جنرل باجوہ اور جنرل مشرف /اظہر سید

دونوں آئین شکن تھے اور دونوں نے چین آف کمانڈ کے ثمرات سمیٹنے میں ریاست اور ادارہ کے وقار کو نقصان پہنچایا ۔ جنرل مشرف کو تو تحفظ مل گیا کیا جنرل باجوہ کو بھی ملے گا یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کی بھول بھلیوں میں حافظ صاحب کو راستہ تلاش کرنا ہے ۔
دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے کے بعد 2023 تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں جنرل مشرف ایک پروفیشنل فوجی تھا ۔اس نے آئین شکنی کی اور اقتدار پر قبضہ کیا لیکن یہ آئین شکنی اور اقتدار پر قبضہ تو جنرل ایوب ،جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا نے بھی کیا تھا ۔
جنرل مشرف نے کارگل ایڈونچر سے پاک بھارت دوستی کی راہ کھوٹی کر دی لیکن یہ راہ تو محترمہ بینظیر بھٹو نے جب راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تھا اسوقت بھی کی گئی ۔
آپریشن جبڑالر کے زریعے جنرل ایوب نے بھی کی ۔جنرل یحییٰ نے بھی کی اور جنرل ضیا نے کشمیر کی چنگاری کو شعلہ بنا کر بھارتیوں کو زچ کر کے رکھ دیا ۔
افغانستان میں دوہرا کھیل جنرل ضیا سے جنرل مشرف تک سب نے کھیلا تو پھر جنرل باجوہ نے انوکھا کام کیا کیا کہ فوج بطور ادارہ ان سے خود کو الگ کر لے ۔
جنرل ایوب سے جنرل مشرف تک چینیوں کو کسی نے دھوکہ نہیں دیا لیکن جنرل باجوہ نے چین کو پاکستان سے دور کر دیا ۔
کشمیر پر کسی چیف نے بھارت کو حامی نہیں بھری لیکن جنرل باجوہ نے کشمیر پر سرنڈر کر دیا ۔
افغانستان کے کمبل سے کسی چیف نے امریکیوں کی جان نہیں چھڑائی لیکن جنرل باجوہ نے امریکیوں کو افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کا موقع دے دیا ۔
نواز شریف اور عمران خان نامی نوسر باز دونوں مالکوں کی تخلیق تھے ۔بھٹو اور نواز شریف دونوں نے مالکوں کو بیرکس تک محدود کرنے کی کوشش کی اور دونوں نے مزا بھی چکھا ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کبھی بھی بطور ادارہ فوج کو ہدف نہیں بنایا پھر بھی بھگتا لیکن نوسر باز نے فوج کو منظم طریقے سے بدنام کر دیا لیکن جنرل باجوہ نے چند پالتو ججوں کی مدد سے اپنی چیف شپ کے دوران نوسر باز کو مسلسل تحفظ دیا ۔
نواز شریف نے گوجرانولہ جلسہ میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا نام لیا فوج میں ہلچل مچ گئی ۔ن لیگ میں شامل ریٹائرڈ فوجی افسران نواز شریف سے بغاوت کر گئے ۔ نوسر بازکھلے عام سائفر کا فراڈ کھلتا رہا ۔فوج کو بدنام کرتا تھا ۔جنرل باجوہ کو میر جعفر کہتا رہا لیکن نوسر باز کی حمائت میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیم نکل آئی اور جنرل باجوہ کی کمانڈ میں فوج نے کوئی ردعمل نہیں دیا ۔ اس وقت تک گرفتار نہیں کیا گیا جب تک حافظ صاحب نے قیادت نہیں سنبھال لی ۔اب ریٹائرڈ افسران کی تنظیم کہاں غائب ہو گئی ہے ؟ صاف صاف مطلب ہے نوسر باز کو جنرل باجوہ اینڈ کو کی مکمل حمائت حاصل تھی ۔ یہ وہ حمائت تھی جس میں آئین ری رائٹ کر کے تین پالتو ججوں نے حمزہ شہباز کی حکومت ختم کرائی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اعتراف بھی کر لیا ۔
ہم سمجھتے ہیں اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔فوج کو جنرل باجوہ کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہئے ۔حافظ صاحب کلیدی عہدوں پر تقرریاں کر لیں اور پھر فوج کو تمام متنازعہ معاملات سے الگ کر لیں ۔
جنرل باجوہ ایک ناکام قیادت تھی جس نے پاکستان کی سلامتی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔صرف ففتھ جنریشن وار کے نام پر فوجی گھرانوں میں نوسر باز کی بہت بڑی حمائت کھڑی کر دی ۔اس ففتھ جنریشن وار نے نوسر باز کو بہت بڑے ووٹ بینک کا مالک نہیں بنایا پوری فوج کو بھی بدنام کر دیا ہے ۔
جنرل مشرف اور جنرل باجوہ آئین شکنی کے حوالہ سے ایک ہی صف میں ہیں لیکن فوج اور ریاست کو نقصان پہنچانے میں جنرل باجوہ کا مقام بہت بلند ہے ۔
جنرل باجوہ نے فوج کو کشمیر اور افغانستان سے محروم کر دیا ۔ہم سمجھتے ہیں صرف جنرل باجوہ نہیں بلکہ اس تمام ٹیم کا احتساب ہونا چاہئے جن کی مشکوک پالیسیوں کا خمیازہ فوج اور ریاست بھگت رہی ہے ۔
جنرل باجوہ اینڈ کو کا “جوانوں کا مورال ڈاؤن” نہ ہو جائے کہ خدشہ کے پیش نظر بھلے سول ٹرائل نہ کریں لیکن ان کا ٹرائل بہت ضروری ہے ۔ فوج خود ان کا ٹرائل کر لے لیکن کرے ضرور اسکے بغیر ادارے کا تاثر بحال نہیں ہو سکتا ۔
جنرل باجوہ کو اپنے کارناموں کا اچھی طرح پتہ ہے اس لئے وہ ادارے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
نو مئی کے واقعات میں اگر بعض فوجی افسران گرفت میں آئے ہیں تو یاد رکھیں یہ کارنامہ بھی جنرل باجوہ اینڈ کو کا تھا ۔
جو چیف ایک مخصوص جنرل کو چیف بننے سے روکنے کیلئے سازش کرے کیا بطور ادارہ فوج کو اسے تحفظ دینا چاہئے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply