ٹرانس جینڈر ازم کا فراڈ/ہمایوں احتشام

اگر ایک ستر سالہ بوڑھا شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ سولہ سال کا لڑکا ہے۔ اس کو سولہ سال کا ہی سمجھا اور پکارا جائے تو یہ بات مغالطے پر مبنی ہے۔ یہ شخص نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ کیونکہ یہ شخص اپنی جسمانی ساخت، خلیوں کی نشوونما کی رفتار، زندگی کے تجربات، چہرے کی بناوٹ اور گفتگو کے اعتبار سے ستر سال کا ہی محسوس ہورہا ہے۔ اگر عام لوگ یا عوام الناس اس کو ستر سال کا کہنے کی بجائے سولہ سال کا کہیں گے تو عام لوگوں کی نظر اور دماغی صلاحیت کی صحت پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔

ایک انسان اٹھ کر دعویٰ کرے کہ وہ بھیڑیا، بلی، ڈوگ یا پانڈا ہے اور اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے وہ بین السطور جانوروں کی آوازیں نکال کر فلاں جانور ہونے کی بھونڈی نقالی بھی کرے تو کیا ہم اس کے اس دعوے کو فقط اس لئے سچا مان لیں کہ چونکہ وہ شخص خود کو جانور کہہ رہا ہے تو اس کو جانور ہی مانا جائے اور اس کے اس زہنی مرض کو نارملائز کرنے کے لئے اسے بطور جانور ہی ٹریٹ کرنا شروع کردیں؟ اب چونکہ وہ شخص تو کسی زہنی عارضے یا demonic possession میں ہے، لیکن جو شخص اس کو بطور جانور ٹریٹ اور عزت دے رہا ہے، کیا اس کی زہنی حالت مشکوک نہیں ہوگی ؟

اگر تامل ناڈو یا برونڈی کا ایک سیاہ فام اٹھ کر دعویٰ کرے کہ وہ رنگ اور نسل کے اعتبار سے قفقاز سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو سفید فام پکارا اور سمجھا جائے اور وہ رنگ کو سفید کرنے والی کریموں کا استعمال کرکے رنگ گورا بھی کرلے۔ جبکہ اس کے چہرے کے فیچرز، مصنوعی رنگ، جسمانی ساخت اور کروموسومز اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ یہ قفقاز کا سفید فام نہیں ہے۔ تو اس کو تامل ناڈو کا سیاہ فام ہی پکارا جائے گا۔ خواہ یہ شخص جتنی مرضی سرجریاں اور مینٹل تھیراپیاں کروا لے۔ تاہم اس کو سفید فام کہنے والے لوگ زہنی عوارض کا شکار سمجھے جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسے ہی ٹرانس جینڈرز کا مسئلہ ہے۔ ایک بائیولوجیکل مرد یا بائیولوجیکل عورت ہمیشہ مرد اور عورت ہی رہتے ہیں۔ ایک مرد عورت میں اور ایک عورت مرد میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ مثلاً عورت اور مرد کی جسمانی ساخت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مرد کے دماغ کا وزن عورتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ مردوں کا ڈھانچہ عورتوں سے بڑا ہوتا ہے۔ مردوں کے ہاتھ پاوں کی لمبائی اور قد عورتوں سے عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی جین میں پائے جانے والے کروموسوم مرد اور عورت ہونے کو ڈیفائن کرتے ہیں۔ اب ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کے کروموسوم مردانہ ہوں، اس کی جسمانی ساخت مردانہ ہو، اس کے دماغ کا وزن عورتوں سے زیادہ ہو، اس کے سوچنے کا انداز عورتوں سے مختلف ہو، اس کے جسم کے ساتھ مردانہ اعضا اٹیچ ہوں ( سرجری کو عام زبان میں دوائیوں سے دبایا ہوا پھوڑا کہا جاتا ہے)۔ فقط اس کے چند اضطراری خیالات کی بناء پر اس کو عورت کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اب ایک شخص حلیے، جسمانی ساخت، جنسی اعضا، آواز کی ہیئت اور بیشمار دوسروں پہلووں کی مناسبت سے مرد معلوم ہورہا ہے، کیا اس کو فقط اس کے جینڈر ڈسفوریا کے عارضے کی بناء پر عورت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اب اگر لوگ ایسے مرد کو She/Her کے پروناونز سے مخاطب کریں اور اسے خاتون قرار دیں تو ایسے لوگوں کی زہنی صحت پر شک کیا جانا حق بجانب ہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply