اسرائیل کا قیام اور یہودی سیاسی نظریات

  اسرائیل کے قیام پہ کافی بحث ہوچکی ،اسے دہرانے کا فائدہ نہیں۔ یہاں ہم اس کے پیچھے موجود یہودی سیاسی نظریات پہ بحث کریں گے۔ دیکھا یہ ہے کہ ہمارے اچھے بھلے مبصر صہیونیت کو کبھی مذہبی اور کبھی سیکولر سوچ کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں ۔شاید اپنی سہولت کی خاطر۔ حالانکہ اکثریت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کلاسیکی یہودی مذہبی سوچ کل بھی اسرائیل کی ریاست کے خلاف تھی اور آج بھی ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ صہیونیت کوئی سیکولر سوچ ہے۔ روایتی یہودی مذہبی سوچ اس کی ہمیشہ قائل رہی کہ یہود کو اپنی ریاست بنانے کا کوئی حق نہیں۔ ان کے لئے یہ گناہ کے مترادف ہے کیونکہ ان کا ماننا رہا کہ یہود کے گناہوں کی پاداش میں خدا نے ان سے ریاست اور حکومت چھین لی ۔اب انہیں مسیحا کا انتظار کرنا ہوگا جو اسرائیل کی ریاست قائم کرکے ہیکل کی ازسر نو تعمیر کرے گا اور یہود کو وہی عروج اور مقام حاصل ہوگا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

یہ سوچ فطری تھی کیونکہ یہود کی تاریخ میں ان کے نبی ہمیشہ ان کے بادشاہ ہی رہے۔ دلچسپ طور پہ جب یہ سوال اٹھایا جاتا کہ مسیحا کب آئیں گے تو ربیوں کا جواب ہوتا کہ جب سب یہود نیک ہوجائیں گے، تو انعام کے طور پر  یا جب سب یہود گمراہ ہوگئے۔ جدید عہد اور سیکولرزم کے بعد یہود میں سیکولر طبقہ بھی پیدا ہوا جو اگرچہ زیادہ نہ تھے لیکن سیکولر اور مذہبی دونوں میں یہودی ریاست کے قیام کا کوئی خیال موجود نہ تھا ،مذہبی یہودی جہاں مسیح کا انتظار کررہا تھا اور اپنی علیحدہ شناخت پہ مصر تھا سیکولر یہودی ریاست اور معاشرہ کے مین سٹریم دھارے میں شمولیت کا حامی تھا۔ اگرچہ ان کی تعداد اور اثر بہت ہی کم رہا۔

انیسویں صدی میں یورپ میں چلنے والی قومیتی تحریکوں کا یہودیوں پہ بھی اثر ہوا اور   صیہونی تحریک کا آغاز ہوا جو یہود کا قومی وطن بنانے پہ اصرار کرتے تھے۔ یہ کوئی سیکولر تحریک نہیں تھی یہ بھی اتنے ہی مذہبی تھے جتنے کہ روایتی مذہبی یہودی ‘لیکن فرق یہ تھا کہ ان کے خیال میں مسیح موعود کی آمد تک یہود  کو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب یہود خود کوشش کرکے اپنی ریاست قائم کریں گے اور ہیکل کی دوبارہ تعمیر کریں گے تو ہی مسیح کی آمد ہوگی۔ انہوں نے صرف روایتی مذہبی یہودیوں کی دلیل کی ترتیب الٹ دی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخری نصف تک یہود برطانیہ کی اعلی سیاسی اشرافیہ کا بھی پوری طرح سے حصہ تھے اس دور کے دو مشہور برطانوی وزرائے اعظم گلیڈ سٹون اور ڈسرائیلی، دونوں کا تعلق یہودی خاندان سے تھا اور برطانیہ کی عالمی طاقت اور اثرورسوخ آج کے امریکہ کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔ صیہونی سوچ کو اعلی اور طاقتور یہودی اشرافیہ میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں برطانوی اشرافیہ میں یہودی قومی وطن میں  سوچ کو سنجیدگی سے لیا جارہا تھا۔ خالص اینگلو سیکسن اشرافیہ بھی اس کے حق میں تھی، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہود کے نکل جانے سے برطانوی معاشرہ زیادہ خالص اینگلو سیکسن ہوجائے گا۔

روایات ہیں کہ اس دور میں برطانوی اشرافیہ کی طرف  سے  ان کو یہ پیش کش بھی کی گئی کہ اگر وہ برطانوی سلطنت میں آسٹریلیا یا افریقہ میں آباد ہونا چاہیں تو برطانوی سلطنت ان کی ہر طرح سے مدد کرے گی۔ اس تمام اندرونی بات چیت کی ڈور  صیہونیوں کے ہاتھ میں تھی اگر وہ سیکولر مزاج کے واقع ہوتے تو عقلی تقاضا تو یہ تھا کہ آسٹریلیا یا افریقہ کے غیرآباد علاقے کا انتخاب کرتے جہاں ان کی آمد پہ اتنی کوئی خاص مقامی آبادی ہوتی ہی نہ،  جس کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا اور دنیا کی تکلیفوں اور مسائل میں بھی کافی کمی ہوتی لیکن صیہونی بھی اتنے ہی کٹر مذہبی تھے اور انہیں ارض قدس میں مسیح کی آمد اور ہیکل کی تعمیر کا اتنا ہی پختہ یقین تھا جتنا کہ کسی کٹر مذہبی یہودی کو اسی لیے ان کا حتمی انتخاب فلسطین ہی تھا۔ مذہبی یہودی کا رویہ ہمارے مذہبی جیسا ہی ہے جو دین و دنیا میں فلاح کے لئے نیک اعمال پہ زور دیتا ہے اور مسیح یا مہدی کی آمد کا منتظر ہے۔

اس کے برعکس صیہونی اتنا ہی کٹر مذہبی ہے اورپیشنگوئیوں پہ اسی طرح یقین رکھتا ہے لیکن ان کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے اس کے لئے عملی اقدامات اور پلاننگ کرتا ہے۔ اس لئے ان میں زیادہ تعلیم یافتہ بااثر لوگ شامل ہیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر ایسا یہودی لازماً ہی صیہونی ہو مثلاً جارج سوروس کو ہی لے لیں ۔۔موجودہ دور میں اس سے زیادہ تیزی سے ارب پتی بننے والے لوگ بہت کم ہیں لیکن وہ اسرائیل کی ریاست کے حق میں نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سوروس کسی بھی ریاست کے حق میں نہیں تو زیادہ بہتر ہوگا، وہ صیہونی نہیں بلکہ نیولبرل ہے اور اس نظریے کی ترویج کے لئے سب سے زیادہ فنڈنگ فراہم کرتا ہے ‘بلکہ دنیا میں پھیلا ہوا اس کی این جی اوز کا جال عوام کو ریاست کے خلاف اکساتا ہے۔

اسرائیل کے قیام اور مستقبل کے ضمن میں پیشنگوئیوں کا تذکرہ لازمی ہوتا ہے اور خصوصاً اس وجہ سے کہ اس ملک کا قیام ہی ایک پیشنگوئی پہ یقین کرکے لایا گیا تھا اور تینوں الہامی مذاہب میں اس بارے میں بہت سی پیشنگوئیاں موجود ہیں۔ لیکن ان کے باہمی تقابل میں معاملہ کچھ عجیب اس طرح ہوجاتا ہے کہ بہت کچھ اوور لیپ کرجاتا ہے۔ مثلاً مسلمان جہاں عیسی اور مہدی کے منتظر ہیں وہیں عیسائی اور یہودی مسیح کے منتظر ہیں، مسلمان جہاں دجال سے خائف ہیں عیسائی وہاں اینٹی کرائسٹ پر۔ یاجوج و ماجوج سے مسلمان و یہود بیک وقت خائف اور پریشان ہیں۔ لیکن بعض بہت مصدقہ پیشنگوئیاں معاملہ کو کافی الجھا دیتی ہیں،

دو مشہور ربیوں کی پیشین گوئیوں کو ہی لے لیں۔ ربی اسحاق قدیر اسرائیل کا سب سے محترم ربی تھا اس کے مرنے کے بعد جو پیشنگوئی کھولی گئی اس کے مطابق آنے والے مسیحا کا نام عیسی ہوگا تو یہود کی جدوجہد کس کھاتے؟ اور عیسائی مسلم تعلقات پہ کیا اثر؟ اسی طرح شام کی جنگ کے دوران کچھ سعودیہ دوست حضرات کو شام و نجد کے حوالے سے احادیث کی پیشنگوئیوں میں اتنی مشکلات درپیش آتی تھیں کہ مشرق وسطی کے نقشہ کو ہی سر کے بل کھڑا کرکے جان چھڑاتے تھے۔ اسی طرح پچھلے دنوں جب روس نے کریمیا پہ قبضہ کیا تو ۱۷۹۷ میں فوت ہونے والے ربی علیجاہ بن شلمون زلمان کی پیشنگوئی کا بہت تذکرہ ہوا جس میں اس نے کہا تھا کہ جب روس کریمیا پہ دوبارہ قبضہ کرلے تو یہودیوں کو آخری جنگ کی تیاریاں شروع کردینا چاہییں کیونکہ اس کے بعد روس کچھ عرصہ ترکی سے الجھنے کے بعد مسلم ممالک کے ساتھ مل کے یہود پہ حملہ آور ہوگا۔ یوکرین کے ٹوٹنے اور کریمیا پہ روس کے قبضے کے بعد اس کا بہت شہرہ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برطانوی اخبار ڈیلی سٹار نے بھی ۷ مارچ ۲۰۱۶ کی اشاعت میں  اس کا ذکر کیا۔ زیادہ الجھی ہوئی پیشنگوئی یاجوج ماجوج کی ہے جس سے مسلم ،یہود، عیسائی تینوں ہی خائف ہیں لیکن جب یہ تینوں ہی آپس میں دست و گریبان ہیں تو وہ تینوں کا بیک وقت دشمن کیسے؟ یہود  تو  مسلمانوں کو بھی انہی میں گنتے ہیں اور بعض بدخواہوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار دیکھ کر یہ کچھ عجیب بھی نہیں لگتا۔ واللہ اعلم!

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply