دہشت گردی کا ناسور/پروفیسر رفعت مظہر

30 جنوری کو پشاور شہر کے ہائی سکیورٹی زون پولیس لائن میں واقع جامع مسجد میں عین نماز کے دوران خودکُش حملہ ہوا جس میں امام مسجد سمیت 104 سے زائد نمازی شہید ہوئے اور 150 سے زائد زخمی۔ خودکُش دھماکے میں 2 منزلہ مسجد کی عمارت کی چھت گِر گئی اور ریسکیو اہلکار ساری رات ملبہ ہٹا کر زخمیوں اور شہداء کی لاشیں نکالتے رہے۔ یہ وہ حساس علاقہ ہے جہاں پولیس ہیڈ کوارٹر، محکمہ انسدادِ دہشت گردی اور خفیہ ایجنسیوں کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے 3 فروری کو ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”وفاق نے خیبرپختونخوا حکومت کو 417 ارب روپے دیئے ہیں، پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ روپے کہاں گئے؟۔ خیبرپختونخوا کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے ملنے والی 417 ارب روپے کی آدھی رقم کی خرچ ہوئی ہوتی تو صوبے کے عوام سکون کی نیند سوتے“۔ اُنہوں نے نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف یہ لوگ ظلم کا بازار گرم کرنے والوں کو سیٹل کرنے کے لیے تیار ہیں مگر ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اپنوں سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں۔ اِس طرح کے دہرے معیار نہیں چلیں گے۔

وزیرِاعظم صاحب کا فرمان بجا سوال مگر یہ ہے کہ کیا 417 ارب کا حساب بھوکوں مرتی قوم لے گی؟۔ کیا ایک ہزار قیدی طالبان کو رہا کرنے والے اور 10 ہزار تحریکِ طالبان پاکستان کو کے پی کے میں سیٹل کرنے کا اعلان کرنے والی حکومت سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا؟۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نوازشریف کے دَورِحکومت میں فوجی آپریشن ضربِ عضب اور رَد الفساد کے ذریعے پاک فوج نے پاکستان سے ٹی ٹی پی کا مکمل صفایا کردیا۔ عمران خاں کے دَورِ حکومت میں اِس فتنے نے دوبارہ سَر اُٹھایااور اتحادی حکومت کے 10 ماہ میں ٹی ٹی پی مکمل طور پر فعال ہو گئی۔

وزیرِاعظم نے 7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے اِس کانفرنس میں اُس سیاسی جماعت کو بھی دعوت دی ہے جو اُن سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتی۔ وزیرِاعظم کا واضح اشارہ تحریکِ انصاف کی طرف تھا۔ اُدھر تحریکِ انصاف نے اے پی سی میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وجہ یہ کہ عمران خاں شروع سے ہی ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ایک زمانے میں تو اُنہیں ”طالبان خاں“ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ 30 جنوری کے سانحہ  پشاور کے بعد تحریکِ انصاف کہتی پائی گئی کہ یہ سانحہ دراصل پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کے خلاف سازش ہے۔ بجائے اِس کے کہ عمران خاں ٹی ٹی پی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اے پی سی میں شرکت کا اعلان کرتے، اُنہیں اب بھی وزارتِ عظمیٰ کے خواب ستا رہے ہیں۔ عمران خاں تو کجا اُن کا کوئی ساتھی بھی سانحہ  پشاور کے خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی کے لیے نہیں پہنچا۔البتہ الزام تراشی کے ماہر عمران خاں نے یہ ٹویٹ کرنا اپنا فرض سمجھا ”دہشت گردی کو اپنی ناک تلے پھیلنے کی اجازت دیئے جانے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شہباز شریف اتنا بے شرم کیسے ہو سکتا ہے“۔ نہیں معلوم کہ بے شرم کون ہے؟۔ وہ کہ جس نے ٹی ٹی پی کے قیدی رہا کیے اور 10 ہزار کو کے پی کے میں سیٹل کرنے کا اعلان کیا، یا وہ کہ جس کے دَور میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا قلع قمع ہوا؟۔ وہ کہ جو اے پی سی بُلا کر دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں ہے یا وہ جس نے اے پی سی میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے؟۔

اِس سے قطع نظر کہ عمران خاں کے دینی علم کا معیار کیا ہے، اُنہوں نے ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا دعویٰ تو کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاستِ مدینہ میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی اجازت تھی؟۔ کیا خونِ ناحق کے بارے میں رَبِ لم یَزل کا یہ فرمان نہیں ”جس نے کسی جان کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد مچانے کے قتل کیاتو گویا اُس نے تمام لوگوں کو قتل کیا“ (سورٰ المائدہ 32)۔ اِسی طرح سورۃ نساء آیت 93 میں فرمایا ”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے، اُس کی سزا جہنم ہے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ نے اُس پر غضب کیا، اُس پر لعنت کی اور اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ فُرقانِ حمید کے اِس واضح حکم کے بعد کیا کسی بے گناہ شخص کو قتل کرنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے جہاد کے نام پر لگ بھگ 80 ہزار بیگناہوں کو شہید کیا۔ اِس دہشت گرد تنظیم نے کوئی مسجد چھوڑی نہ مکتب، گرجاگھر چھوڑا نہ مندر۔ اِن دہشت گردوں نے تو مارکیٹوں اور ہسپتالوں تک کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ سانحہ اے پی ایس پشاور کے زخموں سے ابھی خون رِس رہا تھا کہ اُسی پشاور کی مسجد میں وحشت وبربریت کا ننگا ناچ نچایا گیا۔ کیا ادیانِ عالم میں سے کوئی بھی دین ایسے دہشت گردوں کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھ سکتا ہے؟۔ اب سوال یہ ہے کہ نرم گوشہ رکھنے والا (خواہ وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو)، اُس کی دینِ مبین کے عین مطابق سزا کیا ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیبرپختونخوا حکومت کے سابق ترجمان بیرسٹرسیف نے جیونیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے اقرار کیا ہے ”طالبان سے مذاکرات کے اچھے نتائج نہیں ملے۔ اب تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی تُک ہے نہ بات کرنے کی ضرورت۔ اب تو جنگ ہے“۔ بیرسٹر سیف تحریکِ انصاف کی حکومت کے ترجمان تھے جو یہ اقرار کر رہے ہیں کہ اُن کی حکومت نے جو کچھ کیا، وہ غلط تھا۔ اُدھر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک سماعت کے دوران استفسار کیا ”دہشت کردوں کے ساتھ مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟۔ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ بھی دے دو، وہ بھی دے دو۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرو۔ اِس تمام کارروائی کے دوران ریاست کہاں ہے؟۔ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا۔ آج دہشت گرد 2 ماریں گے، کل کلاں 5 مار دیں گے۔ پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں“۔ جسٹس صاحب دبنگ آدمی ہیں اور جو کچھ اُن کے مَن میں ہوتا ہے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اُنہوں نے بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ریاست کہاں ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا ایک ٹولہ (جو مکمل طور پر گمراہ ہو چکا ہے) کیا حکومتی طاقت اُن سے نپٹ نہیں سکتی؟۔ آخر کون سی ایسی حکمت یا مجبوری آڑے آرہی ہے جو اِس ٹولے سے آہنی ہاتھوں سے نہیں نپٹا جا رہا۔ اگر ایک جماعت محض اِس لیے اے پی سی میں شرکت نہیں کر رہی کہ وہ دہشت گردوں کے خوف سے لرزہ براندام ہے تو کیا حکمران پوری قوم کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے؟۔ کیا صرف اِس لیے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہیں کیا جا رہا کہ ایک سیاسی جماعت اِس آپریشن کی مخالف ہے؟۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply