مجھے تو مینوپاز ہے/سلیم زمان خان(1)

جب میں نے خوب تحقیق کر لی تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اب وقت ہے کہ گھر والوں کو بتا دینا چاہیے کہ مجھ میں ایک موذی بیماری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔۔ قدرتی  طور پہ اس جمعہ کو میری بیٹی بھی آئی ہوئی تھی جو ڈاکٹر ہے اور میری بہو کی بھی ہسپتال سے چھٹی تھی تو میں نے سوچا رات کے کھانے پر سب سے ایک بار گفتگو کر ہی لوں۔

سب کھانے  کے دوران خوشی گپیوں میں مصروف تھے۔۔ کھانا ختم ہوا تو بہو پلیٹیں سمیٹنے لگی، میں نے ہمت جوڑ کر کہا میں آپ سب سے اپنی صحت کے متعلق کچھ سنجیدہ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔

یہ سنتے ہی میری بیگم اٹھ کر فوری کچن کی طرف چل پڑیں ۔۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔ بچو! مجھے ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی ہے جو میری عمر کے ہر بندے کو  تقریباً  ہوتی ہے۔۔

بہو نے کہا۔۔ ابو جی خدا خیر کرے۔۔ ماشاءاللہ آپ صحت مند ہیں۔۔ ایسا نہ کہیں۔۔

میں نے کہا۔۔ نہیں بہو مجھے “مینو پاز” ہوگیا ہے!

کیا۔۔ بہو کے منہ سے چیخ کی طرح نکلا۔۔ بیٹا۔۔ جو سلاد کے آخری پتے چبا رہا تھا۔۔ اس کا منہ کسی گھوڑے کی طرح اوپر کا جبڑا دائیں اور نیچے کا جبڑا بائیں رک گیا۔۔ اور پتہ لٹکا رہ گیا۔۔ بیٹی نے اپنے بچے کو جلدی جلدی کہا کہ جاؤ بیٹا اپنے کمرے میں۔۔ داماد جلدی سے فون میں میسجز پڑھنے لگا۔۔

اچانک کچن سے بیگم نے زور سے چمچ زمین پر گرایا اس paused ماحول اور سناٹے میں چمچہ کسی بم کی طرح گرا۔ سب چونک گئے۔۔ بیوی کی آواز آئی۔۔ یہ کیڑا ہر چھ ماہ بعد نکل آتا ہے۔۔ مار دیا۔۔ میں نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بہو کی طرف دیکھا۔۔

بہو  نے جھجکتے ہوئے کہا۔۔ ابو جی۔۔ یہ آپ کی بیماری نہیں۔۔ آپ کو نہیں ہو سکتی۔۔

مجھے ہے۔۔ میں نے پُر یقین انداز میں کہا۔۔

اس نے میری بیٹی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔۔ بیٹی چونکہ گائنا کالوجسٹ ہیں تو بولی۔۔ بابا۔۔ میرے پیارے بابا آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے۔۔ یہ خواتین کی بیماری ہے اور 45 سال سے 50 سال کے دوران شروع ہوتی ہے اور 55 سال تک اپنا پورا اثر دکھا دیتی ہے۔۔

مجھے معلوم ہے، میں نے مثبت انداز سے کہا۔۔ لیکن مجھ میں وہ تمام علامتیں ہیں جو مونوپاز کی بیماری میں ہو جاتی ہیں۔

مثلاً، بیٹی نے کہا۔۔ کچن سے بیوی بولی چھوڑو اسے یہ بس اہم بننے کے  بہانے سوچتا رہتا ہے۔۔ چند مہینے پہلے مجھے رات کو اٹھا کر کہہ رہے تھے۔۔ کہ مجھے ہسٹیریا ہوگیا ہے۔  پھر بیٹے نے سمجھایا کہ بابا آپ کو اس عمر میں اتنے بچے پیدا کرنے کے بعد ہسٹریا نہیں ہو سکتا ، اور اب اسے (مونوپاز)۔۔ حد ہے چوول پن کی۔۔

داماد نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا اور آنکھوں آنکھوں میں ہمدردی کا اظہار کیا۔۔

بیٹے نے صرف سلاد پر ہی زور رکھا۔۔

بہو بولی۔۔ ابو جی۔۔ انشاءاللہ میں دوائیاں لا دوں گی آپ کہہ رہے تھے، کہ اس کی تمام علامات آپ میں ہیں تو بتائیں گے کہ کیا کیا ہو رہا ہے۔۔ تب بیٹی نے مایوسی سے سر جھٹک دیا۔۔

میں نے کہا۔۔ دیکھو۔۔ بیٹی مجھے اس کی علامات میں جسم میں سے اچانک نکلنے والی گرم لہروں کے ساتھ ساتھ یہ علامات بھی ہیں، انتہائی بے خوابی، وزن میں اضافہ، ڈپریشن، بے چینی، یاداشت کی کمزوری، بار بار پیشاب کا آنا، سر کے بالوں کا پتلا ہو جانا۔۔ اور ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ کچھ علامات اور ایسی ہیں جو میرے جسم میں نہیں  ہو سکتیں لیکن ۔۔جسم کے میٹا بولک نظام کا سست ہو جانا، ہڈیوں کا کمزور اور بھر بھرا ہو جانا، موڈ میں تیزی سے تبدیلی واقع ہونا، آنکھوں میں موتیا ہو جانا، پیشاب کا انفیکشن یا تکالیف، دل یا خون کی شریانوں کی بیماری، یہ تو سب مجھے ہیں نا!

بیٹی نے مسکرا کر بہو کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ شکر ہے کچھ مسائل انہیں نہیں ہیں، ورنہ ہم کیا کر لیتے۔

ہنسو مت! میں نے غصہ کرتے ہوئے کہا۔۔ تو بیٹی اپنی کرسی سے اٹھی اور میرا سر چوم کر بولی۔۔ بابا آپ ٹھیک ہو جائیں گے کل میں اپنی میڈم سے آپ کے لئے اچھی سی دوائی لاؤں گی۔۔ لیکن پلیز آپ اپنی بیماریوں کو گوگل کرنا چھوڑ دیں ۔ ہم سے پہلے بات کر لیا کریں ۔

نہیں۔۔ میں نے کہا۔۔ یا  تو مجھے اپنی میڈم سے چیک اپ کراؤ۔ یا میری بات تم دونوں آرام سے سنو!

بیٹے نے ایک بار پھر گھوڑے کی طرح منہ کھول کر جمائی لی اور کہا مجھے صبح اٹھنا ہے۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں سو جاؤں۔  داماد نے موبائل سے سر اٹھا کر کہا کہ بابا۔۔ وہ گھر پر امی ابو انتظار کر رہے ہوں گے اگر مجھے اجازت دیں۔۔ اسی طرح بیوی اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بڑبڑائی۔۔ میری نماز کو ہمیشہ اس گھر کے جھمیلوں میں دیر ہو جاتی ہے۔۔ نماز پڑھ لوں ۔ بیٹی اپنے بچے کا بہانہ کرکے جانے لگی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی آپ سو جائیں۔۔ صبح میں ڈاکٹر سے بات کروں گی ۔

میں بوجھل قدموں سے کمرے کی طرف چل پڑا۔۔ کچھ دیر بعد میرے کمرے کے  دروازے پر دستک ہوئی۔۔ بہو چائے کے دو کپ لئے داخل ہوئی اور بولی۔۔ ابو جی۔۔ میرا موڈ تھا چائے کا تو سوچا، آپ کے ساتھ پی لوں اور آپ کا اتنا سیریس مرض بھی کچھ ڈسکس کر لیں۔۔ میں اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا۔۔ آؤ بیٹا آؤ۔۔ بہت شکریہ تم آئیں۔

ابو جی آپ کو کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو صرف “مینو پاز” ہی ہے۔۔ حالانکہ یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ یہ اچانک گرمی کا لگنا جسے “ہاٹ فلیش” کہا جاتا ہے یہ مرد یا خواتین دونوں کو کئی بار دوا، علاج یا دیگر وجوہات کے باعث ہارمون میں ہونے والے عدم توازن کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔۔ اس میں شدید گرمی، بے چینی جسے anxiety کہتے ہیں، دم گھٹنا اور گھبراہٹ مشترک ہیں لیکن۔۔ مینو پاز ایک ایسی جسمانی حالت ہے جسے صرف خواتین تک ہی مخصوص رکھا جا سکتا ہے اور یہ ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی مخصوص خواتین کے مسائل بڑھ جانا اور قدرتی عوامل کا رک جانا شامل ہیں۔۔ آپ کو نہیں ہو سکتا۔

میں نے اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اسے کہا بیٹی۔۔ بیٹھو اور سنو!
وہ میرے بستر کے سامنے صوفہ پر مؤدب بیٹھ گئی۔

میں بولا۔۔ سنو! ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں۔۔ یہ برصغیر کے تمدن کی وراثت ہے جسے ہم لے کر چل رہے ہیں۔۔ اس میں عورت جب مینو پاز(سن یاس) میں جانا شروع ہوتی ہے تو ایک تو اس کا جسم اس کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا،وہ اپنے مسائل سے نمٹ رہی ہوتی  ہے،جبکہ انہیں سالوں میں اس کا خاوند دنیاوی جھنجھٹوں سے فارغ ہو رہا ہوتا ہے۔  اس کی عشق و مشک کی بتی آخری زمانے میں فراغت کی وجہ سے لو بڑھا رہی ہوتی ہے۔۔ اور بیوی کی بے رغبتی خاوند کو اس سے دور کرتی جاتی ہے۔  بچے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے جاتے ہیں  اور معاشرہ ان خواتین کو آہستہ آہستہ اپنے امور اور افعال سے نکالتا جاتا ہے۔۔ پھر یہ خواتین  اپنے اکیلے اور چڑچڑے پن کا علاج بہت مذہبی بن کر نکالتی ہیں۔۔ ہندو مت وہ مذہب ہے جو عورت کو اس کے مخصوص ایام میں اکیلا کر دیتا تھا۔ خاوند کے مرنے پر اسے خاوند کے ساتھ جلا دیتا تھا جسے (ستی کہا جاتا ہے) اور مینو پاز میں اسے ایک سٹھیائی ہوئی بڑھیا سمجھ کر چارپائی تک محدود کر دیتا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply