ویلنٹائن ڈے اور بیچاری نوجوان نسل

ویلنٹائن ڈے اور اس سے جڑی بے حیائی کی ایک ایک جزویات کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اسکی مخالفت کے نام پر نوجوانوں پر لعن طعن کر کے اگر ہم سب اپنے اپنے ایمان کا ثبوت دیکر فارغ ہو گئے ہوں تو میرے کچھ سوالات ہیں، اگر کوئی جواب دے دے۔
ماڈرن ہونے اور دِکھنے کے چکر میں مغرب کے لائف سٹائل کو کاپی ہم کر رہے ہیں، ہالی وڈ اور لالی وڈ کی ہر قسم کی فلمیں سینما کی زینت ہم بنا رہے ہیں، آدھے سے کچھ زیادہ ننگے جسم والے آئٹم سانگ دیکھ اور سن ہم رہے ہیں، فحش سی ڈی اور سٹیج ڈرامے یہاں کھلے عام بک رہے ہیں، ناچ گانا ہمارے عید تہوار اور خوشی کے موقعوں پر ہوتا ہے، دو کلو میٹر گاڑی ہم سے ہنی سنگھ کا گانا سنے بغیر چلتی نہیں ہے،
اور۔۔۔۔ جوان نسل کے لیے نکاح کا ٹائم آئے تو کسی کو اپنی برادری میں کرنی ہے تو کسی کو اپنی بہن کو دی گئی قسم یاد آجاتی ہے۔ کسی کو مسلک سے باہر بچوں کی شادی حرام لگتی ہے تو کسی کو چاند سی بھابھی چاہیے اور کسی کو ویل سیٹلڈ لڑکا، اور اکثر کو تو بچوں کا اپنی پسند کا بتانا بھی بے حیائی لگتا ہے۔بات اس سب سے آگے بڑھ جائے تو لڑکی کی شکل، تعلیم، جسم، وزن، قد اور لڑکے کا سٹیٹس، نوکری، بینک بیلنس سب کی کڑی شرائط۔
یہ مرحلہ گزرنے کے بعد بھی 5, 10 لاکھ کا شادی کا خرچا، 10، 20 تولہ زیور، لڑکی کے نام گھر یا پلاٹ ،لاکھوں کے لہنگے، مایوں، مہندی، برات ولیمے کے خرچے، پورے سسرال کے جوڑے، رسومات کے نام پر پتا نہیں کس کس کو پیسے دینا، ویلیں دینا، نوٹوں کے ہار، پھر شادی کے بعد دوبارہ دعوتیں، وہ بھی جوڑے کے آگے پیچھے کے سارے رشتہ داروں سمیت۔پھر بھی اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دیں اور وہ ہمیں عجیب نظروں سے نا دیکھیں تو قصور کس کا ہوا ؟آپ نے نکاح کو آسان بنایا ہی کب ہے جو بچارے نوجوانوں کو حلال حرام کہہ کہہ کر جہنم میں ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں؟
ہر تیسرے گھر میں کوئی نا کوئی لڑکی شادی کے انتظار میں بالوں میں چاندی لیے اپنے بھائی بھابھی کی خدمت کر رہی ہے اور ہر دوسرے گھر کا لڑکا تعلیم پر باپ کی آخری جمع پونجی خرچ کرنے کے باوجود ملک میں بڑھتی بےروزگاری کی وجہ ملک سے باہر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اور جو پہنچ جاتا ہے وہ اپنی جوانی کچھ کاغذ کے زیادہ ٹکڑوں کے بدلے مٹی کر کے آدھا گنجے اور پونا خبطی ہو کر شادی کے لیے آجاتا ہے کیونکہ اسکے بغیر نا انکے ماں باپ کی ناک اونچی ہوتی ہے اور نا کوئی لڑکی دینے پر راضی ہوتا ہے۔
جن جن کو ویلنٹائن ڈے برا لگتا ہے یا معاشرے کے جوان جوڑوں کے ڈیٹ پر جانے سے انکا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے، بسم اللہ کیجیے اپنے خاندان سے نکاح آسان بنائیے۔ ورنہ قانونی ہی سہی 18 سال میں چڑھی ہوئی جوانی کو اگر آپ چاہتے ہیں کہ جوان 35 سال کی عمر تک سنبھال کر رکھیں تو یا تو آپ نے اپنے گھر کسی ولی اللہ کی پرورش کی ہے، یا پھر وہ میڈیکلی فٹ نہیں ہے ج
کیا آپ نے ان کو جنت نظیر ملک اور مثالی معاشرہ دیا تھا ؟ کیا اِن سے پہلے دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟ جو ان سے وہ امیدیں وابستہ کر رہے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اگر اِن جوانوں کی حرکتوں پر اعتراض ہے اور تمام فتوے انہی کے لیے رہ گئے ہیں تو صاحب قصور آپ کا بھی ہے۔ یہ ہم سے پچھلی نسل کی ہی تربیت ہے، فرشتے چاہیے تھے تو جنت نظیر معاشرہ دیتے۔ جناب گھاس اگا کر گندم کی فصل کاٹنے آگئے ہیں آپ۔
قصور آپ کا ہی ہے جناب۔ آپ تو منی بیگم کی غزلیں اور دل دل پاکستان سنتے جوان ہوں، اور آج کل کے نوجوان بم دھماکے، فائرنگ، سن کر جوان ہوں؟ آپ تو بنا روک ٹوک کشمیر سے کراچی آ جا سکتے تھے اور یہ بچارے کالج سے گھر بھی چار جگہ تلاشی دیکر آتے ہیں، آپ کے ایک والد آٹھ بچوں کو پال لیں، اور یہ میاں بیوی، بچے بڑے کام کر کر کے بھی بل ادائیگی کے باوجود بجلی سے محروم رہیں؟ کیا اب بھی انکا قصور ہے؟
یہ معاشرہ انہوں نے آپکو سونپا ہے یا آپ نے انکو کھٹارا گاڑی میں بٹھا کر ریس میں جیتنے کے لیے حیران پریشان کھڑا کر دیا ہے؟ یہ فرسودہ نمود و نمائش اور رسم و رواج کا کوہِ ہمالیہ جیسا بوجھ آپ نے ہی انکے کندھوں پر ڈالا ہوا ہے۔ پچیس سال سے ناراض 875 رشتہ داروں کو ایک وقت کا دکھاوے کا کھانا کھلانے کے لیے یا تو آپکو کمیٹیاں ڈالنی پڑتی ہیں یا آپکی اِسی بچاری بگڑی ہوئی جوان نسل کو اپنے خون پیسے کی کمائی پیٹ کاٹ کر جمع کرنی ہوتی ہے۔ خوش پھر بھی وہ نہیں ہوتے، کسی اور بات پر کچھ ماہ بعد پھر ناراض۔
ہمیں مان لینا چاہیے کہ یہ نوجوان ہمارے ہی ہیں اور یہی ہمارا مستقبل ہیں۔ نئے دور کے نئے چیلنجز سے نمٹتے یہ جوان ہی ہیں جو آپکے بنائے گئے ٹوٹے پھوٹے معاشرے میں پلے بڑھے ہیں۔ فرشتے جنت میں ملتے ہیں، جہنم جیسے معاشرے میں خراب تربیت دیکر آپکو نا فرشتے ملنے ہیں نا ولی اللہ۔ یہی ملنے ہیں جو پالے ہیں اور جیسی تربیت کی ہے۔ ان کی قدر کریں اور ان کے لیے معاملات آسان کیجیے۔ آپ پہلے ہی ان کو دہشت گردی، شدّت پسندی، توانائی کی قلت، پانی کی قلت، بے روزگاری، بھتہ خوری اور عدم برداشت والا معاشرہ دیکر آدھا ذہنی مریض بنا چکے ہیں۔ ان کو پیار سے سنبھالیں اور انکو معاشرے کا بہترین فرد بنانے کی تگ و دو کریں ورنہ اگر مغرب سے فلم، فیشن اور ٹیکنالوجی آسکتی ہے تو اولڈ ہوم بنانے میں بھی ٹائم نہیں لگے گا، اور آپ باقی کے سال اولڈ ہوم کی کھڑکی سے باہر کرکٹ کھیلتے بچوں کو دیکھ کر یہی سوچیں گے کہ ہم سے غلطی کہاں ہوئی۔

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply