الیکشن یا سلیکشن/آغرؔ ندیم سحر

پاکستان میں ہونے والے انتخابات ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے،دھاندلی کا الزام ان حکومتوں پر بھی لگتا رہا جو جمہوریت کے دعویدار تھے۔خود کو جمہوری علم بردار کہنے والے بھی اقتدار کے لالچ میں جمہوری نظام پر شب خون مارتے رہے اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے دفاع میں کیا کچھ نہیں کیا۔بدقسمتی سے ہم پچھلے 75 برسوں میں کوئی ایسا طریقہ کار یا نظام وضع نہیں کر سکے جس کے بعد ہم یہ دعویٰ کر سکیں کہ ہماری حکومت مکمل جمہوری اور شفاف ہے۔ہم ہرپانچ سال بعد اپنے لوگوں کو یقین دلا رہے ہوتے ہیں کہ ہم الیکشن سے آئے ہیں‘ہمارا سلیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ہماری منتخب حکومتیں اپنے پانچ سال اس بات کا دفاع کرنے میں ضائع کر دیتی ہیں کہ ہم دھاندلی کی پیداوار نہیں اور نہ ہی ہم اداروں کی سازباز سے وجود میں آئی ہیں بلکہ ہم سب سے بڑے جمہوری چیمپئن ہیں اور ہم ہی ہیں جنھوں نے ملک کی تقدیر بدلنی ہے۔پاکستان واحد ملک ہے جس کے  75 برس تجربات میں گزرے،کبھی مارشل لاء اور کبھی رجیم چینج،الیکشن سے بننے والی حکومتیں بھی کہیں نہ کہیں رجیم چینج کا حصہ رہیں اور کسی نہ کسی مقام پر وہ سہولت کاروں کے رضاکار کا کردار ادا کرتی رہیں۔ملکی اداروں کی ملی بھگت اور اندرونی و بیرونی اشرافیہ کے آشیرباد سے بننے والی حکومتوں نے جہاں اداروں کی ساکھ کو مجروح کیا‘وہاں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتی رہیں اور صد افسوس کہ اس سارے ظلم کا دفاع ہمارے طاقت ور ادارے اور لوگ کرتے رہے۔

آج جب 2023ء کا اہم ترین الیکشن ہونے جا رہا ہے تو یہ سوال بہت اہم ہے کہ یہ الیکشن کیسے ہوں گے؟اس حوالے سے ہمارے پاس دو راستے تو بہرحال موجود ہیں۔اگر تو یہ انتخابات محض چند لوگوں اور شخصیات کو نوازنے کے لیے کروائے جا رہے ہیں تو پھر الیکشن پر ملکی سرمایہ ضائع کرنے کی بجائے قرعہ اندازی کر لینا زیادہ بہتر رہے گا‘دبئی پلان کو عملی جامہ پہنانے کا بہترین راستہ بھی یہی ہے کہ مل بیٹھ کر ایک کابینہ بنا لی جائے‘اس پر جن لوگوں کو لانا ہے انھیں بلامقابلہ منتخب کروا لیا جائے‘وزارت عظمیٰ کے لیے پرچیاں ڈال لی جائیں یا پھر اڑھائی اڑھائی سال دو پارٹیوں کو دے دیے جائیں‘تحریک عدمِ اعتماد سب سے شفاف راستہ ہے کسی بھی جمہوری پارٹی کو گھر بھیجنے کا،یہ راستہ زیادہ بہتر ہے‘دوسرے راستے سے۔دوسرا راستہ شفاف انتخابات کا ہے،ہم جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خوف سے باہر نکلیں کہ فلاں کو واپس آنا چاہیے یا نہیں،ہمیں ایک ایسا شفاف نظام متعارف کروانا ہوگا جس پر سوال نہ اٹھایا جا سکے،ہمیں انتخابات کے لیے ایسے راستوں کا تعین کرنا ہوگا جس کے بعد ایک مکمل جمہوری حکومت قائم کی جا سکے،ایسا نظام متعارف کروایا جا سکتا ہے جس سے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کم سے کم ہوں۔ہم بی آر ٹی کا سسٹم بٹھانے کی بجائے ایک متحرک اور نیاسسٹم بھی لانچ کر سکتے ہیں اور یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں۔ہمیں شکست کے خوف سے باہر نکل کر ملکی اداروں اور جماعتوں کی ساکھ اور وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے الیکشن کے نظام اور طریقہ کار کو ایڈوانس کرنا ہوگا۔

ہمیں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کی بجائے انھیں مقابلہ کرنے کی اجازت دینی ہوگی‘اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پرکرپشن چارجز ہیں تو مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی سمیت 13  اتحادی جماعتوں کا سیاسی دامن بھی شفاف نہیں لہٰذا ہمیں سیاسی نظام کی شفافیت کے لیے اپنی اپنی اناؤں کو قربان کرنا ہوگا۔اگر عمران خان اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے رہے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ جنرل انتخابات کے بعد جو بھی حکومت وجود میں آئے گی‘وہ دھاندلی اور امپورٹڈ شپ کے الزامات سے بچ نہیں سکتی۔ایسا کیوں ہے؟کیوں کہ ہم نے 75 برسوں میں یہی کیا اور ہم اگلے 75  برس بھی یہی کرتے رہے ہیں گے‘ہم جب تک ملکی اداروں اور لوگوں کو اپنی اناؤں سے اوپر نہیں رکھیں گے‘اس ملک میں یہی کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔یہاں ہر پانچ سال بعد انتخابات توہوں گے مگر حکومتیں کبھی مدت پوری نہیں کریں گے‘کبھی رجیم چینج اور تحریک عدمِ اعتماد، کبھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے بعد حکومتیں وقت سے پہلے ہی گھر جاتی رہیں گے۔ادارے جب تک اپنی حدود کا تعین نہیں کریں گے‘اس ملک میں الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوتی رہے گی‘یہاں انتخابات ہمیشہ دھاندلی زدہ ہوں گے اور یہاں حکومتیں ہمیشہ صفائیاں دیتی رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاسی جماعتوں کو رجیم چینج کی بجائے چارٹر آف ڈیموکریسی کرنے کی ضرورت ہے جو یہ نہیں کریں گے‘یہ لوگ بیٹھ کر چند پوائنٹس پر متفق ہو جائیں‘یہ ایک دوسرے کو انکار کرنے کی روش سے نکلیں اور اپنے مخالفین کو تسلیم کرنے کی کوشش کریں‘اداروں کی ہر اس مداخلت کو ختم کریں جو جمہوری نظام پر اثر انداز ہو رہی ہے‘ہر وہ کھیل روکا جائے جس نے اس ملک اور اس کے اداروں کو کھوکھلا کیا‘ہر اس کہانی کا اختتام کیا جائے جس نے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر آمریت کا راستہ ہموار کیا۔اگر ہم ایسا کوئی میثاقِ جمہوریت نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں الیکشن کی زحمت نہیں کرنی چاہیے‘ہمیں سلیکشن کا طریقہ کار متعارف کروانا چاہیے‘ہر جماعت اور سیاست دان اپنی باریاں لے اور پھر فیملی سمیت لندن،دبئی،اسٹریلیا یا سویٹرزلینڈ شفٹ ہو جائے‘یہی طریقہ میرے خیال سے بہتر رہے گا۔جنوری سے اب تک،پندرہ ہزار ڈاکٹرز،پندرہ ہزار انجینئرز اور تیرہ ہزار سے زائد آئی ٹی ماہرین ملک چھوڑ گئے،یہ ملک سے گئے نہیں بلکہ نکالے گئے ہیں،ان لوگوں کے پاس یہاں روزگار اور نوکریاں ہوتی تو یہ کبھی سسٹم سے نفرت نہ کرتے،یہ نفرت اس اشرافیہ نے سکھائی جنس نے یہاں جمہوریت کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا،اپنی اناؤں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر حکومتیں بنوانے والوں نے سسٹم کو کس قدر مفلوج کر دیا ہے،شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔الیکشن ہو یا سلیکشن،عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں،عوام دو قت کی روٹی مانگ رہے ہیں اور اگر وہ بھی نہیں ملتی تو پھر آپ انتخاب سے حکومت لائیں یا رجیم چینج سے،عوام الناس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply