بھوٹانی بکرے ۔۔۔ معاذ بن محمود

عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے۔ ماحول میں مینگنیوں کی جملہ اقسام اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔ فضاء فضلاءِ حیوانات کی بھینی بھینی بدبو سے متعفن ہے۔ گھر سے نکلتے ہی طرح طرح کے چوپائے سر اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں۔ بے زبان بے خبر ہیں کہ چارہ گر چارے سے خاطر تواضع کر کے کل پرسوں تک اپنا کام پورا کپورے کھائے نورا کے مصداق بھول بھال جائیں گے۔ قربانی کے تمام جانور ہی معصومیت کا پیکر نظر آتے ہیں سوائے ایک کے جو ہمہ وقت پیٹ بھرنے اور نسل بڑھانے کی فکر کا عملی نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ جانور ہے بکرا۔ 

بکروں کی کئی اقسام ہوتی ہیں لیکن سیاستدانوں کی طرح چند خصلتیں یکساں ہی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر سیاستدانوں کی طرح بکرا آنڈو بھی ہوسکتا ہے اور خصی بھی۔ آنڈو بکرا طبعاً ایک مہم جو اور خود غرض بکرا ہوتا ہے جو اپنے “کام” کے لیے بھیڑ، بکری، مینڈھا، لیلا، بچھڑا وغیرہ سبھی کو “استعمال” کر سکتا ہے۔ آنڈو بکرے کی نشانی اس کا کرخت چہرا اور ہر وقت کی “میں” ہے۔ جس دن انسان بکروں کی زبان سمجھنے میں کامیاب ہوگیا مجھے یقین ہے کہ بکرے کے بیانات کچھ ایسے ہی ہوں گے “میں بڑا ہوا، میں نے گھاس کھائی، میں نے کئی بکریوں سے تعلقات رکھے لیکن اب میں حاجی بکر بن چکا ہوں لہذا اب مجھے بکروں کا وزیراعظم بننا چاہئے، میں نے کرپشن نہیں کی، میرے تعلقات میرا ذاتی معاملہ رہے ہیں لہذا انہیں سیاست سے نہ جوڑا جائے، میں انہیں رلاؤں گا، میں یہ میں وہ” وغیرہ وغیرہ۔ آنڈو بکرا کبھی اپنی مہم جوئی چھوڑتا نہیں۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ اگر آنڈو بکرے کو انسان بنا دیا جائے تو اس کا بلیک بیری بے انتہا اہمیت کا حامل بن جائے گا۔ آنڈو بکرا کسی بکری کو تاڑ لے تو اسے حاصل کرنے کے لیے بائیس بائیس سال تک جتن بھی کر سکتا ہے۔ یوں یہ بکرا عزم و جد و جہد کا استعارہ کہلایا جاسکتا ہے۔ 

کہتے ہیں ایک کسان کے پاس آنڈو بکرے کے آباد و اجداد میں سے ایک پلا ہوا تھا۔ کسان پریشان تھا کہ یہ آنڈو ہر دوسرے دن کسی جانور کے ساتھ اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتا۔ کسان خوب منع کرتا کہ دیکھ صحت پہ فرق پڑے گا پھر پش اپس بھی نہیں نکال پائے گا مگر بکرا تھا کہ مانتا نہیں تھا۔ ایک صبح کسان نے دیکھا کہ بکرا کھلے آسمان تلے بے سدھ پڑا ہے۔ کسان افسوس کے ساتھ آنڈو کے پاس پہنچ کر بولا “کہا تھا ناں اتنی کاروائیاں ٹھیک نہیں، اب مرے پڑے ہو”۔ اتنے میں بکرے نے ایک آنکھ کھولی اور آسمان پر اڑتی چیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، “چپ کر، اسے نیچے آنے دے بس”۔ ریاست بھوٹان کے کئی پسینہ بہانے والے دہقان بھی ایک آنڈو بکرے سے امید رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ ریاستی چیلوں کی عسکریت کو ایسے ہی دبوچ لے گا۔ 

بکروں کی ایک اور نسل خصی بکروں کی ہے۔ خصی بکرا قدرتی یا مصنوعی طور پر ہوئی خصیہ کشی کا شکار ہوتا ہے۔ چونکہ اس بکرے کی مردانگی کو ابتدا سے ہی آہنی ہاتھ لگ چکے ہوتے ہیں، لہذا یہ بکرا شاز ہی لبھی “میں” کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بکرا اتفاق سے کہیں بکروں کی سیاسی پارٹی کا صدر بن بھی جائے تو اس کی کوشش مفاہمت کے ذریعے اپنے بچے کھچے خصیے بچانا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں خصی بکرا کبھی ریلیوں میں رش کی وجہ سے منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتا تو کبھی موسم کی خرابیوں کی وجہ سے احتجاج کا حصہ نہیں بن پاتا۔ خصی بکرے کا گوشت آنڈو کی نسبت اچھا سمجھا جاتا ہے لہذا یہ بکرا قربانی کے لیے آنڈو پر فوقیت رکھتا ہے۔

خصی بکروں کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم پیدائشی طور پر ہی خصیوں سے عاری ہوتی ہے۔ یعنی اس قسم کے بکرے پہلی جد و جہد پر ہی ہار مان لیتے ہیں۔ راولپنڈی میں راجہ بازار کے قریب ایک مشہور خصی بکرا اس قسم کا نمائیندہ سمجھا جاتا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک مشہور (غیر) مذہبی بکرا بھی اس قسم کے خصی بکروں کی اعلی مثال ہے۔ یہ بکرا عموماً “آم کھائے گا آم” کی نسبت سے جانا جاتا ہے۔ خصی بکروں کی دوسری قسم وہ ہے جو دراصل ہوتے تو شدید قسم کے آنڈو ہی ہیں مگر ان کے خصیے بذریعہ طاقت کچلے جاتے ہیں۔ یوں انہیں جد و جہد سے عاری کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یہ عمل بسا اوقات کافی وقت لے لیتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں اس وقت ایسا ہی ایک بکرا قید ہے جسے خصی کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

مشہور ضرب المثل ہے کہ “بکرے کی ماں کب تک خیر منائی گی”۔ بکرا آنڈو ہو یا خصی، پتے کی بات اور اٹل حقیقت یہ ہے کہ ایک خاص مدت کے بعد قربانی کا موقع ضرور آتا ہے جس میں ان بکروں کو ذبح کر کے ان کی قربانی دی جاتی ہے۔ بکرے کی ماں خود قربان ہو یا اس کی اولاد، یا پھر اس کا شوہر، اصل حقیقت یہی ہے کہ ایک نہ ایک دن بکرے کی ماں کو دکھ ضرور ملنا ہے۔ ہر عید قرباں خوبصورت، طاقتور، آنڈو اور خصی ہر قسم کے منتخب بکرے قربان کیے جاتے ہیں۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں کہ “اوپر والا” ان قربانیوں کو قبول فرمائے اس اس کے بدلے ریاست پہ خوشیوں کی بارش فرمائے۔ آمین۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply