• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • لاہور آتش زدگی میں لقمہ اجل بننے والوں کے آخری لمحات،اذیت ناک داستان

لاہور آتش زدگی میں لقمہ اجل بننے والوں کے آخری لمحات،اذیت ناک داستان

اندرونِ لاہور کے علاقے بھاٹی گیٹ کے علاقے میں دو راتیں قبل ایک گھر میں لگنے والی آگ نے ایک ہی خاندان کے دس افراد کی جان لے لی ہے۔ جس میں چھ بچے، تین خواتین اور ایک مرد شامل ہیں۔ لواحقین میں سر دست اس خاندان کے سربراہ ظہیر الدین اپنے ایک پوتے کے ساتھ ہی بچےہیں۔ ظہیر اس وقت گھر میں نہیں تھے اور وہ اپنی والدہ کی عیادت کے لئے انکے گھر تھے جب انہیں رات دو بجے آگ میں گھرے انکے بیٹے کی کال آئی۔ ان پر کیا بیتی؟ آگ میں جل کر موت کو گلے لگانے والوں کے آخری الفاظ کیا تھے؟ اس رپورٹ میں جانتے ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ظہیر الدین کا کہنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کے یہ الفاظ مرتے دم تک نہیں بھول پاؤں گا کہ ابو گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ بس کسی طرح آکر بچوں کو بچا لیں۔متاثرہ خاندان کے پڑوس میں رہائشی اور واقعے کے عینی شاہد محمد علی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سو رہے تھے جب انھوں نے سامنے والے گھر سے چیخوں کی آوازیں سنی۔

انھوں نے بتایا کہ رات دو بج کر پانچ منٹ کا وقت تھا جب سامنے والوں کے بیٹے خان نے آوازیں لگائی کہ علی بھائی ہمارے گھر میں آگ لگ گئی ہے، ہمیں بچائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ متاثرہ خاندان کا ایک بیٹا نیچے تھا وہ گیٹ تک آیا لیکن گیٹ کو تالا لگا ہوا تھا۔ وہ تالا توڑنے میں مدد کی۔
وہ کہتے ہیں کہ میں فورا اپنے گھر گیا اور وہاں سے ہتھوڑی اور پیچ کس لے کر آیا ور گیٹ کی سائیڈ سے اسے پکڑائی کہ تم دروازے کا لاک توڑ دو۔ جس وقت ہم یہ سب کر رہے تھے تو اوپر والی منزل سے بچوں اور ان کے گھر والوں کی چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی دوران ہم نے ریسکیو والوں کو بھی کال ملا دی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بتاتے ہیں کہ میں ساتھ والوں کی چھت پر گیا کہ وہاں سے باقی لوگوں کو نکالوں۔ لیکن جب اوپر گیا تو وہاں بھی تالا لگا تھا اور اندھیرے کی وجہ سے ان لوگوں کو چابی بھی نہیں مل رہی تھی۔ میں نیچے واپس بھاگا۔ میں نے دوبارہ اپنی اوپر والی منزل کی کھڑی سے باقی گھر والوں کو آواز دی کہ ہم کوشش کر رہے ہیں آپ کو نکالنے کی۔ میں نے دیکھا کہ بچوں کی ماں نے اپنا چھوٹا بیٹا گود میں پکڑا ہوا تھا۔ بچہ اور ماں دونوں ہی آگ کی لپیٹ میں تھے۔
محلے کے دیگر لوگ بھی چیخیں سن کر جمع ہو گئے۔ جتنی دیر میں خان تالا توڑنے میں کامیاب ہاو تو اوپر والی منزل میں زور داردھماکہ ہوا۔ میں سمجھا کہ چھت گر گئی ہے لیکن دھماکہ ہوتے ہی آگ کے شعلے باہر تک آئے اور اس کے فوری بعد ہی سب لوگوں کی چیخیں بھی بند ہو گئیں۔ اس وقت ہمھیں معلوم ہو گیا کہ جنھیں ہم بچانے کی کوشش کر رہے تھی وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایک ٹی وی انٹرویو کے مطابق گھر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میرے جس بیٹے کے بچے اور بیوی مرے ہیں وہ توپاکستان میں بھی نہیں ہے۔ دبئی ہوتا ہے۔ اسے میں نے اطلاع دے دی ہے اور وہ واپس آرہا ہے۔ لیکن وہ تو یہاں آتے آتے ہی غم سے مر جائے گا۔ اسے اپنی بیٹی سے عشق تھا۔جب ریسکو والے میرے گھر والوں کی لاشیں اوپر سے نیچے اتار کر لائے تو سب لوگ بری طرح جھلس چکے تھے۔ گھر کا کوئی بھی شخص پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہا۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرا خاندان یوں ختم ہوگیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply