غریب کا بچہ/روبینہ فیصل

شہباز گِل پر “میں ” نہیں لکھوں گی تو کون لکھے گا؟۔۔”میں ” پاکستان کا ایک مڈل یا لوئر مڈل کلاس شہری ۔۔غریب کا بچہ۔۔۔
” میں “وہ اوورسیز پاکستانی جس کے کم بخت دل سے اپنے آبائی وطن کی محبت ختم ہی نہیں ہو تی۔۔غریب الوطن۔۔
میں نہیں لکھوں گی تو کون لکھے گا؟
شہباز گِل پر اب نہیں تو کب لکھا جائے گا؟
شہباز گل نے اپنی حالیہ پریس کانفرس میں جو باتیں کی ہیں ان پر بات کر نے سے پہلے میں مبالغہ کئے بغیر یہ کہوں گی؛کہ مارٹن لوتھرکنگ کی مشہور ِ زمانہ تقریر۔۔” آئی ہیو آ ڈریم”کے بعد اگر مجھے کسی تقریر نے متاثر کیا ہے تو وہ شہباز ِ گل کی یہ والی  تقریر ہے۔

اس سے پہلے مختار مسعود کی” آوازِ دوست” میں بہا در یار جنگ کے بہترین مقرر ہو نے کے بارے میں پڑھا تھا، لیکن چونکہ ان کی کوئی ریکارڈ شدہ  تقریر نہیں ہے اس لئے اس کا تصور ہی کیا تھا۔آج شہباز گل،جس انداز سے بولا، جو اس کی باڈی لینگوئج تھی، جس طرح جملوں کی ادائیگی کی،میں کہہ سکتی ہوں کہ میں نے آج بہادر یار جنگ کو سن لیا۔۔
اس کا اعتماد، جارحانہ پن،علمیت اور لفظوں کی جنگ، یہ سب ایک ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا اور اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے والا ہی کر سکتا تھا، کوئی بلاول، حمزہ یا حسن، حسین نہیں۔۔

ہم عام لوگ جانتے ہیں پاکستان کے اندر مافیانیٹ ورک اور بااثر خاندان کا ہونا کس قدر کمال کی اور ہمارے زوال کی بات ہے کہ اس کے بعد آپ کی اپنی ذات کا کمال یا جمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ شہباز گل نے بالکل ٹھیک کہا، جب آپ کسی کو ٹھیکے دے کر، کسی کو بھرتی کروا کر، کسی کو عہدوں سے  نوازتے ہیں تو اس دانوں سے بھرے خاندانوں کے کملوں کو سیانا کر نے کے لئے پو ری ایک مشنری ساتھ کھڑی ہو تی ہے۔اس نیٹ ورک میں آپ کے ہر سیاہ کو سفید کر کے دکھانے والے دانشور بھی ڈھیروں کے حساب سے پڑے ہیں۔

فرانس میں جب انقلاب آیا تھا تو اس کا دانشور طبقہ بادشاہت کی  مخالف سمت میں کھڑا تھا اور محلات کے اور رانی کے شاہی اخراجات برداشت کر نے والی پسی ہو ئی عوام کو شعور دے رہا تھا۔

ہمارے ملک میں انقلاب یا کوئی بڑی تبدیلی نہ آنے کی بہت ساری اور وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ ہمارا بے ضمیر اور بِکا ہوا دانشوراور صحافی ٹولہ ہے، جو اپنے شخصی مفادات کی خاطر اپنا قلم بیچ دیتے ہیں اور شاہی خاندانوں کے کالے کرتوتوں کو قلم کی نیلی سیاہی سے ڈھانپ لیتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ نو ماہ میں ہو نے والے جبر نے پرانے آمرانہ نظام کے بھی تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔پاکستانیوں کو ہر ظلم،چاہے وہ مہنگائی کا ہو، لاٹھیاں کھانے کا ہو، آنسو گیس اپنے آنسوؤں کے ساتھ پینے کا ہو، ارشد شریف کے جواں سال جنازے کو کندھا دینے کا ہو،حق گو صحافیوں پر اپنے وطن کی زمین تنگ ہو نے کا ہو، نوجوان لڑکیوں کی عزتوں کی سر ِ عام بے حرمتی ہو، عورتوں کا تقدس، چادر اور چار دیواری سمیت پامال کیا گیا ہو، بزرگ سیاستدانوں کو ننگا کیا گیا ہو،انہیں دھکے مارے گئے ہو ں،عام کارکن پُل سے گر کر مر گیا ہو، یا کوئی بھی ظلم ٹوٹ پڑا ہو۔۔ بڑے خضوع و خشوع سے سہنے کی عادت پڑ چکی ہے۔

سچ ہی ہے کہ جن لوگوں کو ظلم سہنے کی عادت ہو پڑ جائے، وہ پھر بس سہتے ہی جاتے ہیں۔ سو ہم بھی سہتے جا رہے ہیں۔
ہم لوگ ذلتوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔۔ایسے میں اگر شہباز گل ہمارے دل کی آواز بن کر گر ج رہا ہے، ہمارے حصے کے ڈنڈے، بجلی کے جھٹکے کھا رہا ہے تو کیا ہم اس کی آواز میں اپنی آواز بھی نہیں ملا سکتے؟۔
پرا ئمری سکول تک، در خت کے نیچے اور ٹاٹ کے اوپر بیٹھ کر پڑھنے والا جب اپنی محنت اور لگن سے اپنے خوابوں کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے تو
ا س کایہی حال ہو تا ہے۔۔جو اس غریب کے بچے کا ہورہا ہے۔۔ وہ کہتا ہے؛
“میں اسماعیل گل کا پو تا ہوں،جو امرتسر سے ہجرت کر کے بھی اپنے اِس فیصلے میں الجھے رہتے تھے کہ اپنا دیس چھوڑ کر ٹھیک کیا یا غلط کیا۔۔ یہ سوال انہیں ساری زندگی ڈستا رہا۔۔ جب مودی سرکار میں یوگی نے کہا مسلمانو! ملک چھوڑو تو میں نے امریکہ سے بیٹھ کر اپنے دادا کے اس الجھے سوال کا جواب اپنے ایک کالم میں دیا کہ دادا! آپ نے ٹھیک کیا تھا۔۔ ورنہ اب آپ کچھ ہزار ہاتھ میں پکڑے ہندوستان سے ذلیل ہو کر نکل رہے ہو تے۔۔ لیکن اگراب دادا یہ دیکھ لیتے کہ ان کے پوتے کو پاکستان میں ہی ننگا کر کے مارا کیا گیا ہے،غدار کہا گیا ہے۔ تو دادا اپنے ہجرت کے فیصلے پر ضرور پچھتاتے۔ اور اگر مجھے پتہ ہو تا کہ پاکستان میں میرے ساتھ یہ سلوک ہو نا ہے تو میں بھی اس وقت امریکی اخبار میں یہ کالم نہ لکھتا کہ میرے دادا کا فیصلہ درست تھا۔

سولہ دن مجھے قید میں رکھا گیا، ہر طرح کی اذیت دی گئی لیکن میں نے پھر بھی اپنی بیوی تک کو منع کردیا کہ کسی انسانی حقوق کے ادارے میں ای میل نہ لکھنا کہ اس سے میرے ملک کے اداروں کی بدنامی ہو ورنہ یہاں تو سوئی چبھنے پر بھی یو این او،کو خط لکھے جا تے ہیں۔۔”
شہباز کی اس بات کی گواہی تو ہم بھی دے سکتے ہیں کہ کیسے کبھی زرداری کی ایما پرحسین حقانی امریکہ کو جا کر فوج کی شکایت لگاتارہا ہے اور کبھی شہباز شریف اپنے بھائی نواز کے کہنے پر کلنٹن کے دربار میں پہنچ کے فوج کی چغلیاں کرتا رہا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے پاکستان صرف حکومت کر نے کے لئے بنا ہے۔ جنہوں نے پاکستان سے اتنا کھایا ہے کہ اس کا ایک فی صد بھی شہباز گل کھا لیتا تو اس وقت کم از کم دو چارصحافی یا دانشور تو اس کی جیب میں بھی ہوتے اور اس کے حق کے لئے آواز بلند کرتے۔۔مگر چو نکہ وہ ایک آئیڈیلسٹ ہے، جو عمران خان کی آواز پر لبیک کہتا آگیا۔۔جب آیا تو ا س کے کندھوں پر ان تیس کلاس فیلوز کا بھی بوجھ تھا، جو اس کے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور جوآج بھی پاؤں کے پھٹے تلوؤں کے ساتھ وہیں پر اندھیروں میں گُم ہیں۔

شہباز گِل نے امریکہ کی بہترین یو نیورسٹی سے جو روشنی لی، اسے ہتھیلی پر اٹھائے، وہ ایوان بالا میں جا پہنچا۔۔ مگر وہ ایک عام انسان نذیر احمد گَل کا بیٹا ہو نے کی وجہ سے آسان ہدف بنا رہا۔ اس نے حکومت میں اہم عہدوں پر رہتے ہو ئے بھی کسی اپنے کو نہیں نوازا،اس نے کبھی سرکاری پٹرول تک اپنی ذاتی گاڑی میں استعمال نہیں ہو نے دیا۔
مگر سوچ لیا گیا کہ ایسے مڈل کلاسیو ں کو،ایسے خواب دیکھنے والوں کو، ایسی ایمانداری دکھانے اور کرپٹ ا شرافیہ اور ان کے بچوں سے سوال پوچھنے کے جر م میں ا یسی سزا دی جائے کہ آئندہ کسی غریب کی یہ جرات نہ ہو سکے۔

شہباز گِل کہتا ہے؛” چھ مہینوں میں جو کچھ میرے ساتھ کیا جا چکا ہے اس سے آگے کیا کریں گے۔ مجھے ای سی ایل میں ڈال گیا ہے تاکہ میں اپنے بیوی بچوں کو  ملنے نہ جا سکوں، میری پی ایچ ڈی کرتی ہوئی بیوی پر جھوٹا کیس ڈال دیا ہے تاکہ وہ پاکستان نہ آسکے۔ یہ مجھ پر ہر قسم کا ظلم توڑ بیٹھے ہیں۔ مجھ  پر بلوچستان اور نہ جانے کہاں کہاں خفیہ ایف آئی آرز درج کروا رکھی ہیں۔ اب تو میں سزائے موت سے کم پر نہیں ٹلوں گا۔ مجھے ایک ہی مرتبہ مار دو۔۔ لیکن خدا کے واسطے مجھے غدار نہ کہو۔۔انڈیا نے گوروں کے بنائے ہو ئے غداری کے قانون کی 124 اے والی شق ختم کر دی ہے مگر پاکستان میں آج بھی اسے زندہ رکھا گیا ہے۔ ”

شہباز گل کے اس سوال کے جواب میں میرے پاس کہنے کو یہی ہے کہ انڈیا چونکہ آزاد ہو چکا ہے اور آزاد ملک میں غدار کیوں پیدا ہونے لگے۔ غدار تو غلام ملک میں پیدا ہو تے ہیں اسی لئے ان جابروں اور بادشاہوں کو پاکستان میں ان کے پیدا ہونے کا اندیشہ رہے گا۔
غدار بنانے کی یہ فیکٹری لگی ہی رہے گی اور قرعہ محب وطنوں کے نام نکلتا رہے گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شہباز گل نے اوور سیز پاکستانیوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ جہاں ہو وہیں بیٹھے رہو، کوئی روشن خواب اٹھائے اس اندھیر نگری میں آنے کی حماقت نہ کرنا ورنہ مارے جا ؤ گے۔۔
شہباز گِل نے ثابت کیا ہے کہ ٹاٹ سکول سے اٹھ کر لیڈر شپ پڑھنے اور پڑھانے والاجوان ایک حقیقی لیڈر بن سکتا ہے۔ ایسے آئیڈلسٹ، خواب دیکھتے بھی ہیں اور پھر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عملی میدان میں کبھی پیادے، کبھی گھڑ سوار لیڈر بن کر لڑتے بھی ہیں۔
مگرسوال تو یہ اٹھتا ہے۔۔ کہ غریب کے اس بچے کا، غریبوں کے دوسرے بچے کتنا ساتھ دیں گے؟ یا وہ اشرافیہ کے بیوٹی باکس اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے جوتے پالش کر نے کو ترجیح دیں گے۔۔؟
میں اگر جسم بانٹوں
تو کیا تم مرے ساتھ راہوں میں
اپنے بریدہ سروں کے
عَلم لے کے نکلو گے؟
میں اگر رات لکھوں
تو کیا تم کر ن بن کے
کالی ہوا ؤں کے
صفحوں پر اترو گے؟
(نذیر قیصر)

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply