سانپ کا منکا۔۔۔ثنااللہ احسن

اس دنیا میں بے شمار ایسی اشیا اور مقامات ہیں جن پر ایک اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس اسرار کے پیچھے دراصل ان اشیا تک دسترس رکھنے والوں کی چالبازی اور عیاری کو زیادہ دخل ہے کہ ایسے لوگ ان اشیا کے خواص کو انتہائ بڑھا چڑھا کر اور ان کا حصول انتہائ مشکل اور تقریبا” ناممکن بتاتے ہیں تاکہ عام لوگ ان سے وہ اشیا منہ مانگے دام خرید لیں اور ان کا دال روٹی کا دھندا چلتا رہے۔ گیدڑ سنگھی جیسی نایاب اور پراسرار شے کے بارے میں ایک پوسٹ میں تفصیلی تحریر کر چکا ہوں کہ جس نے گیدڑ سنگھی سے متعلق تمام اسرار و رموز سے پردہ اٹھا دیا ۔ آج ہم سانپ کے منکے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اکثر جوگی اور سنیاسی اس منکے سے منسوب عجیب پرستانی قسم کی داستانیں اور جادو بھرے عقل و شعور سے ماورا واقعات سناتے ہیں – اب دیکھئے عبدالستار نامی ایک جوگی اس منکے کے حصول کا کیا طریقہ بتاتا ہے۔”
‎ہر سانپ تقریباً چار مہینے ریت اور مٹی میں رہتا ہے اور اِس کا زہر اسکے اوپر جمع ہوتا رہتا ہے جہاں ایک سخت گٹھلی سی بن جاتی ہے، جسے منکا کہتے ہیں۔ ایسے سانپ کو پکڑ کر مخصوص جڑی بوٹیوں سے بنا مشروب پلاتے ہیں، جسے پیتے ہی سانپ قے میں اپنا منکا باہر نکال دیتا ہے۔ سانپ کا یہ منکا ہر جوگی کی زندگی کی ضمانت ہے۔
‎سانپ کی پوجا سے متعلق ستار نے بتایاکہ صرف کالے سانپ کی پوجا کی جاتی ہے جو شنکر (ہندو دیوتا) کے گلے میں ہوتا ہے۔
۔”اس کا حصول انتہائی مشکل ہے اور ایسی لچھے دار باتوں میں اس کے عجیب و غریب فوائد بیان کرتے ہیں کہ سننے والا اس کو منہ مانگے دام خریدنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اسلام آباد کے قریب جوگیوں کی ایک بستی ہے جہاں ایک شوکت نامی جوگی نے منکے کے بارے میں انکشافات کئے۔
اسلام آباد کی اس بے نام بستی کے ہر مرد کے پاس ایک گٹھڑی ہے
جس میں ہڈیاں، جڑی بوٹیاں، مختلف رنگوں کے سفوف، نگینے، پٹاریوں میں بند سانپ اور ایسی کئی اشیاء ہیں جن کے خواص سن کر اچھے اچھوں کا ہاتھ جیب میں چلا جاتا ہے- عورت کا دل نرم کرنے کا سفوف، دشمن کو زیر کرنے کا نسخہ، جسمانی عارضوں کا علاج، معشوق کو قدموں میں گرانے کا فارمولا، غرض ہر وہ خواہش جس کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا ہو، اس گٹھڑی سے نکلی ہوئی کسی چیز کے استعمال سے پوری ہو جاتی ہے۔
لیکن صرف اتنا بتانے سے ان اشیاء کی پر اسراریت نہیں کھلتی- شوکت ہی کی زبانی سنئے: “’چالیس دن تک رات بارہ بجے چالیس مرتبہ یہ ورد پڑھیں ’ارد وِرد گِرد جس کو پکاراں وہ میرے پاس‘ اور گیدڑ سنگھی پر پھونک دیں- چلہ ختم ہونے کے بعد گیارہ روپے کی نیاز دیں اور بس، ہر رکا ہوا کام ٹھیک ہو جاۓ گا، ہر مشکل آسان ہو جاۓ گی اور ہر انسان اور جانور آپ کو فائدہ ہی پہنچاۓ گا نقصان نہیں‘”۔ اسی طرح منکنا بھی زہر چوسنے کے علاوہ من کی مرادیں بھی پوری کرتا ہے- لیکن پہلے شوکت یہ بتاتا ہے کہ منکنا آتا کہاں سے ہے- ’” نر اور مادہ سانپ جب پہلی مرتبہ ملاپ کرتے ہیں تو اپنے حلق سے منکا اگل دیتے ہیں- نر کا منکا بیضوی ہوتا ہے جبکہ مادہ کا منکا گول ہوتا ہے اور زیادہ پر تاثیر- کسی شخص سے کوئی کام ہو یا اسے دل کے قریب لانا ہو تو اس کے پاؤں تلے کی مٹی لے کر ایک ڈبیا میں منکے کے ساتھ رکھ دیں اور پھر اس شخص کا دل بدلتے ہوۓ دیکھیں “۔ شوکت کی چھ شیشیوں میں ہر مرض کا ہی علاج موجود ہے- مردانہ کمزوری، احتلام، جوڑوں کا درد، دانت کا درد، ذیابطیس، بواسیر، کھانسی، بخار، لیکوریا وغیرہ وغیر- یہ لیکوریا کیا ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا- شوکت نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوۓ جواب دیا: ’”جو دھی بھین (بیٹی بہن) کو ہو جاتا ہے-”
چلتے ہوۓ میں نے شوکت کو کچھ پیسے دئے جنہیں لینے کے بعد اس نے مزید ایک ہزار کا تقاضا کیا- جب میں نے اس پر توجہ نہیں دی تو اس نے مجھ سے دو منٹ بیٹھنے کو کہا- میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، مجھ سے ایک ہزار روپے کا نوٹ لے کر اسے چار چھ تہیں دے کر میری ہتھیلی پر ایک منکنے کے ساتھ رکھا اور پھر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور ایک مریل سا سانپ میرے ہاتھ پر رکھ کر اسے میرے دوسرے ہاتھ سے ڈھک دیا ۔ میری ساری مرادیں پوری کروانے کے وعدے کے ساتھ اس نے کچھ دیگیں نیاز دینے کی بات کی اور جوگیانہ رعب کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ بولو ہاں یا نہ؟ میری نظریں سارا وقت اس کے ہاتھوں پر تھیں- مریل سانپ سے تو مجھے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا لیکن یہ فکر ضرور تھی کہ اگر اس پہلوان نما جوگی نے کسی کرتب سے یہ نوٹ غائب کر دیا تو میں بی بی سی کے حساب کتاب والوں کو کیسے سمجھا پاؤں گا؟
میں نے اپنا ہاتھ چھڑا کر سانپ کو دم سے پکڑ کر اس کے حوالے کیا، ہزار کا نوٹ اپنی جیب میں رکھا اور اسے اسی کی بتائی ہوئی اصلی جوگی کی تعریف یاد دلائی- اس نے اپنا ہاتھ ایک دم اپنے ماتھے پر مارا اور کچھ دیر بڑبڑاتا رہا- پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا: ’قبولیت کا ٹیم تھا، آپ کی جندگی بن سکتی تھی لیکن خیر نصیب اپنا اپنا( بی بی سی کے ایک رپورٹر کی رپورٹ سے ماخوذ)۔
عجیب بات یہ ہے کہ خود جوگی لوگ بھی گیدڑ سنگھی اور منکے کے بارے میں مختلف اور متضاد باتیں بتاتے ہیں- ان تفصیلات کا انحصار سننے والے کی ظاہری حیثیت پر ہوتا ہے- کس طرح کا انسان کس قسم کے جواب سے مطمئن ہو گا یہ بات گلی گلی گھومنے والے جوگیوں سے زیادہ کون جان سکتا ہے! لیکن پڑھے لکھے لوگ عام طور پر ان چیزوں کو ڈھونگ اور فریب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے-
سانپ کا منکا:
سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ جس طرح انسانوں اور جانوروں میں بیماری کے طور پر پتھری پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح سانپ کے بھی ایک پتھری پیدا ہوجاتی ہے جو کہ سانپ کا منکا کہلاتی ہے۔ عرب کے علمائے حکمت و روحانیت نے ان پتھروں پر کافی تحقیقات کی ہیں‘ جو حیوانات میں سے نکلتے ہیں۔ ان خاص پتھروں پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں لیکن ان میں سے زیادہ تر ضائع ہو گئیں‘ تاہم بعض اب بھی موجود ہیں‘ مثلاً کتاب ”العجائب المخلوقات“ اور کتاب ”حیات الحیوان“ میں جانوروں سے نکلنے والے ان خاص پتھروں کے بارے میں خاصی تفصیلات موجود ہیں۔ ”العجائب المخلوقات“ میں سانپ کے منکے کا تذکرہ کچھ یوں ہے: ”حجرالحیتہ: اس کو فارسی میں مارمہرہ کہتے ہیں۔ اس کی صورت مانند ریٹھے کے ہوتی ہے اور اکثر سانپوں کے سر پر نمودار ہوتا ہے۔ اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ جسے سانپ نے کاٹا ہو‘ وہ شخص اگر اس پتھر کو پانی یا دودھ میں گھس کر کاٹے گئے حصے پر رکھے تو فوراً چسپاں ہو گا اور سارے زہر کو جذب کر لے گا۔ شیخ الرئیس نے لکھا ہے کہ یہ پتھر گزیدگی مار کو دفع کرتا ہے۔ جالینوس نے کہا ہے کہ یہ تاثیر ایک مرد راست گو سے میں نے سنی ہے۔ اس کے علاوہ اور لوگ راوی ہیں کہ اس پتھر میں خود زہر ہوتا ہے۔ بعض سیاہ رنگ اور بعض خاکستری رنگ کے ہوتے ہیں۔ جس پتھر میں خطوط ہوتے ہیں وہ فراموشی کی دوا ہے۔ باقی ہر قسم اس مہرہ مار کے سنگ مثانہ کے حق میں مفید ہے۔“ عرب کی نایاب قدیم کتابوں کا ذخیرہ جب یورپی اقوام کے ہاتھ لگا تو انہیں ان خاص جانوروں کے پتھروں کا علم پہلی بار پڑھنے کو ملا اور انہوں نے ان قدیم عربی کتابوں کا ترجمہ لاطینی اور انگریزی زبان میں کیا۔ ان کتابوں میں بھی سانپ کے سر میں نکلنے والے پتھر پر کافی معلومات لکھی ہیں اور سانپ کے اس پتھر کی مختلف تصاویر اور ڈایاگرامز بھی دی گئی ہیں۔ سانپ کے منکے کو لاطینی زبان میں گلین نیڈر کہتے ہیں اور انگریزی میں اسنیک اسٹون اور اسنیک پرل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ پتھری سانپ کے جسم کے کس حصے میں پیدا ہوتی ہے؟ جناب یہ سانپ کے سر میں پیدا ہوتی ہے۔ سانپ کے منہ میں تالو میں زہر کی ایک تھیلی ہوتی ہے جو کہ سانپ کے اگلے دو نوکیلے اور سرنج کی سوئی کی طرح کھوکھلے دانتوں میں کھلتی ہے۔ جب سانپ کسی کو ڈستا ہے تو اپنے یہ نوکیلے دانت اس کے جسم میں داخل کردیتا ہے ، دبائو پڑنے سے تھیلی دبتی ہے اور زہر ان کھوکھلے دانتوں سے ہوتا ہوا شکار کے جسم میں داخل ہو کر اس کے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے شکار بے حس یا بے ہوش ہوجاتا ہے اور سانپ اس کو آرام سے نگل لیتا ہے۔ جنگل میں اکثر سانپ چوہے، مینڈک، چمگادڑیں یا پرندوں وغیرہ کو پہلے ڈس کر بےہوش کرتا ہے اور پھر نگل جاتا ہے۔ قدرت نے سانپ کو یہ زہریلے دانت اس لئے بخشے ہیں کہ سانپ اپنے شکار کو پکڑ یا چبا نہیں سکتا۔ اس کے شکار کو ثابت نگلنے کی صورت اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے کہ جب شکار بے حس و حرکت ہو۔
اب اگر سانپ کا یہ زہر استعمال نہ ہو تو اس کی تھیلی میں موجود زہر بڑھتا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ تھیلی پھٹ جائے گی اور سانپ اپنے ہی زہر سے ھلاک ہو جائے گا۔ لیکن جنگل میں موجود سانپ اپنی خوراک یا دفاع کے لئے جانوروں کو ڈستے رہتے ہیں اس طرح ان کے زہر کی مقدار نارمل رہتی ہے۔ سانپوں کی کچھ اقسام ایسی ہوتی ہیں کہ جن میں زہر زیادہ مقدار میں پیدا ہونے لگتا ہے یعنی کہ اسےآپ ایک بیماری کہہ سکتے ہیں۔ اب زہر کی یہ زائد مقدار تھیلی میں بھرتے بھرتے ایک دانے کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔ جیسے جیسے زہر بڑھتا جاتا ہے یہ دانہ حجم میں بڑھتا جاتا ہے اور پتھر کی طرح سخت ہوتا جاتا ہے۔ بالآخر یہ اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ سانپ کے سر میں اس کا ابھار صاف محسوس ہوتا ہے۔ سپیرے لوگ اس ابھار کا مطلب جانتے ہیں اور وہ اس سانپ کو پکڑ کر تیز دھار چاقو یا بلیڈ سے سانپ کے سر میں ایک ہلکاسا چیرا لگا کر یہ پتھر نکال لیتے ہیں۔ سانپ کا منکا نکالنے میں یہ احتیاط رکھی جاتی ہے کہ سانپ منکا نکلنے کے بعد مرنے نہ پائے۔ اس کام کے لئے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جوگیوں اور سنیاسیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر منکا نکالنے کے دوران سانپ مر جائے تو وہ منکا بجائے مفید ہونے کے انتہائ سخت نحوست کا باعث ہوگا اور جس کے پاس وہ منکا ہوگا وہ شخص سخت نحوست کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔
جس وقت یہ منکا سانپ کے سر سے نکالا جاتا ہے اس وقت یہ لمبوترا اور لجلجا سا ریٹھے کی شکل کاہوتا ہے ۔ باہر کی ہوا لگنے سے یہ سخت ہو کر پھیل جاتا ہے اور چپٹی سی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ وزن میں بالکل ہلکا ہوتا ہے اور دیکھنے میں ایک پلاسٹک کا ٹکڑا سا لگتا ہے۔
اس منکے میں سانپ کے زہر کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر اس منکے کو سانپ کی کاٹی جگہ پر لگا دیا جائے تو یہ اس زخم سے چپک جاتا ہے اور زہر جذب کرنا شروع کردیتا ہے۔ تمام زہر جذب کرنے کے بعد یہ خودبخود الگ ہو کر گر پڑتا ہے۔ اگر اس کو دودھ میں ڈال دیا جائے تو جذب شدہ زہر کو دودھ میں چھوڑ دیتا ہے۔ جوگی اور سنیاسی اس سے مختلف کام لیتے ہیں۔ جوگی اور سنیاسی کبھی بھی کسی کو اصلی منکا نہیں دیتے بلکہ نقلی منکا دیتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو یہ منکا دے دیا تو یہ خفیہ رازعام ہو جائے گا اور ان کے علم اور منتروں میں کوئ اثر نہیں رہے گا۔ عام لوگوں کو کیونکہ اصلی منکے کی شناخت کا علم نہیں ہوتا اس کئے وہ اکثر ایسے جوگیوں اور سپیروں کے ہاتھ بیوقوف بنتے رہتے ہیں۔ یہ منکا جوگیوں اور سپیروں کی جان بچانے کے کام بھی آتا ہے کہ اگر کسی سانپ کو پکڑنے کے دوران کوئ سانپ ان کو ڈس لے تو یہ اسی منکے کے ذریعے اپنی جان بچاتے ہیں ۔
منکا حاصل کرنے کا طریقہ:
جوگی اور سپیروں کو منکے والے سانپ کی شناخت کا علم ہوتا ہے۔ اگر جنگل میں سانپ پکڑنے کے دوران ان کو منکے والا سانپ مل جائے تو یہ اس کے سر سے منکا نکال لیتے ہیں ۔ لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ لیکن منکے والے سانپ سے ایک خاص طریقے سے منکا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ ایک خاص سیاہ اور موٹے انتہائ زہریلےسانپ کو پالتے ہیں۔ اس سانپ کو ایک الگ اور محفوظ جگہ رکھا جاتا ہے اور اسے پینے کے لئے روزانہ دودھ دیا جاتا ہے۔ جب سانپ کو بغیر کسی جانور کو ڈسے روزانہ خوراک ملتی ہے تو اس کی تھیلی کا زہر کسی بھی جانور کو ڈسنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اور بڑھتے بڑھتے اس کے سر میں منکا بن جاتا ہے۔ ایک خاص وقت آنے پر جوگی انتہائ احتیاط سے سانپ کے سر میں چیرا لگا کر یہ منکا نکال لیتے ہیں اور سانپ کو دوبارہ جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سانپ کے سر میں چیرا لگا کر منکا نکالا جارہا ہے۔ جوگی حضرات اس کو مختلف عملیات اور منتر وغیرہ میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہر سانپ میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ جس طرح سمندر میں موجود ہزاروں سیپیوں میں سے کچھ میں موتی بنتا ہے اسی طرح منکا بھی ایک خاص طرح کے سانپ میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس پر جدید سائنسی طریقے سے تحقیق کی جا سکتی ہے کہ یہ کس نسل کے سانپ میں پیدا ہوتا ہے پھر اس سانپ کی افزائش نسل کر کے بڑی مقدار میں منکے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بالکل جس طرح پرل کلچر کے ذریعے سمندری سیپیوں سے موتی حاصل کئے جا رہے ہیں۔
سانپ کے منکے کے فوائد:
جوگی ، سپیرے اور علما روحانیات اس کے بے شمار فوائد بتاتے ہیں۔ علامہ دمیری نے کتاب الحیوان میں بھی اس کے بے شمار فوائد بیان کئے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ یہ مارگزیدہ کے زخم سے زہر جذب کرلیتا ہے اور انسان کی جان بچ جاتی ہے۔ ہے۔ اس خاص سانپ کے منکے کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ اگر سب لکھے جائیں تو اچھی خاصی کتاب بن جائے۔ مثلاً یہ منکا جس کے پاس ہو گا وہ ہر قسم کے مخفی برے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ دشمن اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے اور وہ حاوی رہے گا۔ یہ زہر کی طرح ہر قسم کی نحوست اور بداثرات بھی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ منکا کے حامل شخص پر کبھی کالاجادو اثر نہیں کرے گا۔ سانپ کا منکا انگوٹھی یا لاکٹ بنا کر پہننا یا جیب میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے صرف گھر میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اندھیری جگہ رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اسے ناپاکی اور چمڑے سے بنی چیزوں سے بھی دور رکھا جائے۔ ناپاکی اور چمڑے کی بو سے یہ خراب ہو سکتا ہے۔ اس منکے کو ایک چاندی کی ڈبیا میں کسی اندھیری اور خفیہ جگہ رکھنا چاہئے۔ جس کے پاس یہ ہو اسے چاہئے کہ ہر ہفتے اس کو دودھ میں ڈبو کر رکھےتاکہ اس میں جزب شدہ گندے اثرات اور گندی ہوا نکل جائے۔ اس کے بعد اسے دھو کر خشک کر کے دوبارہ چاندی کی ڈبیا میں محفوظ کردیا جائے۔ اگر کافی عرصے تک ایسا نہ کیا جائے تو منکا مردہ ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے۔
اصلی اور نقلی منکے کی پہچان:
آجکل جس طرح لوگ اصلی پتھروں کی پہچان نہیں رکھتے جب تک کہ آپ کو پتھروں کو جانچنے کا علم نہ ہو لوگ آپ کو قیمتی پتھروں کے نام پر بیوقوف بنا کر رقم لوٹتے ہیں اسی طرح نوسر باز اور جعلی جوگی و سپیرے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر کالا رنگ کر کے منکے کے نام پر بیچ دیتے ہیں۔ اصلی منکے کی پہچان یہ ہے کہ یہ سائز میں ایک یا ڈیڑھ انچ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس کی شکل بیضوی یا گول ہوتی ہے۔ وزن میں بہت ہلکا سا ہوتا ہے ۔ لیکن ان تمام خصوصیات کا حامل ایک پلاسٹک کا ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے۔ تو آئیے ہم آپ کو اصلی منکے کی شناخت کا ایک بہت ہی آسان اور تیر بہدف طریقہ بتاتے ہیں۔ اس کی جانچ کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ منکے کو اپنی زبان پر رکھئے۔ اصلی منکہ زبان پر رکھتے ہی زبان سے چپک جائے گا اور زبان کو چوسنے یا جذب کرنے لگے گا۔ بس اگر ایسا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ اصلی منکا ہے۔اگر اصلی منکے کو پانی میں ڈالا جائے تو پانی کے ننھے ننھے بلبلے بھی نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اصلی منکا مردہ بھی ہو جاتا ہے۔ ایسا منکا ہوتا تو اصلی ہے لیکن کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اس کے مردہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کو زیادہ عرصے تک دھوپ میں رکھا جائے یا کافی عرصے تک اس کو دودھ میں نہ ڈالا جائے۔
آجکل اکثر بھکاری سپیروں کا روپ دھار کر پھرتے ہیں جن کے پاس اصلی منکا ہونا ناممکن ہے۔ یہ منکا خاندانی سپیروں اور جوگیوں کے پاس ہوتا ہے۔ اکثر اصلی جوگی اور سپیروں میں شادی کی شرط بھی یہی ہوتی ہے کہ لڑکا پہلے منکا حاصل کرے۔ اسی طرح ایک اصلی جوگی یا سپیرا اس وقت تک مکمل طور پر اپنے پیشے کا ماہر نہیں مانا جاتا جب تک کہ وہ منکا حاصل نہ کر لے۔ یہ لوگ کبھی بھی منکے کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ صرف شدید ضرورت کے تحت ہی اس کو استعمال کرتے ہیں۔ معمولی سانپوں کے زہر کا علاج تو جوگی حضرات منتروں اور جڑی بوٹیوں سے ہی کردیتے ہیں بلکہ کچھ جوگی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو خود سانپ کے ڈسے زخم سے زہر چوس چوس کر تھوکتے جاتے ہیں اور مریض بھلا چنگا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر سانپ انتہائ زہریلا ہو اور مارگزیدہ کے بچنے کی امید نہ ہو تو ایسی صورت میں یہ منکا استعمال کرتے ہیں۔
اب تو سانپ کے کاٹے کی ویکسین دستیاب ہیں اور اگر سانپ کے ڈسے کو مناسب مدت میں اسپتال پہنچا دیا جائے تو ویکسین کی مدد سے اس کی جان بچائ جا سکتی ہے۔ یہ ویکسین بھی سانپ کے زہر سے ہی تیار کی جاتی ہے۔ اس ویکسین کو تیار کرنے کے لئے سانپ سے حاصل شدہ زہر کو سرنج کے ذریعے گھوڑے کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ سانپ کے زہر کے اثرات سے بچنے کے لئے گھوڑے کا مدافعتی نظام اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جو گھوڑے کے خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ پھر اس گھوڑے کے جسم سے خون کی کچھ مقدار نکال کر ان اینٹی باڈیز کی مدد سے سانپ کے کاٹے کی ویکسین تیار کی جاتی ہے۔ اکثر جنگلات میں لوگ مختلف اقسام کے سانپ پکڑ کر ان کا زہر نکال کر ویکسین بنانے والی لیبارٹریز کو فروخت کرتے ہیں جیسا کہ آپ اکثر نیشنل جیوگرافک اور اینیمل پلینٹ وغیرہ میں دیکھتے رہتے ہیں۔ اور یہ ایک خاصا منافع بخش
لیکن خطرناک کام ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply