مطالعات: پیٹر ٹیلر،دہشت گردی اور مذہب

نامور صاحب طرز ادیب ،نقاد جناب ہاشم خان کی یہ تحریر ان سے شکریہ کے ساتھ شائع کی جارہی ہے،دہشت گردی اور مذہب کو جس طرح مکس کرکے پیش کیا جاتا ہے، ان مغالطوں کا پردہ اٹھاتی ہوئی تحریر۔

Advertisements
julia rana solicitors

مطالعات: پیٹر ٹیلر،دہشت گردی اور مذہب
محمد ہاشم خان
بہت پہلے سن ۲۰۰۰میں ایک کتاب پڑھی تھی ۔نام ہے States of Terror: democracy and political violence کتاب کے مصنف پیٹرٹیلر ہیں جو بی بی سی کے انعام یافتہ صحافی اور دستاویزی فلم ساز ہیں۔یہ کتاب مجھے دہلی (ہندوستان) کے سنڈے مارکیٹ میں ملی تھی ،ساتھ میں دو اور کتابیں بھی ہاتھ لگیں۔۔بہت سستے میں ۔ ان دو کتابوں کےنام بھی بتاتا چلوں ، گفتگو پھر کبھی اگلے موڑ کے لئے ادھار چھوڑ رکھتا ہوں۔جو دو اور کتابیں ہاتھ لگیں ان میں اینڈریو گوورس اور ٹونی واکر کی مشترکہ تصنیف Behind the myth: Yasser Arafat and the Palestinian Revolution اور دوسری کتاب تھی Partition of India: Legend and Reality۔ اس کتاب کے مصنف ایچ ایم سیروائی(ہرمس جی مانک جی سیروائی)ہیں۔تو یہ تین کتابیں ایک ساتھ ہاتھ لگیں۔ان تین کتابوں کے مطالعے سے دو بڑے مغالطے واضح ہوئے ۔ ایک مغالطہ دہشت گردی،حریت،جمہوریت اور سیاسی تشددبطورآئینی جوازکےحوالے سے تھا اور دوسرا مغالطہ تقسیم ہند کا اصل ذمہ دار کون تھا۔سیروائی نے اپنی کتاب میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ تقسیم ہند کا ذمہ دار محمد علی جناح نہیں بلکہ کانگریس قیادت کا غیر مرئی یا ابہامی تعصب تھا۔سیروائی نے “Latent Bias” لفظ استعمال کیا ہے۔اس کتاب پر پھر کبھی بات کروں گا،فی الحال گفتگو پیٹر ٹیلر کی کتاب تک محدود رکھتا ہوں۔
یہ کتاب ان دنوں زیر مطالعہ تھی جب نائن الیون کا سانحہ رونما نہیں ہوا تھااورنہ ہی سیموئل ہنٹنگٹن کی Clash of civilization کا کوئی غلغلہ تھا,فوکویاما کی The End of History کا شور بھی کچھ کچھ مدھم ہورہا تھالیکن ٹافلر کی تھرڈ ویو ہرجگہ موجود تھی ،اردو ہمیں کم اور انگریزی تھوڑی تھوڑی آتی تھی(غلط مت سمجھئے گا آج بھی وہی حال ہے۔۔چونکہ ان دنوں نیا نیا ’جوان‘ ہوا تھا،جوش و جذبے سے بھرپوراورنیانیا صحافی ’بنا‘تھا۔اخبار کے مالک کے علاوہ پوری دنیا ہیچ تھی،سب کیڑے مکوڑے نظرآتے تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ کیڑے مکوڑے ہی نظرآرہے ہیں، یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے ڈارون کے بقائے اصلح نظریے کو روند رہے ہیں اور ہم بزعم خویش روحِ ساعت کو گرفتار کرنے والے اس نظریئے کو استحکام بخش رہے ہیں۔بہرحال ان دنوں چونکہ پوری دنیا ہیچ تھی اورپوری دنیا کوزیرنگیں کرنا تھا (کیوں کرنا تھا خدا معلوم،لیکن اس تسلط میں اسلام کی بالا دستی بہرحال شامل نہیں تھی کہ میں راہ راست سے بھٹک چکا تھا،ابھی بھی بھٹکا ہوا ہی ہوں۔گم کردہ راہ،نہ کوئی منزل،نہ کوئی پتہ ،نہ کوئی احساس اور نہ ہی کوئی احساس زیاں،بس ایک بے حسی کی ڈور ہے جو بے سمت کھینچے لئے جارہی ہے)اس لئے ملکی وعالمی سیاست ، اقتصادیات، گلوبل اکانومی کا جبر اورگلوبلائزیشن کے نام پر ’لوکلائزیشن ‘ وغیرہ کا فریب سمجھنے کی کوشش کرتا تھا ۔ ۲۰۰۱ میں نیٹ کی سہولت میسر نہیں تھی اور اگر کبھی کچھ پیسے ہاتھ آگئے(((کچھ پیسے کیا ،ایک ہزار روپیہ مشاہرہ،جس میں سے چار سو روپیہ مکان کا کرایا اور باقی چھ سو میں پورے ماہ کی بدن مفلسی،شب گزیدگی،کرمک نیم شبی کی تسکین،خواہشوں کی اذیت اور نارسائیوں کا سوہان۔ہے اور نہیں ہے کی کشمکش میں زیست کرتا ہوا ذہن آج بھی لاحاصلی کے عذاب کو سرکرنے کی کوشش میں پیکار ہے ))) اور کسی سائبر کیفے میں جاکر بیٹھ گئے تو ایک تصویر اوپن کرنے میں پورا وقت نکل جاتا تھا اور چالیس روپئے بھی ۔افسوس وقت اور پیسے کے ضائع ہونے کا نہیں ہوتا تھا۔افسوس تصویر کے عریاں نہ ہونے کا تھا ۔خیر اب ان حسرتوں کو کیا شمار کریں جنہوں نے جگہ جگہ عریاں کیا اور ان ’ہین بھاؤناؤں/محرومیوں‘ کا کیا گلہ جنہوں نے قاعدے سے جوان ہی نہیں ہونے دیا۔میرے اندر کا بچپنہ انہیں محرومیوں کی بدولت زندہ ہے۔تو پتہ یہ چلا کہ محرومیوں کے بھی کچھ فوائد ہیں۔محرومیوں کے فوائد پر پھر کبھی بات ہوگی۔
تو میں بات کررہا تھا پیٹرٹیلر کی کتاب کی۔ اور یوں پیٹرٹیلر کی کتاب کی ورق گردانی سے ’دانشوری ‘کے سفرکا رسمی آغاز ہوا،مجھے لگا اب مجھے کوئی دانشور بننے سے نہیں روک سکتا(کہنے سے تو ابھی بھی کوئی نہیں روک سکتا)۔ایک ایسے وقت میں جب صرف وقت ہی وقت تھا۔اسٹیٹس آف ٹیرر،کیمبرج ڈکشنری،ایک نوٹ بک اور ایوری ڈے ڈرائی ملک پاوڈر سے بنی ہوئی دودھ والی چائے(پانچ روپئے کا پاؤچ چار پانچ دن چل جایا کرتا تھا۔چھ سو روپے میں ماہ گذرجاتے تھے اور گذر ہی جانا تھا کہ بات ماہ کی تھی ماہ رو کی نہیں۔) قصہ کوتاہ یہ دانشوری کے کل اسباب تھےاور قصہ مختصر جو وقت ہم پیسوں سے برباد کرسکتے تھے وہ کتابوں نے برباد کردیئے۔پیٹر ٹیلر کی کتاب اس وقت میرے پاس موجود نہیں (ایک صاحب لے گئے تھے ۔۔آگے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مانگی ہوئی کتابیں واپس نہیں کرتے) اس لئے یادداشتوں کی بنیاد پر ایک واقعہ نقل کروں گا۔1970میں بلیک ستمبر نام سے ایک تنظیم بنائی گئی ۔ جس کا ماسٹرمائنڈ مبینہ طور پر حسن علی سلامہ تھا۔ اس تنظیم نے ۱۹۷۲ کے اولپمک (میونخ ،ویسٹ جرمنی) میں ایک آپریشن کیا جس میں اسرائیلی ٹیم کے ۱۱ارکان مارے گئے۔ ٹیلر نے اپنی اس کتاب کی تصنیف کے دوران دو لوگوں سے ایک ساتھ ملاقات کی۔مہلوک ہونے والے ایک اسرائیلی کھلاڑی /کوچ کی لڑکی اوربلیک ستمبرکے ایک رکن کے بیٹے دونوں کو ایک میز پر بٹھایا اور دونوں سے میونخ آپریشن پر بات کی۔ دونوں نے مصافحہ کیا اور دونوں ماضی میں گذرے ہوئے اس المناک سانحے پر بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے کہ ان دونوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دونوں پرامن زندگی جینا چاہتے ہیں۔اسرائیلی لڑکے کو معلوم ہے کہ سامنے بیٹھی لڑکی کے باپ نے میرے باپ کو قتل کیا تھا اور اس لڑکی کو معلوم ہے کہ میرے با پ نے ایسا کیوں کیا تھا۔دونوں نے اس واقعے پر غالباً کسی ’ندامت‘ کا کوئی اظہار نہیں کیا تھا لیکن ایک بات دونوں نے واضح طور سے کہی تھی کہ وہ ایک پرمن زندگی جینا چاہتے ہیں۔بہت خون خرابہ ہوچکا ہے۔لڑکے کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ’’مجھے ان کے والد سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نفرت ہے،جو گذرگیا ہے اس پر اب میں نہیں سوچنا چاہتا‘‘ اور اسی سے ملتے جلتے خیال کا اظہارلڑکی نے بھی کیا تھا۔(پورا واقعہ کتاب میں درج ہے، جن کو کتاب میسر ہو وہ حوالہ چیک کرسکتے ہیں اورمجھ سے کہیں کوئی غلطی ہورہی ہو تو اس کی نشاندہی کرسکتے ہیں کہ میں یاد داشت کی بنیاد پر یہ رقم کررہا ہوں، من و عن واقعہ نہیں۔) کتاب میں یہ واقعہ بہت خاص اہمیت کا حامل ہے۔دو طرح سے،ایک تو یہ پیٹرٹیلر کے کمٹمنٹ،محنت ،لگن اورصحافتی دیانت داری کو ظاہر کرتا ہے کہ اس نے ایک بڑے سانحے کے دو متاثرین کو ایک ٹیبل پر جمع کیا اوربراہ راست انکے بیانات و احساسات کو قلمبند کیا۔ دوم یہ کہ ایک واقعے سے جڑے ہوئے چندمتاثرہ افراد کے خیالات اجتماعی طور پر کوئی معنیٰ نہیں رکھتے بالخصوص جہاں حکومتیں ملوث ہوں۔حکومتوں کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں اوروہ چند لوگوں سے نہ بنتی ہیں نہ ختم ہوتی ہیں۔
اب آتے ہیں دہشت گردی کی طرف ۔دہشت گردی ایک گلوبل اکانمک پیکج ہےجو خواہش رکھتا ہے اسے بیچ دیا جاتا ہے۔کسی بھی ملک میں دہشت گردی خواہ وہ داخلی ہو یا خارجی حکومتی سطح پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔صرف ایک چین(سلسلے) کو پکڑلیجئے باقی تمام کڑیاں اس سے جڑتی جائیں گی۔ باہرسے ملک میں غیر قانونی ہتھیاریا دھماکہ خیز مادے اندر کیسے آسکتے ہیں؟کوئی ایک ہاتھ اس میں انوالو نہیں ہوتا ۔یہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہہ کر بم پھوڑنے والے کو نہیں معلوم کہ وہ کس کا آلہ کار بنا ہےاور نہ ہی اس آدمی کو معلوم جس نے اس نوجوان کو جنت میں ستر حوریں دلائی ہیں ۔ نوجوان کو مولانا نے پیسہ دیا ،جنت اور حوروغلمان دیئے،مولانا کوبادشاہ سلامت نے پیسے اور گاڑی بنگلے دیئے اور بادشاہ کو؟ بادشاہ کو اس سے کیا ملنے والا ہے؟ وہ ایسا کیوں کررہا ہے یا کیو ں کروارہا ہے؟ دہشت گردی معیشت سے جڑی ہوئی چیز ہے مذہب سے نہیں۔مذہب کو جس طرح دیگر بیشتر معاملات کو اکزیکیوٹ کرنے کے لئے ’استعمال‘کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح یہاں بھی اکزیکیوٹ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی کہ دہشت گردی کے پنپنے کی اصل وجہ مذہب نہیں ہےبلکہ معاشی جبر ہےاور اس جبر کو مسلط رکھنے کے لئے مذہب کو استعمال کیا جارہا ہے۔ مذہب سے بڑی (بُری نہیں) دینی انڈسٹری اس وقت کچھ اور نہیں۔ہم سب بیچ رہے ہیں ،روز بیچتے ہیں،جب کسی معاملے میں پھنستے ہیں تو مذہب میں پناہ تلاش کرنے لگتے ہیں،جواز ڈھونڈنے لگتے ہیں،اپنے حساب سے تشریحات کرنے لگتے ہیں۔فساد ان علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں غربت ہے اور ’مذہبی ‘ بھی انہیں علاقوں میں زیادہ سرگرم پائے جاتے ہیں جہاں غربت ہے ۔ غریب افراد کی برین واشنگ بہت آسان ہے اور برین واشنگ کے لئے پیسے سے بہتر کوئی دوا نہیں۔میں نے مذہب سےے مایوس ہوکرخودکشی کرنے والوں کو نہیں دیکھا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا تو پلیز بتائیے گا لیکن ہاں معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔ ودربھ میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات اس امر کے بین ثبوت ہیں۔ بم سے خود کو اڑادینا جہاد نہیں خودکشی ہے اور خودکشی حرام ہے اور اسے جہاد کا نام اس لئے دیا جارہا ہے تاکہ مرنے والے کو یقین رہے کہ وہ جنت میں جارہا ہے جہاں حوروغلمان اور لولو مکنون اس کے منتظر ہیں۔اب اس میں مذہب کا کیا قصور؟ قصور ان افراد کا ہے جنہوں نے مذہب کو غلط استعمال کیا ہے اور ایسے لوگوں کا مواخذہ بھی بہت سخت ہوگا
دنیا کی کل آبادی سات ارب سے زائد ہے۔سعودی عرب کی آبادی کم و بیش تین کروڑ ہے۔ خریدے ہوئے اسلحوں اور خودکش بمباری سے یہ تین کروڑ لوگ نہ تو پوری دنیا پرقابض ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اسلام کو “purify” کر سکتے ہیں۔اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ چودہ سو سال ہوگئے ہیں اب تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہوا ہے۔اور فی الحال ایسے کوئی آثار دکھائی بھی نہیں دے رہے ہیں ۔آبادی اور جغرافیہ دونوں اعتبار سے اسلام اس وقت اقلیت میں ہے اور پہلے بھی اقلیت میں ہی تھا۔سو یہ بات بھی قرین عقل نہیں کہ یہ دہشت گردانہ واقعات اور یہ خود کش دھماکے اسلام کو غالب کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں۔نبی ﷺ کا ایک فرمان ہے۔کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب قاتل کو نہیں معلوم ہوگا کہ اس نے قتل کیوں کیا اور مقتول کو یہ نہیں معلوم ہوگا کہ اسے قتل کیوں کیا گیا ۔۔یہ کچھ ایسا ہی وقت۔۔قاتل کا ریموٹ کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے کسی کو نہیں معلوم۔بڑے مسائل بہت حساس ہوکر نہیں بہت بے حس ہوکر حل کئے جاتے ہیں۔ایک بے حسی دہشت گردی ہے اور ایک بے حسی دہشت گردی کا علاج ہے۔دونوں صورتوں میں یہ عوام اور ان کی حکومتوں کو طے کرنا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply