• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈالر کا زوال بدلتی دنیا کی علامت/ڈاکٹر ندیم عباس

ڈالر کا زوال بدلتی دنیا کی علامت/ڈاکٹر ندیم عباس

دس سال پہلے لاہور ائیر پورٹ سے بیرون ملک پرواز کے لیے بورڈنگ کرا رہا تھا کہ ایف آئی اے کے آفیسر نے پوچھا آپ کے پاس پاکستانی کرنسی تو نہیں ہے؟ میں نے کہا ہے، اس نے کہا آپ سامنے سے اسے ڈالر میں چینج کرا لیں، پھر آپ کی بورڈنگ ہوگی۔ ہم نے پوچھا وہ کیوں؟ تو انہوں نے کہا یہ بین الاقوامی قانون ہے کہ آپ ایک حد سے زیادہ ڈالر کے علاوہ کوئی کرنسی باہر نہیں لے جا سکتے۔ اس دن ہم پر یہ آشکار ہوا کہ ہماری اپنی کرنسی کا بارڈر سے باہر کوئی پرسان حال نہیں ہے اور ہر طرف ڈالر کی ریل پیل بلکہ حکمرانی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا کی معیشت ڈالر پر کھڑی ہے اور ڈالر امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، اس کی مشینیں دن رات لگا کر جتنا مرضی چھاپ لیں۔ بین الاقوامی تجارت کو پڑھنے کا موقع ملا تو اس وقت یہ راز کھلا کہ دنیا میں ہونے والی تجارت ڈالر میں ہوتی ہے اور اس طرح ہر سودا براہ راست امریکی معیشت کو فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے۔

ابھی ٹی وی پر یہ کلپ دیکھا کہ کینیا کے صدر ڈالر کی عزت افزائی فرما رہے ہیں، کہتے ہیں کہ جب کینیا جبوتی کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا ہے تو وہ ڈالر میں ہی کیوں کرے؟ کینیا کے صدر نے افریقی ممالک سے کہا کہ وہ اپنے تجارتی معاملات سے ڈالر کو نکال دیں۔ جب ہم چاہتے ہیں کہ افریقہ کے کسی ملک کے ساتھ چیزوں اور خدمات کے بدلے چیزیں یا خدمات دیں تو پھر ڈالر ہی کیوں؟ ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نظام بنایا جائے، جس میں افریقہ کے ممالک افریقی کرنسیوں میں تجارت کریں۔ جب میں اپنے پڑوسی ملک سے چیز خرید رہا ہوں تو اس کی پیمنٹ ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی میں ہی کروں۔ اس پر تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ افریقہ میں ڈالر سے نجات پانے کے لیے کافی عرصے سے کوشش کی جا رہی ہے۔ افریقی رہنماء بار بار اپنے مسائل کی وجہ اور معاشی بربادی کا ذمہ دار ڈالر کی معیشت کو قرار دیتے ہیں۔ اب ڈالر مخالف ہوائیں کافی تیز ہو رہی ہیں اور ڈالر کو جھٹکے لگ رہے ہیں۔

روس اور چین نے 2014ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کا مقصد چین اور روس کے درمیان بالترتیب اپنی کرنسیوں یوآن اور روبل کا استعمال کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔ اس اقدام نے بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں امریکی ڈالر کے غلبہ کو چیلنج کیا۔ صدور ژی اور پوتن کے درمیان 2023ء کی ملاقات دونوں ممالک اپنی اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔ ماہرین کے مطابق روس اور چین دو بڑے ممالک ہیں، جنہوں نے تیل کو ڈالر سے مقامی کرنسی میں منتقل کرنے کی طرف بڑی پیش رفت کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کافی عرصے سے اس پالیسی کا علمبردار رہا ہے کہ ڈالر کے نظام سے نکلنے میں ہی دنیا کی بھلائی ہے۔ اسی لیے روس اور ایران نے ناصرف مقامی کرنسیوں میں تجارت پر اتفاق کیا بلکہ عملی اقدام اٹھاتے ہوئے ایرانی بنکوں نے روس اور روسی بنکوں نے ایران میں اپنی برانچوں پر کام شروع کیا، تاکہ اسے عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

امریکہ نے عملی طور پر پابندیاں لگا لگا کر اپنے زعم میں ایران کو سبق سکھانے کی کوشش کی تھی، مگر اس کا الٹ نتیجہ نکلا ہے۔ اب دنیا بیدار ہو رہی ہے کہ ڈالر کے ظالمانہ نظام کے بغیر بھی رہا جا سکتا ہے اور ترقی کی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب امریکی ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں تجارت پر غور کرے گا، سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا کہ ہم اپنی تجارت کو امریکی ڈالر، یورو، سعودی ریال سمیت دیگر کرنسیوں میں کرسکتے ہیں۔ 2023ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور چینی صدر شی جن پنگ نے توانائی اور تجارت پر تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا اور اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ سعودی عرب چین کو یوآن میں تیل فروخت کرے گا۔ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا سعودی عرب روایتی طور پر تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرتا ہے۔ تاہم یہ تبدیلی بین الاقوامی تجارت، مالیات خاص طور پر تیل کی منڈی میں امریکی ڈالر کے غلبہ کو مزید کم کرسکتی ہے۔

یاد رہے کہ 1970ء سے تیل کا لین دین ڈالر میں ہی ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ڈالر دنیا میں چھایا ہوا تھا۔ برازیل اور ہندوستان دنیا کی دو ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں، ان دونوں نے بھی دیگر کرنسیوں میں تجارت کرنے کے متعلق عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگر دنیا ڈالر سے دیگر ذرائع تجارت کی طرف منتقل ہوتی ہے تو اس کے امریکی معیشت پر بہت گہرے اثرات ہوں گے۔ بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں امریکی ڈالر کے غلبے نے امریکہ کو اہم اقتصادی طاقت بنا دیا ہے اور اسے پابندیوں لگانے سمیت دیگر اقتصادی ہتھیار دیئے، جس کے ذریعے وہ دوسرے ممالک پر اثرانداز ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ڈالر کے دائرہ کار میں کمی کا رجحان جاری رہتا ہے تو یہ اس کی طاقت کو کمزور کرسکتا ہے اور امریکہ کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کو حاصل کرنا مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کچھ عرصہ پہلے بڑا معنی خیز جملہ کہا تھا کہ ڈالر نے رات کو امریکہ جا کر سونا ہوتا ہے۔ اب لگ یوں رہا ہے کہ امریکہ میں ہی رہے گا تو سوئے گا بھی امریکہ میں ہی، اسے دنیا میں آنے جانے کی زحمت زیادہ نہیں ہوگی۔ملائیشیا اور چین ایشیائی مالیاتی فنڈ شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگر یہ بن جاتا ہے تو چینی کرنسی کو مزید استحکام ملے گا اور چین اسی سمت کام کر رہا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply