رازق بگٹی سے گلزار امام تک/ذوالفقار علی زلفی

“آزادی یا انقلابی تحریکیں سخت ہوتی ہیں، یہ دہکتے انگاروں پر چلنے جیسا ہے ـ کچھ لوگ تھک جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض پھسل جاتے ہیں مگر تحریکیں چلتی رہتی ہیں” ـ

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں خیابان سحر پر واقع ایک بنگلے میں مقیم ضعیف العمر بلوچ سردار؛ خیر بخش مری نوجوان طلبا سے گفتگو کر رہے تھے ـ

سردار کا اشارہ غالباً ماضی کے انقلابی رہنما اور اس وقت کے ترجمان بلوچستان حکومت رازق بگٹی کی جانب تھا ـ رازق بگٹی طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے انقلابی رہنما تھے ـ انہیں اس دور میں لینن اسٹ نظریے کے استاد کا درجہ حاصل تھا ـ اس زمانے میں بلوچستان کی دیواروں پر تین شخصیات کا ذکر کثرت سے نظر آتا تھا ـ

انقلاب کے تین نشان
رازق، جالب، کہور خان

مارکسی بنیادوں پر بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے یہ تینوں سرخیل نوجوان انقلابیوں کے محبوب ہوا کرتے تھے ـ مارکسزم، لینن ازم، جدلیاتی مادیت، معروضی و موضوعی حالات، تضادات کی سائنس، ماؤ ازم، روسی انقلاب، مزدور تحریک وغیرہ جیسی اصطلاحات میں ملفوف مباحث کرنے والے ان تینوں رہنماؤں نے کراچی سمیت بلوچستان کے کونے کونے میں انقلاب کے پرچم لہرائے ـ

وقت بدلا ـ انقلاب کے یہ تین نشان مٹتے چلے گئے ـ رازق بگٹی پاکستانی فوج کے غیر مسلح سپاہی بن گئے، کہور خان بیوروکریسی کو پیارے ہوگئے جب کہ حبیب جالب نے سردار اختر مینگل کی صوبائی خودمختاری کی بس پکڑ لی ـ بلوچ تحریک مگر چلتی رہی ـ

گلزار امام بھی ایک ایسے ہی انقلابی ثابت ہوئے ـ زمانہ طالب علمی میں وہ سردار اختر مینگل کی بس میں سوار ہوکر صوبائی خودمختاری لینے نکلے ـ راستے میں انہیں غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نذر مل گئے ـ انہیں بس کے غلط ہونے کا احساس ہوا ـ وہ قومی آزادی کی جدوجہد کا حصہ بن گئے ـ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت/قتل کے بعد وہ غیر مسلح جدوجہد ترک کرکے پہاڑوں کے مسافر بن گئے ـ چند سالوں بعد بلوچ تحریک میں سردار اور مڈل کلاس کی بحث شروع ہوئی ـ اس بحث سے محنت کش بہرحال غائب ہی رہا، بقول شخصے محنت کش طبقہ بلوچستان میں وجود ہی نہیں رکھتا ـ

سردار اور مڈل کلاس کی بحث نے شدت پکڑی ـ گلزار امام نے سرداروں سے قطع تعلق کرکے مڈل کلاس مسلح تنظیم تشکیل دے کر اس کی قیادت سنبھال لی ـ اب وہ ایک ایسے کلیدی رہنما بن چکے تھے جو اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے ـ گویا اب وہ انقلاب کا نشان تھے ـ

گزشتہ سال بلوچ سیاسی حلقوں میں خبر گردش کرنے لگی گلزار امام پاکستانی خفیہ اداروں کے جھانسے میں آکر ترکی سے گرفتار ہوچکے ہیں ـ پاکستان میں عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا بازار گرم تھا ـ گلزار امام کے حوالے سے مکمل خاموشی تھی ـ چند مہینے بعد ایک جلاوطن منہ پھٹ سیاسی کارکن جو ادیب بھی ہیں نے فیس بک پر پوسٹ لگائی گلزار امام آئی ایس آئی جوائن کر چکے ہیں ـ خوش فہم یا شاید بے خبر بلوچوں نے اس سیاسی ادیب کو سخت سست کہا ـ چند دنوں بعد پاکستانی فوج نے گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق کردی ـ

گرفتاری کی تصدیق کے بعد ایک مسلح و ایک غیر مسلح تنظیم کے درمیان سوشل میڈیا پر لفظی جنگ چھڑ گئی ـ مسلح تنظیم کا اصرار تھا گلزار امام کو پاکستان کے جال میں پھنسوایا گیا ہے جس کی ذمہ داری ایک غیر مسلح آزادی پسند تنظیم کے عہدے داروں پر عائد ہوتی ہے ـ ان کے مطابق یہ اطلاع ہمیں خود گلزار امام نے ہی دی ہے ـ یقیناً یہ ایک عجیب و غریب دعوی تھا ـ بات بڑھتی چلی گئی ـ

لفظی جنگ جاری ہی تھی کہ گلزار امام نے پریس کانفرنس کرکے سب سے پہلے “قوم” سے معافی مانگی، اس کے بعد انہوں نے تحریک آزادی کو غلط قرار دے کر پاکستانی فریم ورک میں رہ کر پرامن سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا ـ اس حوالے سے انہوں نے ریاست کو ماں کی علامت قرار دے کر اپنے لئے موقع کا مطالبہ بھی کیا ـ

یہ پہلی دفعہ ہے جب بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے کسی گرفتار رہنما نے میڈیا پر آکر ایسی بات کی ہے ـ اس سے پہلے بلوچ رہنما و کارکن جبری گمشدگی کا شکار بن کر لاشوں کی صورت بازیاب ہوتے تھے ـ ممکن ہے پاکستانی نوآبادکار نے پرانی پالیسی کو فضول سمجھ کر نئی پالیسی کی ابتدا کی ہو ـ گلزار امام سے پہلے ایک خاتون ماھل بلوچ کو بھی اسی طرح میڈیا پر پیش کیا گیا تھا مگر ماھل بلوچ اور گلزار میں زمین آسمان کا فرق ہے ـ گلزار امام ایک سرد و گرم چشیدہ رہنما ہیں عین رازق، جالب و کہور خان کی طرح ـ

ایک “باخبر” پاکستانی صحافی کے مطابق اس نئی پالیسی کا موجد چین ہے جس نے پاکستان کو گرین سگنل دیا ہے ـ مزکورہ “باخبر” صحافی مگر گرین سگنل کی وضاحت نہیں کر پائے ـ

بہرکیف ـ بقول بابا خیر بخش مری “آزادی یا انقلابی تحریکیں سخت ہوتی ہیں، یہ دہکتے انگاروں پر چلنے جیسا ہے ـ کچھ لوگ تھک جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض پھسل جاتے ہیں مگر تحریک چلتی رہتی ہے” ـ

Advertisements
julia rana solicitors

گلزار امام بھی شاید بسیں بدل بدل کر تھک گئے ہیں ـ اب وہ “باپ” پارٹی کا حصہ بن کر کم از کم پروم کی سڑکیں ہی پکی کرلیں ـ ہوسکے تو پروم کے کسانوں کی مدد کریں جن کی کھجوریں ہر سال ضائع ہوجاتی ہیں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply