اس بستی سے کب باہر نکلوں گا از ناصر عباس نیر/ تبصرہ: علی عبداللہ

اس بستی سے کب باہر نکلوں گا از ناصر عباس نیر
تبصرہ: علی عبداللہ

کیا ہر بستی حقیقت میں وہ قید خانہ ہے جو ہماری سوچوں، خوابوں، اور آزادی کے راستوں پر پہرے بٹھا دیتی ہے؟ ہم اپنی زندگی کے مسافر ہیں یا محض کسی دوسرے کے فیصلوں کی پگڈنڈی پر چلتے راہی؟ ناصر عباس نیر کے تازہ ترین افسانوی مجموعے میں شامل کہانی “اس بستی سے کب باہر نکلوں گا” ہمیں آزادی، مایوسی، اور حقیقت کی پیچیدہ گلیوں میں لے جاتی ہے- یہ سوالات اور اندرونی کشمکش کا ایسا عکس ہے، جو ہمیں خود کے وجود کی گہرائیوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے-

اس بستی سے کب باہر نکلوں گا؟” ایک ایسی علامتی کہانی ہے جو انسانی جدوجہد، آزادی کی تلاش، اور معاشرتی بندھنوں پر روشنی ڈالتی ہے- مصنف نے سادہ مگر فلسفیانہ انداز میں “بستی” کو ایک ایسی جگہ کے طور پر پیش کیا ہے جہاں انسان اپنی سوچ اور خواہشات میں محدود ہے- کہانی کا کردار بستی سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے، لیکن وہ بار بار ناکامی کا سامنا کرتا ہے، جو معاشرتی دباؤ اور داخلی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے- ہمیشہ کی طرح ناصر عباس صاحب نے مخصوص اور منفرد پیرائے میں قارئین کو سوچ کے کئی نئے دریچوں سے آشنا کروانے کی کوشش کی ہے-

کہانی کا غائبی کردار ایک بستی سے گزرتا ہے جہاں وہ کسی دور میں گزر چکا تھا یا شاید رہا کرتا تھا- لیکن کئی سالوں بعد اس بستی کے نقشے میں بدلاؤ اور گھروں سے زیادہ دکانوں نے وہ تمام نقوش بگاڑ دیے جو کہانی بیان کرنے والے کے ذہن میں موجود تھے- وہ اس بستی سے نکلنے کی تگ دو کرتا ہے، نشانیوں کو یاد کرتا ہے، چند لوگوں سے راستہ بھی پوچھتا ہے، مگر وہ نکل نہیں پاتا اور خوف زدہ ہو جاتا ہے- راستہ بتانے والے بھی اسے مختلف سمتوں کا بتاتے ہیں لیکن یقینی رستہ وہ بھی نہیں جانتے- اور اسی کشمکش میں وہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ کیا وہ بھی کبھی اس بستی سے نکل سکے گا؟ بظاہر یہ ایک سادہ سی کہانی محسوس ہوتی ہے- لیکن اسے گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ بے بسی اور گمشدگی کا احساس دلاتی ہے- کہانی کا بنیادی محور “بستی” سے باہر نکلنے کا خواب اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہیں-

غور کیا جائے تو “بستی” بذات خود محدود سوچ، روایتی نظام، یا وہ معاشرتی بندھن جو فرد کی آزادی یا ترقی کو محدود کرتے ہیں کی علامت ہے- کہانی میں راستہ تلاش کرنے اور باہر نکلنے کا ذکر ایک ایسی کوشش کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ہر فرد اپنی آزادی اور شناخت کی تلاش میں ہے- ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں،
“مجھے اس جگہ کی مہک تو محسوس ہو رہی تھی، مگر اس گلی کی کوئی نشانی نظر نہیں آ رہی تھی-”
اسی طرح بار بار راستہ دکھانے والے یا بستی سے باہر نکلنے کی سمتیں بتانے والوں کا ذکر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ خود بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہیں- جیسا کہ کہانی میں ایک جگہ لکھا ہے،
“میں نے تین لوگوں سے پوچھا کہ بڑی شاہراہ کی طرف جانے والا راستہ کہاں سے جاتا ہے- تینوں نے مجھے کہا کہ آپ بھٹک گئے ہیں۔۔۔ پہلے شخص نے مشرقی سمت اشارہ کیا کہ اس سڑک سے واپس جائیں، پھر بائیں مڑیں تو س شاہراہ کی جانب جانے والی سڑک مل جائے گی- دوسرے نے دوسری سمت کی طرف، تیسرے نے پھر پہلی سمت کی طرف مجھے جانے کو کہا-”
یہ معاشرتی نظام کی محدودیت کا اظہار محسوس ہوتا ہے- یہ ایک طرح کی سماجی تنقید ہے جو ان معاشرتی نظاموں کے بارے میں ہے جو فرد کی سوچ اور آزادی کو محدود کرتے ہیں-

کہانی میں یادِ ماضی (nostalgia) کا عنصر بھی موجود ہے۔ مصنف نے “بستی” کو نہ صرف ایک محدود جگہ کے طور پر بیان کیا ہے بلکہ اسے ماضی کی جڑوں سے جوڑ کر انسانی جذبات کا مرکز بنایا ہے- کہانی بیان کرنے والے کی یادیں ان راستوں اور گلیوں سے وابستہ ہیں جہاں وہ بچپن یا جوانی میں گزرتا رہا ہے۔ وہ ماضی کے لمحوں کو دہراتا ہے- یہ ماضی کی جھلکیاں صرف مقامات تک محدود نہیں بلکہ اس کے اندرونی جذبات اور کیفیات کا اظہار بھی ہیں۔ جیسا کہ ایک جگہ مصنف نے لکھا،
“جس طرح پرانے دوست، عزیز، رشتہ دار، درخت، پرندے، آدمی کو یاد آتے ہیں اور اپنی طرف کھینچتے ہیں، اس طرح جگہیں بھی- آدمی کے روح کا ایک حصہ، ان جگہوں سے بنا ہوتا ہے، جہاں اس کے قدم پڑے ہوں-”

ایک اور اہم پہلو س کہانی میں وجودیت (Existentialism) اور علامتیت (Symbolism) جیسے نظریات کا موجود ہونا ہے- کہانی کا کردار اپنی زندگی کے مقصد، آزادی، اور ذات کی تلاش میں ہے- وہ بستی سے باہر نکلنے کی خواہش رکھتا ہے، جو درحقیقت اس کی داخلی آزادی اور خود شناسی کے حصول کی علامت ہے- کہانی کا مرکزی سوال—”کیا میں اس بستی سے باہر نکل سکوں گا؟” ایک وجودی جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے- اس کے علاوہ اس کہانی میں “بستی” صرف ایک جگہ نہیں بلکہ جمود، معاشرتی دباؤ، اور محدود سوچ کی بھی علامت ہے- گلیوں، راستوں، اور نقشے جیسے عناصر کو علامتی طور پر استعمال کیا گیا ہے تاکہ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو ظاہر کیا جا سکے۔ “بستی سے نکلنا” درحقیقت اپنے اندرونی خوف، معاشرتی پابندیوں، اور ذہنی زنجیروں سے آزاد ہونے کی خواہش ہے-

یہاں یہ بات یاد رہے کہ نظریہ وجودیت کو ٹھیک طریقے سے سمجھنا بہت اہم ہے- ورنہ نظریہ وجودیت کے کئی منفی اثرات جیسے مایوسی اور بے معنویت کا احساس، معاشرتی ذمہ داریوں سے دوری، عدم استحکام اور الجھن، خود پر بوجھ ڈالنے کی ترغیب، مذہبی یا روحانی پہلو کو نظرانداز کرنا، اور اخلاقی انتشار جیسے عناصر ایک عام قاری کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں-

حقیقی آزادی اور راستے کا انحصار خارجی دنیا پر نہیں بلکہ ہماری اندرونی بصیرت پر ہے جیسا پیغام دیتی یہ کہانی اس کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے- ماضی اور حال کی گلیوں میں بھٹکتا یہ افسانہ ہر اس شخص کے دل کو چھوتا ہے جو کبھی اپنی راہ کھو بیٹھا ہو- اور چونکہ یہ خواب کہانی ہے، لہذا یہ براہ راست مصنف کے تخیل، اس کے فن اور فہم کی عکاس بھی ہے- شاید یہ خواب کہانیاں کتاب میں شامل دیگر افسانوں پر حاوی ہونے لگی ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

“ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply