گلگت بلتستان میں آئینی حقوق پر سیاست۔۔ شیرعلی انجم

گلگت بلتستا ن کے لوگ نہایت ہی سادہ اور بڑے  دل والے ہیں ۔یہاں کے عوام کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ  وہ  کسی بھی بات کو دل میں نہیں رکھتے۔ اس خطے کے عوام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہم یقین جلد کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کئی ایسے مالیاتی سکینڈلز ہوئے جہاں لوگوں نے مذہب، مسلک اور کاروبار کے نام پر لوگوں کو لوٹ لیا اور رفو چکر ہوگئے، مگر عوام نے نہ کوئی احتجاج کیا نہ  کو ئی  دھمکی   اور نہ ہی نظام نہ ہونے پر ریاست کو مورد الزام ٹھہرایا بلکہ صرف بدعائیں دی۔ جعلی بنک سکینڈل یا لینڈ گریبینگ کا معاملہ، سود پر قرض دینے کا معاملہ ہو  یا  سرکاری  نوکریوں کے نام پر لوٹ مار، ہمارے عوام صرف بدعائیں دینے کو  ہی ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن ایک معاملہ ایسا بھی ہے ، کہ   ہمارے 22لاکھ سے  زیادہ عوام جن کو مردم شماری میں کم کرکے15لاکھ دکھایا  گیا ہے، بڑے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں میرا مطلب گلگت بلتستان کے عوام  ہین ۔پاکستانیت کے معاملے میں ہم نہایت ہی نازک مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،  اس کی وجہ ہماری کمزوری نہیں بلکہ حُب الوطنی ہے جس کی بناء پر تمام تر قانونی اور آئینی حقائق سامنے ہونے کے باجود ہمارے عوام اپنے آپ کو پاکستان سے جُدا نہیں سمجھتے ہیں، ہماری مائیں اپنے لخت جگر کوکرگل کے پہاڑوں میں گنوا کر، سیاچن کے برف کے تلے دبا کر، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں شہید کروا کر یہ گلہ نہیں کرتیں  کہ ہماری پہچان کیوں نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کیلئے دعا ئیں کرتی ہیں ۔ ہماری اس کمزوری کو گلگت بلتستان کے سیاسی بہروپیے  سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم نے ہر پارٹی کو یہی نعرہ لگاتے دیکھا کہ ہم خطہ بے آئین کو آئینی حقوق دلائیں گے۔ لڑکپن میں سُنا تھا کہ تحریک جعفریہ کو گلگت بلتستان میں بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت کرنے کا اس لئے موقع ملا کہ انہوں نے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت عوام سے ووٹ مانگا او ر کامیاب ہوگئے لیکن کامیابی کے بعد ترقی کا بس ایک منصوبہ پانچویں صوبے کا نعرہ ہی دفن ہوگیا اور اُنہوں نے مذہبی پلیٹ فارم سے عوام کو بیوقوف بنایا اور حکومت کرکے چلے گئے، لیکن اس حکومت کی وجہ سے گلگت بلتستان میں جیسے انقلاب گلگت کے بانی کرنل مرزا حسن خان کا شیعہ ہونے کی وجہ سے اُس انقلاب کو ناکام کرنے کیلئے ایک بہانہ ملا ،بالکل اسی تحریک جعفریہ کی مسلکی حکومت نے گلگت بلتستان کے دیگر مسالک کو سوچنے پر مجبور کیا، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی مگر اس مسلکی سیاست نے گلگت بلتستان کے معاشرے پر گہری  ضرب لگائی ، اور گلگت بلتستان میں بسنے والے عوام جو پہلے ہی ضیا الحق کے زمانے سے ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں قتل ہورہا تھا اُس میں اضافہ ہوا اور پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلا کر سیاست کرنے والے تکفیری عناصر کو مسلک کے نام پر گلگت بلتستان کے کچھ ریجن میں کام کرنے کا موقع ملا اور اُنہوں نے عوام کا ذہین اتنا خراب کیا جسے ہم نے مختلف سانحات کی شکل میں دیکھ لیا۔
اسی  طرح پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے یہاں کے عوام میں ایک خاص لگاؤ  ہے عوام جو کل تک بھٹو کا نام سُن کر جذباتی ہوجاتے تھے  ج وہ جذباتیت مفقود  ہے، اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ جب یہاں کے باشندوں کو انقلاب گلگت کی ناکامی کے بعد ایف سی آر کے قانون کے  تحت ایک فرد واحد کے ہاتھ میں دے دیا اور انہوں نے مقامی راجوں اور میروں کو اتنا بے لگام چھوڑا کہ عوام اپنے ہی زمینوں پر ہاری کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے لیکن بھٹو نے گلگت بلتستان میں راجگیری کا نظام ختم کرکے مقامی راجاؤں کے زیر تسلط عوام کو احساس دلایا کہ آپ بھی ایک انسان ہیں  اورآپ کو بھی جینے کا حق ہے ،اُنہوں نے   یہاں پاکستانی سٹیزن شب ایکٹ کو نافذ کیا ،ساتھ ہی سٹیٹ سبجیکٹ رول کو رول بیک کیا اور آج ہم بے حقوق کے شہری تو بن گئے لیکن متنازعہ حیثیت بھی برقرار نہ رہی  ،البتہ سٹیٹ سبجیکٹ نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے جہاں ہمیں ہماری بقاء اور جعرافیہ غیر محفوظ  نظر آتا ہے۔
اسی طرح 2009صدارتی آرڈنینس کی بات کریں تو گلگت بلتستان کیلئے تاریخ کا یہ پہلا اور آخری پیکج تھا جس میں گلگت بلتستان کو ناردن ایریا سے ایک خطے کی  شناخت ملی جو بالکل ہی ختم ہوگئی  تھی ۔ اسی کی بنیاد  پر پاکستان پیپلزپارٹی نے بھاری اکثریت سے ووٹ حاصل کر لیا اور عوام کو یقین لادیا کہ اگلا ہدف پاکستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے برابر حقوق دلانا ہے لیکن یہ نعرہ چونکہ فرضی تھا لہذا عمل درآمد نہ ہوسکا، بلکہ اُس دور میں قانون ساز اسمبلی سے کئی بار آئینی صوبے کیلئے متفقہ قراداد پاس ہوئی  ،لیکن چونکہ مطالبہ ناممکن تھا اس وجہ سے وفاق پاکستان نے اس معاملے پر ایک اخباری بیان دینا بھی مناسب نہ سمجھا بلکہ یہی کہتے رہے کہ یہ خطہ مسئلہ کشمیر سے منسلک ایک متنازعہ علاقہ ہے لہذااس قسم کے عمل سے مسئلہ  کشمیر  پر  پاکستان کے موقف پر منفی اثر پڑ سکتا ہے  لیکن ہمارے  عوام چونکہ جیسا  میں نے اوپر ذکر کیا کہ ہماری حُب الوطنی کی انتہاء یہ ہے کہ ہم اس قسم کے اہم نکات پر تحقیق بھی نہیں کرتے بلکہ یقین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں جس سے مسائل ختم ہونے کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اُس دور میں موجودہ وزیر اعلیٰ نے اُس پیکج کی مخالفت کی اور اس پیکج کو رول بیک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔
اسی طرح ٹیکس ایڈاپٹیشن بھی اُسی پیکج کی مرہون منت ہے جسے عوام نے اب سمجھنا شروع کیا ہے کہ اُس پیکج میں ہمارے حقوق کے بجائے مسائل  زیادہ تھے جسے عوام نے صوبہ سمجھ کر جشن منایا۔ خیر پی پی حکومت نے لاجواب کرپشن کی، تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کیا، رشوت بازاری حکومتی نظام کا حصہ اور ادارے تباہ برباد ہوگئے، تعلیم یافتہ لوگ قابلیت کے باجود رشوت دینے کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دفتروں کے چکر لگاتے رہ گئے مگر ٹیکسی اور ٹریکٹر ڈارئیور سرکاری  سکولوں میں اُستاد بن گئے۔ جب اُن کا سورج غروب ہوگیا تو وفاق میں چونکہ نون لیگ کی حکومت تھی لہذا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں عوام بھلے ہی  جس کو بھی ووٹ دے جیتے  وہی  ہیں جن کے ہاتھ میں وفاق کی چابی  ہے اور یہی کچھ ہوا نون لیگ اور مذہبی جماعتوں میں ،ٹھیک ٹھاک ٹاکرا ہوا، موجودہ وزیر اعلیٰ نے فرقہ ازم کا نعرہ لگایا اور دیامر میں اس حوالے سے کئی اہم مذہبی شخصیات کے ذریعے سیاسی کمپئین چلائی  اور یہی کہا گیا کہ شیعہ وزیر اعلیٰ نے تمام پروجیکٹ سکردو میں لگاکر آپ کو نظر انداز کیا ہے۔ لہذا اُنہوں نے ایسا نقشہ کھنچا کہ عوام سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اس بات  پر اگر حفیظ الرحمن کو سپورٹ نہیں کرتے تو شاید گھروں میں رہنا بھی مشکل ہوجائے۔لیکن آج اُن علاقوں کے عوام نے بھی اُس نعرے کو مسترد کیا اور اُن سے بیزار نظر آتے  ہیں ۔
دوسری طرف بلتستان ریجن میں لوٹا کریسی اور مسلکی سیاست کے تحت ایسا تاثر دیا کہ ہم نون لیگ میں رہ کر سیاست کریں گے ورنہ شیعوں کیلئے مسائل میں اضافہ ہوگا اور مسلکی کارڈ اور آئینی صوبے کے نعرے میں پھر ایک بار تیزی آگئی حالانکہ یہ وہی لوگ تھے جو کبھی تحریک جعفریہ میں تھے کبھی پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے عوام کو بیوقوف بناتے رہے لیکن عوام چونکہ آئینی حقوق کے معاملے میں جھوٹ پر بھی یقین رکھتے ہیں اس لئے یقین کیا اور علامہ ساجد نقوی کی پارٹی خاموشی نے  نون لیگ کی حمایت کی اور نون لیگ جیت گئی، لیکن آئینی حقوق کا نعرہ دفن ہوگیا۔ اس کے بعد سی پیک کی مرہون منت   یہ خطہ جو ایک زمانے میں قتل گاہ بنا ہوا تھا یہاں امن امان کا ماحول پیدا ہوگیا لیکن حفیظ الرحمن آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ امن امان اُن کی وجہ سے برقرار ہے یعنی اگر ماضی میں اگر امن خراب ہونے کی وجہ اُن کا کرسی سے دور ہونا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ خود ایسا تاثر دے رہا ہے۔
بحرحال 2013گندم سبسڈی تحریک ہے، لیکن 2017ٹیکس مخالف تحریک میں بھی عوام جذباتی ہوگئے جس کا تعلق براہ راست پیٹ سے ہے کیونکہ متنازعہ حیثیت کی وجہ سے یہاں نہ کوئی انڈسٹری لگی ہے نہ ہی روزگار کے دیگر مواقع موجود ہیں ایسے میں عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کرنا یقیناًحکومتوں کی بہت بڑی غلطی تھی ،اس غلطی کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کی  نئی  نسل  مکمل طور پر بیدار ہوچُکی ہے اور آئینی حقوق جیسے غیر ممکن نعروں کے متبادل قانونی اور آئینی طور پر ممکن سیٹ اپ کیلئے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں عوام کو معلومات کی رسائی بہت  زیادہ آسان ہوگئی  ہے، گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے باجود بھی لوگ کسی نہ کسی طرح سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام اب سمجھ گئے ہیں کہ گندم سبسڈی سے لے کر  سی پیک میں محروم ہونے تک اور ٹیکس ایڈاپٹیشن   کی منسوخی کا مطالبہ منظور ہونے تک کے سفر میں یہ بات واضح ہوگئی  کہ حکومت لاکھ جھوٹ بولے اور الزمات لگائے سچ یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے  حل تک گلگت بلتستان کو آئینی طور پر پاکستان میں شامل کرنا عوامی مطالبات کے باجود مملکت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
لہذا ہماری حُب الوطنی یہی ہے کہ ہم متنازعہ ہونے کے باوجود پاکستان کے وفادار ہیں ہمارے عوام کو الزمات لگا کر مقامی حکمران پاکستان دشمن عناصر کے عزائم کو فروغ دے رہا ہے لہذا گلگت بلتستان کے طرزی وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا کہ ٹیکس مخالف تحریک نے آئینی حقوق کے معاملے کو گول کرکے پس پشت ڈال دیا، ایک سیاسی نعرہ ہے اور اس نعرے کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں کیونکہ گلگت بلتستان کی قسمت کا فیصلہ اُس وقت ممکن ہے جب مسئلہ  کشمیر کے  حل کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریاست جموں کشمیر میں استصواب رائے ہوگا۔ لہذا ٹیکس کے خلاف تحریک ایک بہترین فیصلہ تھا جس میں عوام نے اُنگلیاں اُٹھا کرآمریت کے لہجے میں سرد موسم میں احتجاجی عوام کو گرم کمروں میں بیٹھ کر ویڈیو پیغام دینے والوں کو آئینہ  دکھا کر یہ بتا دیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام کی  پاکستان سے محبت کیلئے حفیظ الرحمن کی کرسی شرط نہیں بلکہ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کا فلسفہ مقدم ہے۔ لہذا اب گلگت بلتستان کے تمام وفاقی اور مذہبی سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ میں آجا نی  چاہے کہ گلگت بلتستان میں  آئینی حقوق کے نام پر جو آپ سب نے عوام کو گمراہ کیا اُسے عوام نے کرگل کے بارڈر سے لے کر بھاشا کے آخری چوک تک متنازعہ گلگت بلتستان کا بینر  لگا کر مسترد کردیا۔
لہذا اقوام متحدہ کے   چارٹرڈ کے مطابق سیٹ سبجیکٹ بحالی اور داخلی خود مختاری جس میں اس خطے کی آئینی اور قانونی پہچان ہو اُس کیلئے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کریں اور سی پیک میں بطور سٹیک ہولڈر کے شامل ہونے کیلئے کوشش کریں کیونکہ اب تمام قسم کے منفی پروپیگنڈوں اور جھوٹے نعروں کی ہوا نکل چُکی ہے۔ پاکستان زندہ باد گلگت بلتستان پائندہ باد۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply