رومانویت اور آمریت /ڈاکٹر مختیار ملغانی

ادب اور فلسفے میں رومانویت کی ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں تعریفیں کی گئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ رومانویت کی کوئی مسلمہ تعریف ممکن نہیں، ادب میں شاعری ، افسانہ و ناول کے علاوہ ہالی وڈ کی پروڈکٹس، جیسے ہارر اور فینٹیزی کے شعبہ جات بھی رومانویت سے تعلق رکھتے ہیں، حتی کہ ویمپائرز کا تصور پیش کرنے والے برطانوی شاعر و ادیب جارج گورڈن بائیرن خالصتاً رومانوی شاعر تھے، یہ اور بات کہ ان کے اس تصور کو انہی کے سیکرٹری نے چرا کر اپنے نام سے شائع کرا دیا، سٹیون کنگ ہارر کے حقیقی کنگ ہیں اور یہ رومانویت کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔
ثقافت کو نرم طاقت کہا جا سکتا ہے، ایسی طاقت جو فرد کو رضاکارانہ طور پر استعمال ہونے کی ترغیب دلاتی ہے، یہ غلط فہمی نہیں رہنی چاہئے کہ ثقافت صرف اور صرف فرد کی تربیت یا ذہنی نشونما کرتی ہے، ثقافت انسان کے لاشعور میں اپنے اور غیر، دوست اور دشمن کے درمیان لکیر بھی کھینچتی ہے، انسانوں کی ساری ثقافت رومانوی جمالیات پہ استوار ہے اور رومانوی جمالیات کی بنیاد مذہبی ستون پہ کھڑی ہے، بالخصوص عیسائیت کی شاخ پروٹسٹنٹ ازم کی جمالیات نے رومانویت کو عروج بخشا، جس کے مطابق خدا خاموش تماشائی ہے اور شیطان نہ صرف یہ کہ ظالم نہیں بلکہ دکھ سکھ کا ساتھی بھی ہے ۔ یاد رہے کہ سٹیون کنگ پروٹسٹنٹ چرچ کے نمایاں اور اعلانیہ ممبر ہیں۔
رومانویت کا جوبن بلاشبہ جرمن ادب کو کہا جا سکتا ہے، گوئٹے کا تقریباً پورا ادب رومانویت کی بہترین تصویر ہے، اسی سنہری تنے پر برطانوی اور فرانسیسی ادب نے مزید کلیاں بکھیریں ، روس اور برصغیر میں رومانیت صحیح معنوں میں پروان نہ چڑھ سکی جس کی وجہ ان علاقوں میں پروٹسٹنٹ ازم کا عدم وجود ہے ۔البتہ روس میں جب الحاد نے سر اٹھایا تو میکسم گورکی و دیگر رومانوی ادیب سامنے آئے، لیکن یہ رومانویت جرمن ادب سے مستعار لی گئی تھی، کیمونزم کا مختصر وقت ہی روس میں رومانویت کا وقت گردانا جا سکتا ہے، اس بات کی گہرائی میں اگر جایا جائے تو ایک ایسا دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے جس کی طرف کم توجہ دی گئی، رومانویت اور آمریت کے شاخسانے کسی ایک ہی شجر سے پھوٹتے ہیں، جہاں جبر اور آمریت ہوگی وہاں رومانویت بھی پھیلے گی، اور جہاں رومانویت کا لحاف غالب ہوگا وہاں آمریت ںھی نقاب سرکاتے آتی دکھائی دے گی۔
جیسا کہ عرض کیا ثقافت وہ نرم طاقت ہے جس کے سامنے آپ کا شعور رضاکارانہ طور پر سرنگوں ہوجاتا ہے، یہی سرنگونی ہی وہ نم مٹی ہے جہاں سے آمریت کا بیج پہلی انگڑائی لیتا ہے۔
انیسویں صدی کے سکاٹش ناول نگار رابرٹ سٹیونسن کا ناول
Strange case of Dr. Jekyll and Mr Hede
اپنے اندر ایک خاص دلچسپی کا موضوع رکھتا ہے، اس ناول کا موضوع اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ دوگانگی ہے، یعنی کہ آپ صرف وہ نہیں جو روشنی (شعور) میں خود کو نظر آتے ہیں، آپ کا آدھا وجود تو اندھیرے میں کھڑا ہے جو آپ کو نظر نہیں آرہا، رومانویت اسی تجسس سے بھڑکتی ہے، گوئٹے اور پروٹسٹنٹ ازم اسے شیطان کے ساتھ میثاق کا نام دیتے ہیں ۔ پروٹسٹنٹ فرقہ اور رومانویت، دونوں، شیطان کو ملعون نہیں بلکہ پرکشش اور ہمدرد جانتے ہیں۔
بحث کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اندھیرے میں کھڑا آپ کا پرتجسس نصف آپ کے قابو میں نہیں، وہ آپ کی طاقتوں سے باہر ہے، dehumanization اسی کو کہا جاتا ہے کہ اس جگہ انسان نہیں بلکہ جنات گھومتے ہیں، اس موضوع پر تفصیلاً کارل ژونگ نے بحث کی ہے، جہاں وہ آپ کے نظر نہ آنے والے نصف کو پرچھائی کا نام دیتے ہیں، ان کے مطابق آفاقی حق کا وجود ممکن نہیں ، جو کچھ ہے وہ موضوعی ہے، اندھیرے اجالے کا یہ کھیل ہر شخص کی ذات میں جاری رہتا ہے، کبھی اجالا حاوی ہے تو کبھی اندھیرا بازی لے جاتا ہے۔
رابرٹ سٹیونسن نے دوگانگی کا یہ آئیڈیا دستوویسکی کے ناول، The double, سے لیا، اب سوال یہ ہے کہ دستوویسکی جیسے ریئلسٹ کو یہ خیال کیونکر آیا، واقعہ یہ ہے کہ انسان کے اندرونی شیطان کی تلاش میں انہیں یہ آئیڈیا جرمن رومانوی ناولسٹ Hoffmann کے ناول، جڑواں، سے ملا، دوگانگی کا تصور عیسائیت میں کبھی پسندیدہ نہیں رہا کہ خدا اور ابلیس
کو برابر ملکیت پہ بٹھا دیا جائے، عجب نہیں کہ قرون وسطی میں چرچ ہم شکل جڑواں بچوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا، انسان کو چونکہ خدا کے روپ پہ تخلیق کیا گیا، اس لئے دو افراد کا ہم شکل ہونا اس بات کی چغلی کھاتا تھا کہ ان میں سے ایک تو خدا کا روپ ہے لیکن دوسرا شیطان کا اجمالی خاکہ ہے کہ ابلیس خدا کے سامنے برابری کا دعوی کر رہا ہے، قرونِ وسطیٰ کے مغرب میں ہم شکل جڑواں پر وقت بڑا بھاری گزرتا تھا۔
ثقافت کا ارتقاء رومانویت کو ہمیشہ ایک مخصوص رنگ دیتا ہے، ادب اور سینیما میں خون چوسنے والے زندہ مردے بھی اسی ارتقاء کی شکل ہیں، جسمانی خون چوسنے والوں سے بات کو آگے بڑھایا جائے تو نفسیاتی ویمپائرز کا وجود بھی ایک بڑی حقیقت ہے، نفسیاتی ویمپائر اپنی اصل میں رومان پرور ہے، اس کی واضح مثال ایڈولف ہٹلر ہیں، ہٹلر کیلئے تعظیما استعمال کی جانے والی اصطلاح Fuhrer (پیشور ) بھی رومانویت کی مرہونِ منت ہے کہ اسے عظیم ترین رومانوی موسیقار Wagner نے منتخب کیا ۔ یہ ہٹلر ہی تھے جو اپنی ناکام محبت پہ خودکشی کرنا چاہتے تھے اور محبت میں خودکشی گوئٹے کی خالص رومانویت ہے ۔ شیکسپیئر کے رومیو اور جولیٹ کو سو سال بعد عمومی تھیٹرز سے اٹھا کر پوری دنیا میں اسی لئے پھیلا دیا گیا کہ اس میں محبت کیلئے موت کو گلے لگانے کا رومانوی پہلو موجود ہے۔ ہٹلر کے سامنے بطور حریف ایک اور رومانوی شخصیت موجود تھی اور وہ تھے سٹالین جن کی بابت لوگوں کو بڑی غلط فہمیاں ہیں، عظیم تر بننے اور دکھنے کی خواہش میں حریفوں کا قلع قمع کرنا رومانوی کردار کی علامت ہے اور سٹالین نے یہ کام خوب کیا، یہی نہیں بلکہ ہیگل کے ڈائیلیکٹس پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا، انہی ڈائیلیکٹس میں سے انہوں نے ایک اصول کو باہر نکال پھینکا اور وہ اصول تھا، نفی کی نفی کرنا ۔ جس کا ایک مطلب ناقابلِ قبول کو قبول کرنا بھی ہے اور سٹالین نے اس اصول کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
اگر آپ کے ذہن میں اردو ، عربی اور فارسی کے عظیم شعراء کے نام آ رہے ہیں جو آپ کی نگاہ میں رومانویت کا پیکر تھے تو آپ جمالیات اور رومانویت کو ایک سمجھ رہے ہیں، جمالیات کا آفاقی تصور افلاطون کی دین ہے، وہ آئیڈیل ازم کا پرچار کرتے تھے، ایک آفاقی خوبصورتی ، آفاقی سچائی، جبکہ رومانویت کی جڑ میں شیطانی عنصر لازم ہے، ان دو میں بہت فرق ہے، شروع کے عیسائی بھی آفاقی خوبصورتی پر یقین رکھتے ، مسلم دنیا میں یہ تصور آج تک عام ہے، عظیم تر بننے کے پہلو میں جو چیز لازم ہے وہ ظلم، موت، قتل اور افراتفری میں خوبصورتی کو تلاش کرنا ہے، جمالیات خیر میں خوبصورتی کو دیکھنا ہے، رومانویت خیر و شر سے اوپر خوبصورتی کو محسوس کرنا ہے، ہرن میں خوبصورتی کو دیکھنا جمالیات ہے، بھیڑیے میں خوبصورتی کو پرکھنا رومانویت ہے۔ ہر آمریت خیر و شر کو خاطر میں نہیں لاتی ، ہر آمریت اس لئے بھی رومانوی ہے کہ وہ خوبصورتی کو کسی آفاقی جمالیات میں نہیں بلکہ دنیاوی بربادی میں دیکھتی ہے ، انسان کی dehumanization میں بھی وہ حسن کو دیکھ لیتی ہے۔
یہ رومان پرور روحیں ہیں جو انقلاب کی داغ بیل ڈالتی ہیں اور ہر انقلاب جلد یا بدیر آمریت کو جنم دیتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply