنی بھی ہم رکاب تھے۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کون کیا ہے(مذہبی حوالے سے)۔ہم سب متحد ہوکر کام کررہے تھے۔ قائد اعظم نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اگرچہ مذہب تھی لیکن وہ پاکستان کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے خواہاں تھے‘۔
1950 میں جب وہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ہمراہ امریکہ کے دورے پر گئیں تو انھوں نے نیو یارک کے ٹاون ہال میں بالوضاحت یہ کہا تھا کہ ’ہم پاکستان میں پیشوائیت، (مذہبی) انتہا پسندی یا عدم برداشت کو غلبہ حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ہم برابری، بھائی چارے، سماجی اور معاشی انصاف کے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی خواہش و عزم رکھتے ہیں‘۔
لیکن یہ حقیت بہت افسوس ناک ہے کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان غلط ثابت ہوگئی ہیں۔ پاکستان مذہبی انتہاپسندی،فرقہ پرستی، عدم برداشت اور مذہبی اقلتیوں سے امتیازی سلوک کی اس راہ پر چل پڑا ہے جس سے وہ اسے بچانے کا عزم و جذبہ رکھتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ۔یہ پوسٹ چند معمولی ترامیم کے ساتھ خالد احمد کے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply