نیوریارک 50 سٹریٹ سے عاشورا کا جلوس شروع ہوتا ہے اور پاکستان کونسلیٹ پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ یہیں ہر سال عظیم الشان مجلس عزا برپا ہوتا ہوتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جلوس کا اختتام پاکستانی کونسلیٹ کے سامنے کیوں ہوتا ہے؟ اور وہیں مجلس عزا کیوں ہوتی ہے؟ تو جناب قائد اعظم ؒ کے دست راست مرزا ابوالحسن اصفہانی جو تحریک پاکستان کے سرگرم رہنماء اور عالی دماغ تھے، جب انہیں قائد اعظم نے امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنایا تو یہاں پاکستانی محبان اہلبیت موجود تھے، جو پاکستان میں بھرپور انداز میں عزاداری کیا کرتے تھے، مگر دیار غیر میں اس کا انتظام نہیں تھا۔ بہت عرصہ پہلے ایک بزرگ سے سنا تھا کہ اس وقت ہی پاکستانی سفارتخانے میں عزاداری کا اہتمام کیا گیا اور طے پایا کہ عاشورا کا جلوس نکالا تو 50 سٹریٹ سے جائے گا، مگر اس کا اختتام پاکستانی کونسلیٹ میں ہوگا۔ یوں دیار غیر میں نہ صرف عاشورا منانے کا اہتمام ریاست پاکستان نے کیا بلکہ ریاست پاکستان نے ہی جلوس کا اہتمام کروایا۔ یہ تھا میرے قائدکا پاکستان تھا، یہ تھا اقبال کے خوابوں کی تعبیر والا پاکستان، یہ تھا وہ پاکستان جس کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی گئیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج آپ کو کیوں یہ ساری تفصیل بتا رہا ہوں؟ تو جناب آج عزاداروں پر پنجاب میں ہونے والے جبر کو دیکھ کر مجھے بانیان پاکستان کا طرز عمل یاد آگیا۔ عجیب وقت تھا، مال و دولت نہ تھا، کراچی مہاجرین کا گھر بن چکا تھا، پہلا عاشورا آیا تو پورے ہندوستان کی تہذیب عزا کراچی میں موجود تھے۔ لکھنو سے لے کر بنارس تک کی عزاداری کی روایات کے امین نسل در نسل مظلوم کربلا کی یاد منانے والے لٹے پٹے بے گھر ہوئے آئے تھے۔ محرم آتے ہی یوں لگنے لگا جیسے کراچی بیک وقت لکھنو، امروہہ، دلی اور دکن بن گیا ہے۔ ریاست پاکستان نے کمیابی کے باوجود اپنے وسائل کے در کھول دیئے۔ یوں کراچی میں ایک نئی تہذیب عزا نے جنم لیا، لوگ آج لکھنو اور امروہہ کی بجائے انچولی اور نشتر پارک کی عزاداری پر کتابیں لکھتے ہیں۔ نشتر پارک کی مجالس میں تحریک پاکستان کی قیادت اور پاکستان کی بیروکریسی کے کل پرزے سیاہ لباس موجود ہوتے تھے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم اور ان کا پورا خاندان امام حسینؑ کا عزادار تھا۔ یوں بانیان پاکستان نے تمام مسالک و مذاہب کے لیے آزادی اور احترام کے ساتھ اپنے عقیدے کے مطابق منانے کا اہتمام کیا۔
صدیوں کی روایات کی امین عزاداری کی محافل اور جلوس ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ یہ انسانی محافل اور جلوس ہوتے ہیں۔ ابھی کل ہی مٹھی کی عزاداری پر ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا، جہاں ہندو اکثریت میں ہیں، وہاں مجلس کے بانی بھی ہندو ہیں، سامع بھی ہندو ہیں، نیاز دینے والے بھی ہندو ہیں اور جلوس عزا نکالنے والے بھی ہندو ہیں۔ جلوس ہائے عزا کے راستوں میں سکھ سبیلیں لگاتے ہیں اور مسیحی جلوسوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مبشر زیدی نے کمال کا ٹویٹ شیئر کیا۔ کپل دیو نے لکھا کہ ابھی اپنے دوست اور مشہور صحافی سنجے سادھوانی کو جنم دن کی مبارکباد دی اور کہا ٹریٹ کہاں دے رہے ہو؟ اس نے کہا یار محرم چل رہا ہے، دس محرم گزر جانے کے بعد کرتے ہیں۔ بی بی سی کے مشہور میزبان اور کالم نگار اظہر علی عابدی نے ایک سلسلہ شبیرؑ کا ماتم چاند میں ہے، شبیرؑ کا ماتم تاروں میں، وہ ایسی ایسی جگہوں پر عزاداری کے حیران کن واقعات لکھ رہے ہیں کہ بے ساختہ عظمت حسینؑ سامنے آجاتی ہے اور وعدہ الہیٰ کی تکمیل کی عملی تصویر نظر آتی ہے کہ جیسے حسینؑ نے صحرا میں ذکر خدا کو بلند کیا، اللہ نے جنگلوں، صحراوں، دنیا کے مصروف ترین دارالحکومتوں میں حسینؑ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔
آج پنجاب کی ریاستی مشینری نے یہ ایس او پیز بنائے ہیں کہ کسی بھی جگہ پر گھر کے اندر بھی نئی مجلس عزا منعقد نہیں کرائی جا سکتی۔ نیا جلوس اور چار دیواری کے باہر عزاداری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے کئی ذرائع سے یہ بات کافی عرصہ پہلے پتہ چلی، مگر نہ دل مانتا تھا، نہ عقل تسلیم کرتی تھی کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ میرا پنجاب کی انتظامیہ سے سارا حسن ظن کل اس وقت ختم ہوگیا، جب میں نے لاہور ہائیکورٹ میں پچھلے سال گھر کے اندر عشرہ محرم منعقد کرانے پر ایف آئی آر کی گئی اور اس دفعہ ڈی سی نے اجازت مسترد کر دی، گھر کے اندر بھی مجلس کا انعقاد نہیں کرایا جا سکتا۔ درخواست گزار نے ڈپٹی کمشنر کے آرڈر کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جس پر معزز جسٹس شمس محمود مرزا نے سرکار (سرکاری وکیل) سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت آپ یہ مجلس و عشرہ نہیں ہونے دے رہے۔؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ اس خاتون پر پچھلے سال بھی مجلس کروانے کی وجہ سے مقدمہ درج ہوا۔
دوسرا یہ کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک پالیسی بنا رکھی ہے کہ جس مجلس کے بارے میں ماضی میں کوئی تاریخ نہ ملتی ہو، ایسی کوئی نئی مجلس منعقد نہیں ہوسکتی، جو مجالس ماضی میں چلتی آرہی ہیں، وہی ہوسکتی ہیں، نئی مجالس عزا کے پروگرام نہیں ہوسکتے۔۔ جس پر جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کی ترویج، تبلیغ اور اشاعت کا بنیادی حق دیتا ہے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بنائی گئی کوئی بھی ایسی پالیسی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو کبھی قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کئے گئے آرڈر میں ایسی کسی پالیسی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی درخواست گزار کو منع کرنے کی کوئی معقول وجہ بیان کی گئی ہے۔ لہذا تمام حالات واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست گزار کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا اور اسے بغیر کسی لائسینس اور اجازت کے عشرہ محرم الحرام منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ جیسا ریاست کا اہم ترین ادارہ شہریوں کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے؟ کیا یہ ادارے ریاست کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے تحفظ کے لیے نہیں بنائے جاتے ہیں؟ اس طرح کے فیصلوں سے تو لگتا ہے کہ جو حقوق آئین و قانون نے دیئے ہیں، انہیں سلب کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں؟ پچھلے سال بھی اور اس سال بھی اسی پالیسی کے وجہ سے پنجاب میں شرفاء کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، انہیں اور ان کے اہل خانہ کو زد کوب کیا گیا۔ صرف مجلس عزا کو روکنے کے لیے کئی مقامات پر مقبوضہ کشمیر کا سا ماحول بنا دیا گیا۔ پورا سال پاکستان کے مختلف مذاہب و مسالک کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادات کو انجام دیتے ہیں۔ کیا اب ہر مسلک و مذہب کی عبادت کہاں ہوگی، اس کا تعین ہوم ڈیپارٹمنٹ کرے گا؟ مجھے لگتا ہے یہ خاص سہولت صرف امام حسینؑ کی مجلس کرانے والوں اور ان کی یاد منانے والوں کے لیے ہی رکھی گئی ہے؟
یہ مساوات کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ شہریوں کے حقوق برابر ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی ایک نظریہ و رائے رکھنے والوں کے حقوق پر قدغن لگا دی جائے اور باقی کو آزادی دی جائے، اس سے شہریوں میں اضطراب پیدا ہوچکا ہے اور امام حسینؑ کی یاد منانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ کیا ہوم دیپارٹمنٹ گھر میں میلاد مصطفیٰﷺ منانے پر پابندی لگائے گا؟ کہ صرف وہی محفل ہوسکتی ہے، جو پہلے ہو رہی ہے، نئی کا انعقاد منع ہے؟ کیا اسی طرح ہمارے میلاد مصطفیٰ کے جلوس بھی محدود کیے جائیں گے کہ فقط پرانے جلوسوں میں ہی شرکت کی جائے اور نئے نہیں نکالے جا سکتے؟ کیا اب محفل ختم قرآن اور سیرت النبیﷺ و قرآن کانفرنسز پر بھی پابندیاں ہوں گی کہ فقط پہلے سے رجسٹرڈ کانفرنسز ہی ہوسکتی ہیں؟ کیا مدارس میں ہونے والے پروگرام بھی محدود کیے جائیں گے؟ کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے پاس جن پروگراموں کا ریکارڈ ہے فقط وہی ہو سکتے ہیں؟
کیا دیوالی اور ایسٹر کے پروگراموں کو بھی ایسے ہی محدود کیا جائے گا؟ یقیناً ایسے نہیں ہوتا اور نہ ہوگا اور نہ ایسا کرنا چاہیئے، کیونکہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اور آئین پاکستان اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ شہری اپنے مرضی اور عقیدے کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ انتظامیہ صرف سکیورٹی کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لیے شہریوں کے بنیادی حقوق پر قدغن لگا رہی ہے۔آپ دیکھ لیجئے پنجاب میں سینکڑوں سال سے جاری میلے کسی ایک چھوٹے موٹے بہانے سے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے پنجاب کی ثقافت کو برباد کر دیا ہے اور شہریوں کو تفریح کے مواقع تو خاک فراہم کرنے، جن کا اہتمام وہ خود کرتے ہیں، ان پر بھی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔
ہمیں وہ انتظامیہ چاہیئے، جو بانیان وطن کے ویژن کے مطابق پاکستان کو چلائے۔ جس میں کسی مذہب و مسلک کو سائیڈ پر نہ لگایا جائے۔ اسی طرح کسی مذہب و مسلک کو ٹارگٹ کرکے پابندیاں عائد نہ کی جائیں۔ پاکستان کے لوگ حسینیؑ ہیں اور یزید و یزیدیت سے نفرت کرتے ہیں۔ اس میں یہاں رہنے والے تمام مسالک و مذاہب مشترکہ طور پر شریک ہیں۔ یہ امام حسینؑ کی محبت سرمایہ حیات ہے۔ اس لیے انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، عام اور شریف لوگوں سے اشٹام پیپر لکھوا کر، انہوں نظر بند کرکے یا انہیں دباو کا شکار کرکے ریاست کی طرف سے دیئے گئے حقوق کو ختم نہ کیا جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں