یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی؟۔۔آصف محمود

اگر آپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ 2019 ء میں آپ کتنی لائبریریوں میں گئے ، وہاں کتنے گھنٹے گزارے اور اس پورے سال میں آپ نے کتنی کتب کا مطالعہ کیا تو آپ کا جواب کیا ہو گا؟ افتخار عارف جیسے اسیر عشق نے کہا تھا: عجب گھڑی تھی، کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی۔ برادرم احمد اعجاز نے ایک دن پوچھا : کچھ سمجھ آئی افتخار عارف کیا کہہ گئے ہیں؟کچھ سوال پر غور کیا ، تھوڑا شعر پر ، دن ڈھل چکا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ جنگل ہٹ پر شام اتر رہی ہے یا میرے دل میں۔ یہ وہی کیفیت تھی جو میر نے عشروں پہلے بیان کر دی تھی: اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں نقش کا سا ہے سماں ، میری بھی حیرانی کا چند سال پہلے ایسے ہی ایک خیال آیا ، تب مسٹر بکس کے مالک یوسف بھائی حیات تھے اور سپر مارکیٹ کی مسٹر بکس اپنا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔کتاب کلچر پر بات نکلی تو یوسف بھائی نے کہا کبھی وقت ملے تو جوتوں کی دکان اور کتابوں کی دکان کا تقابل کیجیے اور بتائیے یہ قوم جوتے سے زیادہ پیار کرتی ہے یا کتاب سے۔یہ بڑا دلچسپ نکتہ تھا ۔دل میں اتر گیا۔ مہینوں بعد ایک شام میں کیمرا مین کے ساتھ سپر مارکیٹ میں جوتوں کی ایک اوسط درجے کی دکان پر چلا گیا۔ ایک صاحب وہاں کھڑے تھے میں نے پوچھا آپ کے خیال میں جوتے کی مناسب قیمت کیا ہے اور کتنی قیمت کا جوتا آپ کے نزدیک مہنگا جوتا سمجھا جائے گا۔ جواب ملا تین ہزار سے چار ساڑھے چار ہزار تک معقول قیمت سمجھی جائے گی اور پانچ ہزاراور اس سے اوپر کا جوتا مہنگا ہو گا۔ اگلا پڑائو مسٹر بکس تھا ۔ جو شہر کی سب سے اچھی بک شاپ تھی۔ یہی سوال وہاں پانچ سات لوگوں سے پوچھا کہ کتاب کی مناسب قیمت آپ کے خیال میں کیا ہے اور کتنی قیمت کی کتاب کو آپ مہنگا تصور کریں گے۔ مختلف جوابات ملے لیکن اس پر اتفاق تھا کہ ایک ہزار سے زیادہ قیمت والی کتاب مہنگی تصور کی جائے گی۔میں نے یوسف صاحب کو بتایا کہ یہ نتائج آئے ہیں۔ انہوں نے ہنس کر کہا ،پھر فیصلہ خود ہی کر لیجیے اس قوم کو کس چیز سے پیار ہے، جوتوں سے یا کتاب سے؟ اگلے روز میں ایک نیا سوال لے کر انہی دو دکانوں پر ایک بار پھر جا پہنچا۔ اب کے سوال یہ تھا کہ اس سال میں آپ نے کتنے جوتے خریدے اور کتنی کتابیں۔ جوتوں کا سوال ہوتا تو جواب ملتا چار ، پانچ ، سات اور کتابوں کا سوال ہوتا تو وہی میر صاحب والی بات کہ نقش کا سا ہے سماں ، میری بھی حیرانی کا ۔لوگوں کو یاد ہی نہیں تھا کتنے سال پہلے انہوں نے کوئی کتاب خریدی تھی، حتی کہ اکثریت اس سوال کے جواب میں بھی سوچ میں پڑ گئی کہ آخری مرتبہ کتاب پڑھی کب تھی۔ لوگوں سے سادہ سا سوال پوچھا اپنی پسندیدہ تین کتابوں کے نام بتا دیجیے ، اکثریت اس کا جواب بھی نہ دے سکی ۔اور یاد رہے یہ چیچوں کی ملیاں کی بات نہیں ہو رہی ، یہ اسلام آباد کی سپر مارکیٹ کی بات ہو رہی ہے۔ کوئی المیہ سا المیہ ہے ،لائبریریاں ختم ہو گئیں ، ہوٹل کھلتے چلے گئے۔ دماغ سکڑ گئے اور توندیں پھیلتی چلی گئیں۔ بیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن کتاب کا ایڈیشن مبلغ پانچ سو یا ایک ہزار کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اعجاز توکل کیسے لوگ اب کہاں سے آئیں جن کا مطالبہ ہو: قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو۔ اب تو کتاب اجنبی ہو گئی۔ کیچڑ میں گر پڑی ہے۔ وہ زمانے اب قصہ ماضی ہوئے جب محمد علوی نے کہا تھا: کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں کبھی گم ہے کتاب آنکھوں میں اسلام آباد میں ایک ہی پبلک لائبریری ہے اور وہ ریڈ زون میں اس جگہ واقع ہے جہاں جانے کا کوئی عام شخص تصور ہی نہیں کر سکتا۔ اہل سیاست کو مطالعے کا شوق ہی نہیں رہا۔ کبھی کسی سیاست دان کو کسی گفتگو میں کسی کتاب کا حوالہ دیتے نہیں سنا۔ چنانچہ گفتگو کا معیار پست سے پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ مطالعے کا ذوق رکھنے والے اہل سیاست دھیرے دھیرے اجنبی ہوتے گئے۔ اب وہی مرد میدان ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت پامال کرنے کا ہنر جانتا ہو۔کچھ یاد سا پڑ رہا ہے کسی غیر ملکی خاتون نے نواز شریف صاحب کا انٹرویو کیا تھا اور لکھا کہ ان کے عالی شان گھر میں صرف ایک ہی کتاب پڑی تھی اور وہ فون کی ڈائرکٹری تھی۔اب شاید وہ بھی نہ ہو ، صرف چیک بک نام کی ایک کتاب باقی ہو۔ عمران خان صاحب نے اگلے روز انسٹا گرام اور ٹویٹر پر ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ جناب سردار خان نیازی کی کتاب حلقہ احباب کی رونمائی کر رہے ہیں۔ کتاب تو دلچسپ ہے ہی تاہم یہ دیکھ کر بھی اچھا لگا کہ اہل اقتدار کے ہاں کتاب بھی ایک معتبر چیز ہے۔عمران خان کی سیاست پر تو تاریخ اپنا فیصلہ قریبا سنا ہی چکی۔ اب اگر وہ کتاب کلچر کے فروغ کو اپنی ترجیح بنا لیں تو شاید تاریخ انہیں تبدیلی کے اولین نقش کے طور پر یاد رکھے۔مطالعے سے بے نیاز قوم دھرتی کا بوجھ ہوتی ہے۔ یہ علم ہے جو معاشروں کو معتبر کرتا ہے۔کبھی معلوم کر لیجیے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں کتاب سے فرد کے تعلق کی صورت کیا ہے اور وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔جدید دور میں بلاشبہ مطالعے کی دنیا میں بھی بڑی تبدیلی آ گئی ہے لیکن کتاب کی اہمیت آج بھی موجود ہے بلکہ مروجہ مطالعے کی سطحیت کے آزار کو دیکھیں تو کتاب کی اہمیت دو چند ہو چکی ہے۔ اب لوگ حسرت سے کہتے ہیں : یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ یہ ایک نیم خواندہ سماج کا فکری مغالطہ تو ہو سکتا ہے کہ کتاب دم توڑ رہی ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔جن معاشروں میں علم کے باب میں حساسیت پائی جاتی ہے وہاں ایسا کوئی مغالطہ موجود نہیں ہے۔دیکھیے افتخار عارف پھر یاد آ گئے: ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply