افغانوں کے نام/نجم ولی خان

افغان ہمارے ہمسائے ہیں اورمذہب کی بنیاد پر ہمارے بھائی، ہم نے ان کی ہمیشہ اسی طرح مدد کی ہے جس طرح بھائی، بھائی کی کر سکتا ہے، اپنے مال سے ہی نہیں بلکہ جان پر کھیل کے بھی۔ ہم نے ان کی دشمنیاں یوں نبھائی ہیں جیسے کوئی اپنی دشمنیاں نبھاتا ہے، نوے ہزار جانوں کے نذرانے پیش کر کے ورنہ ہمارانہ روس کے ساتھ کوئی تنازعہ تھا جب وہ افغانستان میں گھس آیا تھا اور نہ ہی امریکا کے ٹوئن ٹاورز ہم نے گرائے تھے مگر آن دی ریکارڈ لاکھوں اور آف دی ریکارڈ کروڑوں افغانوں کا بوجھ اپنی سرزمین پر برداشت کیا۔ آج راولپنڈی سے لاہور تک کے بازار، کراچی تک میں چلتی ہوئی ٹرانسپورٹ میں بڑا شیئر ہمارے انہی بھائیوں کا ہے جن کے ڈانڈے اور ڈی این اے افغانستان سے ملتے ہیں، ہاں، ہم نے اپنے محدودرزق کے نوالے تک ان کے ساتھ شیئر کئے ہیں۔ چلو،میرے ساتھ لاہور کی ہول سیل مارکیٹوں میں چلو، شاہ عالمی سے اعظم کلاتھ مارکیٹ تک، اس سے بہت آگے کراچی کی ٹرانسپورٹ تک ہم نے کبھی اپنے کاروبار افغانوں اور پختونوں کے حوالے ہونے پر اف نہیں کی۔ مجھے ایک پرانا شکوہ بھی دہرانے دوکہ بہت سارے وارلارڈز جن کے کاروبار ہی اسلحے اور منشیات کے تھے انہوں نے کلاشنکوف دی، نوجوانوں کو ہیروئن دی مگر ہم علامہ اقبال کے اشعارسے مستعار لئے ہوئے عقیدے ’افغان باقی، کہسار باقی‘ سے اپنے اخبارات کے صفحے سجاتے رہے، ہم کھانے کو روٹی،سر چھپانے کو جگہ اور زندگی کی سب سے بڑی دولت یعنی عزت دیتے رہے، اپنے جوانوں، اپنے بیٹوں کا لہو پیش کرتے رہے۔
میں افغان بھائیوں سے شکوہ کرنا چاہتا ہوں کہ احسان فراموش کا پہلا شکار اس کا محسن ہی ہوتا ہے اور اس کا تجربہ ہم نے اندرون ملک بھی کیا ہے۔ کیا انہیں یاد نہیں کہ جب پوری دنیا نے ان سے منہ پھیر لیا تھا تو تب یہ پاکستان ہی تھا جو ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر کی بات بعد میں کروں گامگریہ پاکستان ہی تھا جب نیٹو فورسز افغانستان پر بمباری میں مصروف تھیں تو افغان کرکٹ ٹیم کو پشاور میں پریکٹس کروائی اور مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب وہ پاکستان سے ہارے تو انہوں نے کیسی گالیاں دیں، بہت سارے بین الاقوامی افغان کھلاڑی جو پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہیں انہیں پاکستان نے ہی بنایا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے، صرف اور صرف دہشت گردی، میر ا سوال ہے، کیوں۔ پاک فوج کی چوکیوں پر حملے کیوں، اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے دینا کیوں،بھارت کی ایما پر پاکستان مخالف بیانات ہی نہیں بلکہ بھارتی فنڈڈ ٹریننگ کیمپوں کی بھرمار کیوں۔ ٹی ٹی پی رہنما مفتی نور، ولی محسود جیسے لوگ آئے روز پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں توکیوں؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ژوب میں داخل ہوں گے اور قبضہ کر لیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ انہیں رکھنا ہوگا کہ باپ ہمیشہ بیٹے سے بڑا ہی ہوتا ہے اور جو بنا سکتا ہے وہ ڈھا بھی سکتا ہے۔
افسوس،پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر پر افغانوں کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے بیان دیا ہے کہ ان کے پاس ٹی ٹی پی موجود ہی نہیں ہے جبکہ حقیقت بچے، بچے کو علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، کس کی چھتری تلے ہو رہا ہے، کس کی گود میں بیٹھ کے ہو رہا ہے، ذبیح اللہ مجاہد کیا سمجھتے ہیں کہ وہ تمام وقت تمام لوگوں کو تمام باتوں پر بے وقوف بنا سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔ میں ٹی ٹی پی کی عدم موجودگی کے بیان پر مفتی ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھتا ہوں کہ 29اگست2019 کوٹی ٹی پی کا قاری حسین خود کش بریگیڈ کا کمانڈر قادری سیف اللہ محسود کیا خوست میں نہیں مارا گیا۔کیا گذشتہ برس 31جولائی کو ایمن الظواہری کی ہلاکت کابل میں ایک ڈرون اٹیک میں نہیں ہوئی۔ کیا جنوری 2022 میں مفتی خالد بلتی المعروف محمدخورسانی مشرقی ننگرہارمیں نہیں مارا گیا۔ کیا طالبان نے جنوری2022میں گرفتاری پر تین ملین انعام والے وزیرستانی کمانڈریاسر پراکے کی میزبانی نہیں کی جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا اور پھر اپریل میں اس کی وہاں مزید سرگرمیاں سامنے آئیں۔ آٹھ اگست کوعمر خالد خورسانی، 29ستمبر کو اخترخلیل، 27اکتوبر کو اسد اللہ پہلوان اور اسی برس جون میں پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے کمانڈر مولوی صبغت اللہ، 26جون کو سربکف مہمند، 10جولائی کو کمانڈر طارق سواتی المعروف بٹن خراب اور پھر اس کے بعد بہت سارے کمانڈرز اپنے اندرونی اختلافات پر کیا افغانستان کے اندر ہی نہیں مارے گئے؟ میں کتنے نام لوں اور ان کے بھی جنہوں نے اے پی ایس میں ہمارے بچے مار دئیے؟ان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں حاصل ہیں اورکارروائیوں کی آزادی میسر،انہیں جدید ہتھیار فراہم ہو رہے ہیں جوہماری سکیورٹی، ترقی اور زندگیوں پر چل رہے ہیں۔
افغانستان کی سیکولر اور بھارت نواز حکومتیں اگر یہ کہتیں، یہ کرتیں تو دکھ نہ ہوتا مگر افغانستان کی وہ نمائندہ نظریاتی حکومت جس کے قیام میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اس کی قیمت ہم نے اپنی معیشت اور اپنے لہو سے ادا کی ہے، وہ ایسی باتیں کرے تو یہ احسان فراموشی کی انتہا ہے۔ جب افغان سرزمین سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اس وقت پاکستان کی افغانستان کے لئے تعمیراتی مدد ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، پاکستان وہاں پر جناح ہسپتال کابل کے ساتھ ساتھ نشتر کڈنی سنٹر جلال آباد اور نائب امین اللہ خان لوگر ہسپتال بنا اور چلا رہا ہے، پاکستان وہاں 75کلومیٹر طویل طورخم جلال آباد روڈ، 73کلومیٹر کا ایڈیشنل کیرج وے، جلال آباد کی اندرونی سڑک بناتے ہوئے ٹیلی کام اور الیکٹریسیٹی سسٹم بھی دے رہا ہے۔ پاکستان نے چار ہزار افغان طالب علموں کو سکالرشپس ہی نہیں دئیے بلکہ کابل میں رحمان بابا سکول اور ہاسٹل بھی بنائے، کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس، ننگر ہار یونیورسٹی جلال آباد میں سرسید سائنس بلاک، مزار شریف کی بلخ یونیورسٹی میں انجینئرنگ بلاک بھی بنایا۔ زراعت ہو یا ریلوے، بینکنگ ہو یا سوشل ریفارمز، سفارتکاری ہو یا کوئی بھی شعبہ، پاکستان ایک بھائی کی طرح وہاں موجود ہے۔ پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کا سامنا ہے مگراس کے باوجود افغانستان کی سنٹرل سٹیٹکس آرگنائزیشن کے مطابق پاک افغان باہمی تجارت ڈیڑھ ہزار ملین ڈالرز تک پہنچ رہی ہے۔
مجھے افغانوں سے کہنا ہے کہ اب آپ کے دوست، بھائی او رمحسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ ہم آپ کے زخموں پرمرہم رکھتے ہیں اور آپ ہمیں ہی زخم دیتے ہیں۔میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ پاکستان کی فوج نے دو کام کرنے کا تہیہ کر لیا ہے اور وہ ہیں پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اور دوسرے اس کی معیشت کی بحالی۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ پاک فوج جب کچھ کرنے کا ٹھان لیتی ہے تو پھر کوئی اس کاراستہ ا مریکا اور روس جیسی طاقتیں بھی نہیں روک سکتیں لہٰذاا ب اگر کوئی ان دونوں ٹارگٹس کی راہ میں رکاوٹ بنے گا تو اسے قیمت چکانی پڑے گی،تکلف برطرف، پاکستان نے محض انسانی اور اسلامی اوربنیادوں پر افغانوں کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں اور یہ برداشت نہیں ہوسکتا کہ جس سرزمین کو اس نے خودمختاری اور امن جیسی نعمتیں لے کر دیں، صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر ہی نہیں کرکٹ جیسے تحفے اور سب سے بڑھ کے ڈپلومیٹک سپورٹ دی اسی سرزمین سے اس کے بیٹوں کی زندگیاں چھینی جائیں۔ افغان خبردارہوجائیں کہ بہت ہوچکا،اب سرحدوں کی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے جوانوں کے قاتلوں سے نمٹنے کا سوچا جا رہا ہے جو کسی بھی ریاست کا حق ہے۔ افغان حکومت اپنے واحد مخلص دوست کو دشمن بنانے کی بجائے اپنی ان ماؤں کے بارے سوچے جو بچے پیدا کرتے دھڑا دھڑ مر رہی ہیں،ان بچوں کے بارے سوچے جن کے پاؤں میں جوتے اور ہاتھ میں کتابیں نہیں، اپنے ان جوانوں کے بارے سوچے جن کے پاس کوئی خواب، کوئی امید او رکوئی روزگار نہیں۔ میں افغان عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے پوچھتا ہوں کہ آپ کب اپنے ملک کو وار لارڈز کے ذریعے چلاتے رہیں گے، کب تک منشیات، اسلحے اور سمگلنگ کو دھندا بناتے رہیں گے۔ یہ افغانوں کو اس واحد مخلص دوست کا مشورہ ہے جسے احسان فراموشی کرتے ہوئے دشمن بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply