افواہ/محمود اصغر چوہدری

ظہیر کی عمر پچپن سال تھی وہ گزشتہ کئی سال سے ٹرک ڈرائیوری کر رہا تھا اس کا خاندان گوشت کی ہڈیاں ایک فیکٹری کو ٹرک میں سپلائی کرتا تھا ۔ ایک حادثے میں ایک پاؤں سے لنگڑا ہوجانے کے باوجود وہ اپنی ماں اور ایک بڑے خاندان کی کفالت کا واحد سہارا تھا ۔

ایک افواہ کے نتیجے میں اسے انڈیا میں ہجوم نے قتل کر دیا ہے ہجوم کو شک تھا کہ وہ قربانی کا گوشت لیکر جا رہا تھا ۔۔۔
یہ اس عید کی خبر ہے۔۔

اس خبر کو فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں بات کرتے ہیں ایک فلم کی جو اس ہفتے نیٹ فلیکس پر ریلیز ہوئی ہے اس فلم کانام بھی افوا ہ  ہے

اگر آپ نے ابھی تک نہیں دیکھی تو پہلی فرصت میں ہی دیکھ لیں ۔ آپ رائٹر ڈائریکٹر اور تمام ایکٹرز کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے

سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو جس طرح قابو میں کر کے ہم سے روبورٹ یا بندروں والا کام لیا جاتا ہے اس کو ڈائریکٹر نے بڑے اچھے انداز سے سمجھایا ہے ۔

سیاستدان ہوں یا عام شہری کس طرح ہم لوگ اس دجالی سوشل میڈیا کے جال میں پھنس کر اپنے ذہنوں کو گروی رکھ دیتے ہیں اور ایک وائرل ویڈیو کو ہی حق الیقین سمجھ لیتے ہیں کہ اپنے دماغ کا ایک فیصد بھی  استعمال نہیں کرتے بلکہ ایک لمحے میں انسان سے وحشی درندے بن جاتے ہیں وہ اس فلم میں بخوبی سمجھایا گیا ۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ آرٹ شاعری ، موسیقی اور ادب سے محبت رکھنے والے وہ تمام دانشور جو دنیا میں انقلاب لانے کے خواہشمند ہیں اور ہر وقت معاشرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں وہ بھی کتنے بزدل ، کتنے سست ، کتنے ڈرپورک اور وقت آنے پر کتنے نااہل ثابت ہوتے ہیں ،الغرض وہ بھی معاشرے میں پھیلے سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کا ایسے شکار ہوتے ہیں کہ وہ بھی مان لیتے ہیں کہ اگر کوئی چیز وائرل ہوگئی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ تو سچائی ہوگی

کہانی ہے ایک مسلمان شخص کی جو سڑک کنارے ہراس کی جانے والی ایک ہندو لڑکی کو غنڈوں سے بچاتا ہے ۔

لڑکی ایک ہندو فیوڈل لارڈ کی منگیتر ہے جو اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو وہ سیاسی چال چلتے ہوئے پورے ملک میں سوشل میڈیا پر بات پھیلا دیتا ہے کہ لڑکی لو جہاد کے چکر میں مسلمان کے ساتھ بھاگ گئی ہے اب سارا ملک ان دونوں کے خلاف لاٹھیاں اور کلہاڑے لیکر نکل پڑتا ہے۔

وہ دونوں جس ٹرک میں لفٹ لیکر بھاگتے ہیں اس کے بارے ایک جھوٹی ویڈیو وائرل کی جاتی ہے کہ اس میں گائے کا گوشت ہے تاکہ سارا ملک اس ٹرک کو جلانے کے لئے دوڑ پڑے ۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی گیم چلانے کے لئے جھوٹے ٹرینڈ چلا کر ہمارے ذہنوں کو غلام بنا لیتے ہیں اور مذہب کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

فلم کا کلائمیکس کمال کا ہے جب سارے دانشور پڑے لکھے اہل علم اہل ادب لوگوں کے دروازے پر یہ جوڑا پہنچتا ہے تو وہ بزدلی کے مارے اپنے دروازے بند کر لیتا ہے یہ سین ثابت کرتا ہے کہ جو آپ کے سامنے بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں ان کی بھی صرف باتیں ہی ہیں عملی طور پر وہ چوہوں کی طرح دروازہ  بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

واقعی کسی بھی ملک میں پھیلی انتہا پسندی سے مقابلہ کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ کل سے ہوا ہے کل میں نے انسانی حقوق پر ہی ایک پوسٹ لکھی تھی جس کے جواب میں لوگ مجھ سے میرا مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ مانگنا شروع ہوگئے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم انتہا پسندوں سے ڈر کر لکھنا چھوڑ دیں ۔

انڈیا میں ظہیر نامی جس ٹرک ڈرائیور کو اس شک پر قتل کر دیا ہے کہ وہ گوشت لیکر جا رہا تھا وہ بھی محض جھوٹی افوا ہ تھی وہ بے چارہ اپنی بوڑھی ماں کا سہارا تھا ۔ پولیس اسے بچانے کے لئے پہنچ گئی تھی لیکن ہجوم اتنا غصے میں تھا اور سر تن سے جدا  کرنے کی  خواہش میں اتنا جنونی تھا کہ پولیس پر بھی حملہ آور ہوگیا اور پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ سارے انسان اس وقت جانور بن چکے تھے اور ایک معذور نہتے ٹرک ڈرائیور کی  جان لیتے ہوئے وہ ذرا بھی نہیں ہچکچائے

عقیدے سلامت رہیں، انسان مر گیا تھا

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تمام معاشروں میں افوا ہ کے نرغے میں آئی جہالت سے محفوظ رکھے ۔ افواہ  والی جہالت کے سامنے عقل کی ہر دلیل فہم کی ہر بات تدبر کی ہر گفتگو ہار جاتی ہے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply