• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ترجمہ:
سناٹے کی آغوش میں زندگی
اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی اپنے سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟ لیکن حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے ؟ آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کو کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے یہ سن کر ام اسماعیل کو تسکین ہوگئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے۔ حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں۔ حضرت ابراہیم جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کرلیا کہ اب حضرت ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کرسکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا آیت (رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ) 14 ۔ ابراہیم :37) الہ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ادھر حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہوگیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں ؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آسکتا آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آجائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو ؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں ؟ آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا۔ حضرت ہاجرہ (علیہما السلام) نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کردی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بےفکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا حضرت ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ خدا کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں ؟ چناچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور حضرت ام اسمعٰیل سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چناچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا حضرت اسماعیل بھی بڑے ہوگئے ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہوگئی یہاں تک کہ آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ (علیہما السلام) کا انتقام یہیں ہوا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے یہاں آئے تو حضرت اسماعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ کیا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا اچھا تمہارے خاوند آویں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ حضرت ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے ؟ بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے ؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے ؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں ؟ بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں آپ فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ (چونکہ تم نے ناشکری کی) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کرلیا ایک مدت کے بعد پھر حضرت ابراہیم باجازت الٰہی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً حضرت ذبیح سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے ؟ جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے حضرت ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے ؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو ؟ جواب ملا پانی آپ نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو حضرت خلیل (علیہ السلام) ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کرسکتے ہیں۔ اور لوگ نہیں کرسکتے آپ نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور اباد رکھیں بعد ازاں حضرت اسماعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں (تم شکر گزار ہو)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply