افغانستان دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے

افغانستان دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کرے
طایر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان ،جماعت الاحرار سمیت پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنے ،اور اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی قیادت افغانستان میں پناہ گزین ہے۔اے پی ایس پر ہونےو الے حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہی ہوئی تھی اور کارروائی کے دوران میں دہشت گرد افغانستان میں اپنے کمانڈروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ملا فضل اللہ سمیت پاکستان کو مطلوب کئی دہشت گرد افغانستان کے اندر پناہ گزین ہیں۔ پاکستان کے بار بار کہنے کے باوجود افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہ روک سکا۔بلکہ دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانے بھی افغانساتن سے جا ملتے ہیں۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ بے شک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی پلاننگ بھارت اور افغانستان میں ہو رہی ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں،افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو یہاں شہروں میں رہائش و معاش کی سہولت دیتے ہیں اور انھیں ہدف تک چھوڑ کر آتے ہیں۔جیسے لاہور میں مال روڈ پر ہونے والے خود کش حملہ آور کا سہولت کار مقامی تھا جسے سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر لیا ہے اور اس کی تصاویر میڈیا کو جاری کی ہیں۔دہشت گردی کی کئی ایک بیک وقت وجوھات ہیں جن کا تدارک بہر حال ریاستی سطح پہ نیا بیانیہ ترتیب دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان کو بھارت و عالمی پروپیگنڈا سے یہ بات باور کرائی جا رہی ہے کہ افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار پاکستان ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے افغانوں کی خاطر اپنی معاشرتی و معاشی زندگی کو داو پر لگا دیا ہے۔درگاہ لعل شہباز قلندر میں خود کش دھمانکے کے ردعمل میں پاک فوج نے افغانستان کے اندر پہلی جارحانہ ٹارگٹڈ کارروائی ہے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا ہے۔اس ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران میں پاکستان میں دھماکے کرنے والی دہشت گرد جماعت،کالعدم جماعت الاحرار تربیتی مرکز اور چار کیمپوں کا نشانہ بنایا گیا۔جبکہ چمن بارڈر کو بھی بند کر کے یہ احکامات جاری کر دیے گئے کہ جو بھی سرحد پار اسے گولی مار دی جائے۔
قبل ازیں افغان سفارتی عملے کو جی ایچ کیو طلب کر کے 76 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے یامارنے کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کی جانے والی ٹارگٹڈ کارروائی کے بعد افغانستان کے دفتر خارجہ نے پاکستانی سفیر ابرار حسین کو طلب کرکے صوبہ ننگرہار کے ضلع لال پور اور مشرقی صوبہ کنڑ کے ضلع سرکانو کے علاقوں میں ہونے والی سرحدی فائرنگ پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔افغان میڈیا نے سیکیورٹی فورسز کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی جانب سے راکٹ فائرنگ کے نتیجے میں 2 شہری ہلاک جبکہ 2 زخمی ہوئے تھے۔ننگرہار اور کنڑ میں سرحد پار سے مبینہ فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے پاکستانی سفیر سے وضاحت طلب کرلی۔افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر سے ملاقات میں افغان نائب وزیر خارجہ نے حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔حکمت خلیل کرزئی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں چھپے دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔نائب وزیر خارجہ نے پاکستان میں 150 افغان شہریوں کی گرفتاری اور چمن، طورخم سرحد کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغان شہریوں کی رہائی جبکہ دروازے کھولنے کا مطالبہ کیا۔جس پر کابل میں موجود پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام مطالبات کو پاکستان کی اعلیٰ حکام تک پہنچائیں گے۔افغان نشریاتی ادارے طلوع کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی کا معاملہ افغانستان کے صوبے ننگرہار کے گورنر گلاب منگل کے بیان کے بعد سامنے آیا۔
جمعرات (16 فروری) کو گورنر ننگرہار نے اپنے بیان میں دعویٰ تھا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے ضلع لال پور میں 200 میزائل داغے گئے۔یہ بھی یاد رہے کہ جمعرات (16 فروری) کو حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پاک ۔ افغان طورخم گیٹ کو سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر غیر معینہ مدت تک بند کردیا گیا ہے۔پابندی کی وجہ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردی کی حالیہ لہر میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور وہاں موجود ان کی قیادت کے ملوث قرار دیا جاناہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی خبردار کیا تھا کہ ’دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہو رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم اس امر سے غافل نہیں کہ دہشت گردوں کے سہولت ہمارے اپنے شہروں میں ہی موجود ہیں دہشت گردوں کی قیادت اور منصوبہ ساز و تربیتی مراکز افغانستان میں۔ افغانستان کی قیادت کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ خطے کا امن ہی افغانستان میں امن کی ضمات ہے۔افغانی وزارت خارجہ پاکستانی سفیر سے وضاحتیں اور احتجاج کرنے کے بجائے دہشت گردوں کی سہولت کاری کا اعتراف کرے اور اپنی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے میں کرداد ادا کرے۔ نیز اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی معاشرے کا سکون تباہ کرنے والے افغان مہاجروں کو ان کے وطن واپس دھکیل دیا جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply