اسلام میں عورت کا حقِ ملکیت۔۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اسلام کے جن پہلوؤں پر اس کے مخالفین نے زبردست اعتراضات کیے ہیں اور انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان میں سے ایک حقوق نسواں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے، اسے کھلی فضا میں سانس لینے کی آزادی نہیں دی ہے، اسے گھر کی چہار دیواری میں قید کر کے رکھا ہے، وہ شوہر کی دست نگر اور اس کی مرضی کی پابند ہے، نہ اس کا اپنا وجود ہے نہ اس کی اپنی مستقل شخصیت وغیرہ۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ اعتراضات کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے یہاں عورت صدیوں تک ہر طرح کے ظلم و ستم کا شکار اور ہر قسم کے حق سے محروم رہی، جن کے نزدیک اس کی حیثیت محض ایک سامان کی تھی، جسے مرد حسب خواہش استعمال کرتا ہے اور جب جی بھر جاتا ہے تو اسے ردی کاغذ کی طرح پھینک کوڑے دان میں دیتا ہے۔ اس کے بر عکس اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اورجن حقوق سے نوازا ہے، وہ دوسروں کے یہاں ماضی قریب تک اس کو حاصل نہیں تھے۔ انسان جو حقوق حاصل کرنا اور انھیں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتا ہے، ان میں سے ایک حق ملکیت ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے زندگی کی آسائشیں حاصل رہیں ، اس کے پاس مال و دولت کا وافر حصہ ہو، جس کے ذریعہ اس کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل ہو سکے۔ اس پر اسے نہ صرف مالکانہ حق حاصل ہو بلکہ اس میں تصرف کرنے کی بھی پوری پوری آزادی ہو۔ اسلام نے انسان کا یہ حق تسلیم کیا ہے اور اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے۔
وراثت میں عورت کا حق اسلام نے وراثت میں عورت کا حصہ اس زمانے متعین کیا ہے، جب کہ وہ اس سے بالکلیہ محروم تھیں اور اسے صرف نرینہ اولاد کا حق سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اکیسویں صدی میں بھی بہت سے سماج عورت کو وراثت میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اسلام کا قانون یہ ہے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی وراثت میں اس کا استحقاق بن جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کسی لڑکی کے زندہ پیدا ہونے کے تھوڑی دیر کے بعد اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تو وہ بھی مستحق وراثت ہوگی۔مال وراثت میں عورت کا استحاق قرآن مجید میں بہت دل کش اسلوب میں بیان کیا گیا ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضا (النساء: ۷) ’’ مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہے، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ ‘‘
اس آیت میں تین باتیں توجہ طلب ہیں :
۱۔ اس آیت میں مردوں کی طرح عورتوں کے بھی مستحق میراث ہونے کی صراحت کی گئی ہے اور بہ طور خاص عورتوں کا تذکرہ الگ سے کیا گیا ہے۔
۲۔ یہ صراحت کی گئی ہے کہ چاہے مال ِوراثت کی مقدار کم سے کم ہو یا زیادہ سے زیادہ، اسے ہر حال میں تقسیم ہونا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر وراثت میں وہ چیزیں ہوں جو صرف مردوں کے کام آتی ہیں تب بھی ان میں سے عورتوں کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔
۳۔ صاف الفاظ میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ وراثت کی یہ تقسیم اختیاری اور استحبابی نہیں ہے بلکہ لازمی ہے۔ عورتوں کو بھی وراثت دی جانی ضروری ہے اور اس کی تقسیم کے مطابق جو قرآن میں بیان کیا گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے فرض کیا گیا ہے۔
قوانین میراث میں عورت کا حصہ اسلام کے قوانین میراث میں عورت کی شمولیت بہت چونکا دینے والی ہے:
۱۔ جو رشتے دار کسی حال میں بھی محروم نہیں ہوتے، ان میں تین مرد ہیں (باپ، بیٹا، شوہر) اور تین عورتیں (ماں ، بیٹی، بیوی) ہیں ۔
۲۔ تقسیم میراث میں جن رشتے داروں کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، انھیں ذوی الفروض کہتے ہیں ۔ یعنی جن کے حصے مقرر ہیں ۔ مر د کا شمار چھ حالتوں میں ذوی الفروض میں ہوتا ہے، جب کہ عورت سترہ (۱۷) حالتوں میں ذوی الفروض میں شامل ہے ہو کر مستحق میراث بنتی ہے۔
۳۔ مالِ وراثت اس کتاب سے تقسیم نہیں ہوتا: دو تہائی، نصف، چوتھائی، چھٹا حصہ، آٹھواں حصہ، دو تہائی حصہ کسی مرد کو نہیں ملتا، جب کہ عورت چاروں حالتوں میں حصہ پاتی ہے۔ نصف حصہ صرف ایک مرد (لاول شوہر) پاتا ہے، جب کہ چار طرح کی عورتیں یہ حصہ پاتی ہیں ۔
۴۔ تقسیم وراثت کی مختلف صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے اور متعدد صورتوں میں مرد کے برابر۔ صرف چند صورتوں میں اس کا حصہ ہم درجہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔
لیکن یہ تفریق جنس کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ نظام خاندان میں مالی ذمہ داریوں کی بنا پر ہے۔ عورت کو جو کچھ ملے اسے کہیں نہیں خرچ کرنا ہے اور مرد کو جو کچھ ملے اس کے ذریعے اسے اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کی کفالت کرنی ہوتی ہے۔ اس بنا پر اگر مرد اور عورت کا حصہ برابر کر دیا جائے تو یہ مرد کی حق تلفی ہوئی۔ مہر کی ملکیت اور اس میں تصرف کا حق اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ نکاح کے وقت عورت کو مہر ادا کیا جائے۔ مہر نہ عورت کی خدمات کا معاوضہ ہے، نہ اس سے لطف اندوزی کی فیس، بلکہ مہر عورت کو دیا جانے والا ایک اعزاز ہے۔ مہر نکاح کے واجبات میں سے ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی کی بہت تاکید کی گئی ہے اور شوہر کو اس کا پابند کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْء ٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئا(النساء : ۴) ’’ اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کر دیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو‘‘۔
درج بالا آیت میں ’نِحْلَۃ‘ کا ترجمہ ’خوش دلی‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کے نزدیک یہ فریضہ کے معنی میں ہے۔ اس لیے فقہاء نے مہر مقرر کرنے اور اسے ادا کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر کچھ مہر طے کیے ہوئے یا کچھ مہر نہ دینے کی شرط پر نکاح کر لے، تب بھی اس پر عورت کو ’مہر مثل‘ ( جتنا مہر عورت کے خاندان میں رائج ہو) ادا کرنا واجب ہے۔ اس آیت میں عورت کے مہر کے مالک ہونے اور اس میں تصرف کرنے دونوں حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ عورت مہر میں جو کچھ پائے اسے اس پر پورا اختیار ہے کہ اسے جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس کا استعمال اپنی ذات پر کرے، اپنے ماں باپ اور دوسرے رشتے داروں کو ہبہ کرے یا اس کا صدقہ خیرات کر دے، کسی بھی صورت میں شوہر کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسی طرح عورت کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ وقت ضرورت مالِ مہر میں سے کچھ رقم شوہر کو واپس کر دے یا اگر ابھی وہ پورا نہیں کر پایا ہے جو اس کا کچھ حصہ معاف کر دے۔ لیکن بہر حال شوہر کے لیے کسی بھی صورت میں دھونس دھمکی کے ذریعے، بیوی کی مرضی کے بغیر، مال مہر پر قبضہ کرنے، اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنے یا اگر ابھی اس کی ادائیگی نہ کی ہو تو اسے بیوی سے معاف کرا لینے کا حق نہیں ہے۔ علامہ محمد رشید رضا نے لکھا ہے: ’’لایجوز للرّجل أن یأخذ منھا شیئاً الاّ برضاھا من غیر ایذاء منہ ولا مضارۃ‘‘ (تفسیر المنار، ۲؍ ۳۸۹) ’’
مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ مہر میں سے کچھ عورت کی مرضی کے بغیر لے لے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے عورت کو اذیت دینے اور ضرر پہنچانے کی اجازت نہیں ‘‘۔
شریعت نے مہر کی کوئی مقدار  متعین نہیں کی ہے۔ وہ کم سے کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ قرآن کریم کی ایک آیت سے اشارہ ملتا ہے کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار متعین کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً أَتَأْخُذُونَہُ بُہْتَاناً وَإِثْماً مُّبِیْناً(النساء: ۲۰) ’’ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟ اور آخر تم کس طرح لے لوگے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہے‘‘
اس سلسلے میں  حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے منسوب ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ انھوں نے جب دیکھا کہ لوگ بہ طور تفاخر لڑکیوں کا مہر بہت زیادہ متعین کر رہے ہیں تو انھوں نے بر سرِ منبر خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’لوگو! لڑکیوں کی مہر زیادہ نہ رکھو، اگر یہ کوئی قابل تعریف چیز ہوتی تو اللہ کے رسول ﷺ ایسا ضرور کرتے۔ آئندہ اگر کوئی چار سو درھم سے زیادہ مہر رکھے گا تو میں زائد  رقم کو بیت المال میں جمع کرادوں گا‘۔
اس پر ایک عورت کھڑی ہوئی اور اس نے کہا: ’ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم عورت کو مہر کی ایک ایک ’قِنطَار‘ (ڈھیر سا مال) دے چکے ہو تو اس کو واپس نہ لو۔ گویا جب اللہ تعالیٰ نے زیادہ سے زیادہ مال رکھنے کی اجازت دی ہے تو آپ اسے محدود کرنے والے کون ہوتے ہیں ‘؟
حضرت عمر ؓ نے اپنی غلطی تسلیم کر لی، علی الاعلان اپنی سابقہ بات سے رجوع کیا اور فرمایا: ’رجل اخطأو امرأۃ أصابت‘ (ایک مرد نے غلطی کی اور ایک عورت نے درست بات کہی)
نفقہ کا حق اور اس کی ملکیت اسلام نے خاندانی نظام اس طرح استوار کیا ہے کہ بیوی پر اندورنِ  خانہ رہ کر گھر کی دیکھ بال، شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و پر داخت کی ذمہ داری ڈالی ہے اور شوہر کو بیوی کے نفقہ، سکنیٰ اور دیگر ضروریات ِ زندگی فراہم کرنے کا پابند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ۔(النساء: ۳۴) ’’
مرد عورتوں پر قوام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘۔
وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوف(البقرۃ: ۲۳۳)
’’بچے کے باپ کو معروف طریقے سے کھانا کپڑا دینا ہوگا‘‘۔
بیوی ہی نہیں ، بلکہ دیگر خواتین (بیٹی، بہن، ماں ) کی کفالت کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی گئی ہے۔ بیٹی کی جب تک شادی نہ ہو جائے، اس کی ضروریات باپ پوری کرے گا۔ باپ کا انتقال ہو جائے یا وہ تنفگ دست ہو اور اس کا بیٹا صاحب حیثیت ہو تو بہن کی کفالت اس کے ذمے ہے، اسی طرح ماں باپ کی مالی ضروریات پوری کرنا بیٹے پر لازم ہے۔ ان تمام صورتوں میں کسی عورت کو جو کچھ دیا جائے اور وہ اس میں سے کچھ پس انداز کر لے تو اس کی وہ مالک ہوگی۔ دینے والے مرد کو اسے واپس لینے کا حق نہ ہوگا۔
عورت کا کسب معاش لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید کر دیا ہے اور اس کے لیے کسبِ معاش کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔ لڑکی شادی سے قبل باپ یا سرپرست کی اجازت سے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔ کسب معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں : ایک براہِ راست معاشی سرگرمی کے ذریعہ اور دوسرے بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذریعہ۔ عورت ان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتی ہے، وہ خرید و فروخت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، صنعت و حرفت میں مصروف ہو سکتی ہے اور اپنی کسی جائیداد مکان، د کان وغیرہ کو کرایہ پر اٹھا سکتی ہے۔ حدود شرع کی پابندی کرتے ہوئے وہ کہیں ملازمت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، کسی کمپنی میں اپنا سرمایہ لگا سکتی ہے اور اس کے شیئرز  خرید سکتی ہے، اپنی مزروعہ زمین کو زمین بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں منافع حاصل کر سکتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ خود مالک ہوگی، شوہر کو اس پر قبضہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ ایسی عورت کے مال دار ہونے کے باوجود شوہر پر اس کے اور اس کے بچوں کے اخراجات کی تکمیل واجب ہوگی۔
عہد بنوی میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین مختلف ذرائع سے مال کماتی تھیں اور اس کو آزادانہ طور پر خرچ کرتی تھیں ۔ حضرت شفاء العدویہ ؓ اور حضرت اسماء بنت مخرمہ ؓ عطر فروخت کیا کرتی تھیں ۔ (طبقات ابن سعد) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ کچھ کاریگری سے واقف تھیں ، جس کے ذریعہ وہ اچھا خاصہ کما لیتی تھیں ۔ انھوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ:’ کیا میں اپنا مال اپنے شوہر اور ان کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں ‘؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’لک فی ذالک أجر ما أنفقت علیھم‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ) ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارث ؓ دباغت جلد کے فن سے واقف تھیں ۔ مال میں تصرف کرنے کا حق عورت جس مال کی مالک ہے، اسلام نے اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار دیا ہے۔ وہ اسے فروخت کر سکتی ہے،کرایہ پر لگا سکتی ہے، عاریت میں دے سکتی ہے، اس کا ہدیہ کر سکتی ہے، اسے وقف کر سکتی ہے، اسے بطور صدقہ و خیرات خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے اولیاء، ماں باپ، شوہر، بیٹے وغیرہ حسب ضرورت موقع اسے مناسب مشورہ تو دے سکتے ہیں ، لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔ وہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کی پورے طور پر مجاز ہے۔
سورۂ احزاب میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے دس (۱۰) اوصاف بیان کیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً (الاحزاب: ۲۵) ان میں سے ایک وصف صدقہ کرنا بھی ہے۔ کہا گیا ہے: وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ (الاحزاب: ۳۵) ’’صدقہ کرنے والے مردف اور صدقہ کرنے والی عورتیں ‘‘۔
عہد بنوی ؐ میں متعدد واقعات کتب حدیث و سیرت میں ایسے ملتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خواتین کے مجمع میں خطاب فرمایا اور انھیں صدقہ و خیرات کی ترغیب دی۔ اس سے تحریک پاکر خواتین نے اپنی مملوکہ چیزیں ، نقدی، حتی کے زیب و زینت کے زیورات ان کے بدن پر تھے، انھیں بھی خیرات کر دیا۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پر آپؐ نے خاص طور پر عورتوں کے مجمع میں جا کر ان سے خطاب کیا اور انھیں صدقہ کی تلقین کی۔ اس وقت حضرت بلال ؓ آپ کے ساتھ تھے۔ انھوں اپنا کپڑا پھیلایا اور عورتیں اپنے زیورات اتار اتار کر اس میں ڈالنے لگیں ۔ (بخاری، کتاب العیدین،حدیث نمبر :۹۷۹)
حضرت زینب بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ہم عورتوں سے خطاب کیا اور فرمایا : یا معشر النساء تصدّقن ولو من حلیکن ّ۔ (بخاری: مسلم: باب فضل النفقہ، حدیث نمبر : ۱۰۰۰) ’اے عورتوں ک جماعت ! صدقہ کیا کرو جیسے اپنے زیورات ہی میں سے‘۔ عہد نبوی میں خواتین صدقہ و خیرات کے معاملے میں پوری طرح آزاد اور با اختیار تھیں ۔ کتب احادیث میں خواتین کو رسول اللہﷺ کی ترغیبات اور ان کی طرف سے ان پر آزادانہ عمل کے انفرادی واقعا ت کثرت سے ملتے ہیں ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کا نکاح حضرت زبیر بن العوام ؓ سے ہوا تھا۔ وہ مال دار نہ تھے، زندگی تنگی ترشی سے گزرتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت اسماء ؓ کے پاس کہیں سے کچھ رقم آگئی۔ وہ اسے لیے بیٹھی تھیں کہ ان کے شوہر گھر میں داخل ہوئے۔ انھوں نے کہا: یہ رقم مجھے دے دو۔ وہ بولیں : اسے تو میں نے صدقہ کر دیا۔ (مسلم: کتاب الآداب والسلام، ۲۱۸۲)
حضرت اسماءؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میرے پاس کچھ زیادہ مال نہیں رہتا، صر ف اتنا ہی ہوتا ہے جو میرے پاس شوہر مجھے گھر کے خرچ کے لیے دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود آپؐ نے صدقہ کر نے کی ترغیب دی اور فرمایا: ’انفقی ولا تحصی فیحصی اللہ علیک، ولا توعی فیوعی اللہ علیک، ولا توکی فیوکی اللہ علیک‘‘ ( بخاری: کتاب الزکوٰۃ، مسلم : کتاب الزکوۃ، ابو دائود: باب فی الشح) ’’ اے اسماءؓ! دیتی رہو اور صدقہ کرتی رہو اور خزانے کا منہ  بند نہ کرو، ورنہ تم پر بھی اللہ تعالیٰ اپنے خزانے کا منہ بند کر لے گا‘‘۔
عورت کے حق تصرف کے سلسلے میں فقہاء کا کچھ اختلاف ہے، لیکن وہ بہت معمولی ہے۔ لڑکی کی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بالغ ہے تو احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک لڑکے کی طرح اسے بھی ہر طرح کا تصرف کرنے (مثلاً خرید و فروخت اور ہبہ کرنے) کا اختیار ہے۔ امام مالک ؒاس سلسلے میں کچھ پابندی عائد کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک لڑکی کو یہ اختیار اس کا نکاح ہو جانے اور ماں بننے کے بعد دیا جائے گا، دوسرے وہ شوہر کی اجازت کے بغیراپنا ایک تہائی سے زیادہ مال ہبہ یا صدقہ نہیں کر سکتی۔ مناسب یہ ہے کہ اس اختلاف کو جواز یا عدم جواز کے دائرے میں نہیں بلکہ استحباب کی حد تک رکھا جائے۔ اس کا مقصد عورت کی آزادی کو محدود کرنا اور اس پر پابندی عائد کرنا نہیں ، بلکہ اس کے مال کی حفاظت کرنا اور اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ اسلام کا امتیاز عورت کو ملکیت کا حق دینا اسلام کا ایک ایسا امتیاز ہے، جس کی نظیر دنیا کے کسی مذہب اور تہذیب میں نہیں ملتی۔ بہت سے مذاہب اور تہذیبوں میں لڑکی کو باپ کا، بیوی کو شوہر کا اور ماں کو بیٹے کا پابند بنایا گیا ہے۔ اسے ملکیت کا حق کیا دیا جاتا ہے، بلکہ خوداس کے وجود کو مال کی حیثیت دی گئی ہے، جس میں تصرف کرنے اور اس پر اپنی مرضی تھوپنے کا دوسروں کو اختیار دیا گیا ہے۔
یورپ میں نشأۃ ثانیۃ کے بعد بھی عورت کو اپنے دیگر حقوق کی طرح ملکیت سے بھی محروم رہی، یہاں تک کہ حقوق نسواں کی تحریکیں اٹھیں ، زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے، عورتوں سے اپنی طاقت دکھائی، تب جاکر ۱۹۵۰ء میں انگلینڈ نے، ۱۹۰۰ء میں جرمنی نے، ۱۹۱۹ء میں اٹلی نے اور بعد میں دیگر ممالک نے ان کے حق ملکیت کی قانون سازی کی۔ اس کے بر عکس اسلام عورتوں کو یہ حق پندرہ سو برس قبل دے چکا ہے۔ آخر میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلم معاشروں میں عورتیں اپنے اس حق ملکیت سے محروم ہیں ۔ انھیں نہ وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے، نہ وہ مہر کی رقم پاتی ہیں ، نہ انھیں وقت ضرورت کسبِ معاش کی اجازت دی جاتی ہے اور اگر انھیں کہیں سے کچھ مال حاصل ہو جائے تو اس پر تصرف کا انھیں اختیار نہیں ہوتا، بلکہ شوہر نامدار اس پر قبضہ جما لیتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے عائلی قوانین سے واقف کرایا جائے اور انھیں پابند کیا جائے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق سے نوازا ہے، انھیں خوش دل سے دیں ۔ اس طرح اسلام کا صحیح تعارف ہوگا اور اللہ کے بندوں کے دل اس کی طرف مائل ہوں گے۔
بشکریہ مضامین

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply